سنن ابي داود
مسدد بن مسرهد الأسدي (حدثنا / عن) حماد بن زيد الأزدي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
79
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ يَتَوَضَّئُونَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُسَدَّدٌ: مِنَ الْإِنَاءِ الْوَاحِدِ جَمِيعًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں ایک ہی برتن سے ایک ساتھ وضو کرتے تھے۔
صحيح دون قوله من الإناء الواحد
سنن ابي داود
352
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّاسُ مُهَّانَ أَنْفُسِهِمْ، فَيَرُوحُونَ إِلَى الْجُمُعَةِ بِهَيْئَتِهِمْ، فَقِيلَ لَهُمْ: لَوِ اغْتَسَلْتُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ اپنے کام خود کرتے تھے، اور جمعہ کے لیے اسی حالت میں چلے جاتے تھے (ان کی بو سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، جب اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا) تو ان لوگوں سے کہا گیا: کاش تم لوگ غسل کر کے آتے۔
صحيح
سنن ابي داود
431
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ أَنْتَ إِذَا كَانَتْ عَلَيْكَ أُمَرَاءُ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ؟ أَوْ قَالَ: يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَهَا مَعَهُمْ فَصَلِّهَا، فَإِنَّهَا لَكَ نَافِلَةٌ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حاکم و سردار ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے؟ یا فرمایا: نماز کو تاخیر سے پڑھیں گے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نماز وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو ۱؎، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی۔
صحيح
سنن ابي داود
4
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ، قَالَ: عَنْ حَمَّادٍ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ جاتے (حماد کی روایت میں ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم «اللهم إني أعوذ بك» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہتے، اور عبدالوارث کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «أعوذ بالله من الخبث والخبائث» میں ناپاک جن مردوں اور ناپاک جن عورتوں (کے شر) سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہتے۔
صحيح
سنن ابي داود
955
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بُدَيْلَ بْنَ مَيْسَرَةَ، وَأَيُّوبَ يُحَدِّثَانِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا، وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں کبھی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور کبھی دیر تک بیٹھ کر، جب کھڑے ہو کر پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1640
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا"، ثُمَّ قَالَ:" يَا قَبِيصَةُ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُولَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَى مِنْ قَوْمِهِ قَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا الْفَاقَةُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ ثُمَّ يُمْسِكُ، وَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتٌ يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا".
قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہو گیا، چنانچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں، پھر فرمایا: قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑ گیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کر دیا ہو، اس کے لیے بھی مانگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آ جائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1844
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1886
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ حَدَّثَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَقَدْ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ قَوْمٌ قَدْ وَهَنَتْهُمُ الْحُمَّى وَلَقُوا مِنْهَا شَرًّا، فَأَطْلَعَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا قَالُوهُ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ، وَأَنْ يَمْشُوا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، فَلَمَّا رَأَوْهُمْ رَمَلُوا، قَالُوا: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ ذَكَرْتُمْ أَنَّ الْحُمَّى قَدْ وَهَنَتْهُمْ، هَؤُلَاءِ أَجْلَدُ مِنَّا"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَلَمْ يَأْمُرْهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا إِلَّا إِبْقَاءً عَلَيْهِمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا تھا، تو مشرکین نے کہا: تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنا دیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کر دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے: یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2346
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتُ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ يَخْطُبُ، وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعَنَّ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا بَيَاضُ الْأُفْقِ الَّذِي هَكَذَا حَتَّى يَسْتَطِيرَ".
سوادہ قشیری کہتے ہیں کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان ہرگز نہ روکے اور نہ آسمان کے کنارے کی سفیدی (صبح کاذب) ہی باز رکھے، جو اس طرح (لمبائی میں) ظاہر ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ پھیل جائے۔
صحيح
سنن ابي داود
2836
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مِثْلَانِ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا هُوَ الْحَدِيثُ وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَهْمٌ.
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عقیقے میں) لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہی دراصل حدیث ہے، اور سفیان کی حدیث (نمبر: ۲۸۳۵) وہم ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2996
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا پہلے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آ گئی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئیں۔
صحيح
سنن ابي داود
3240
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، بِمَعْنَى سُلَيْمَانَ: فِي ثَوْبَيْنِ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سلیمان کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے اس میں «في ثوبين» ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3457
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْوَضِيءِ، قَالَ: غَزَوْنَا غَزْوَةً لَنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَبَاعَ صَاحِبٌ لَنَا فَرَسًا بِغُلَامٍ، ثُمَّ أَقَامَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا، فَلَمَّا أَصْبَحَا مِنَ الْغَدِ حَضَرَ الرَّحِيلُ، فَقَامَ إِلَى فَرَسِهِ يُسْرِجُهُ، فَنَدِمَ فَأَتَى الرَّجُلَ وَأَخَذَهُ بِالْبَيْعِ، فَأَبَى الرَّجُلُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَبُو بَرْزَةَ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيَا أَبَا بَرْزَةَ فِي نَاحِيَةِ الْعَسْكَرِ، فَقَالَا: لَهُ هَذِهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: أَتَرْضَيَانِ أَنْ أَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا"، قَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: حَدَّثَ جَمِيلٌ، أَنَّهُ قَالَ: مَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا.
ابوالوضی کہتے ہیں ہم نے ایک جنگ لڑی ایک جگہ قیام کیا تو ہمارے ایک ساتھی نے غلام کے بدلے ایک گھوڑا بیچا، اور معاملہ کے وقت سے لے کر پورا دن اور پوری رات دونوں وہیں رہے، پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی اور کوچ کا وقت آیا، تو وہ (بیچنے والا) اٹھا اور (اپنے) گھوڑے پر زین کسنے لگا اسے بیچنے پر شرمندگی ہوئی (زین کس کر اس نے واپس لے لینے کا ارادہ کر لیا) وہ مشتری کے پاس آیا اور اسے بیع کو فسخ کرنے کے لیے پکڑا تو خریدنے والے نے گھوڑا لوٹانے سے انکار کر دیا، پھر اس نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوبرزہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں (وہ جو فیصلہ کر دیں ہم مان لیں گے) وہ دونوں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اس وقت ابوبرزہ لشکر کے ایک جانب (پڑاؤ) میں تھے، ان دونوں نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں تمہارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: دونوں خرید و فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک بیع فسخ کر دینے کا اختیار ہے، جب تک کہ وہ دونوں (ایک مجلس سے) جدا ہو کر ادھر ادھر نہ ہو جائیں۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ جمیل نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ تم دونوں جدا نہیں ہوئے ہو ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
4261
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ فِيهِ: كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ يَعْنِي الْقَبْرَ، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَوْ قَالَ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ، أَوْ قَالَ تَصْبِرُ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: كَيْفَ أَنْتَ إِذَا رَأَيْتَ أَحْجَارَ الزَّيْتِ قَدْ غَرِقَتْ بِالدَّمِ، قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ: عَلَيْكَ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا آخُذُ سَيْفِي وَأَضَعُهُ عَلَى عَاتِقِي، قَالَ: شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذَنْ، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: تَلْزَمُ بَيْتَكَ، قُلْتُ: فَإِنْ دُخِلَ عَلَيَّ بَيْتِي، قَالَ: فَإِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ ثَوْبَكَ عَلَى وَجْهِكَ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرِ الْمُشَعَّثَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میں نے عرض کیا: تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر انہوں نے حدیث ذکر کی اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! اس دن تمہارا کیا حال ہو گا؟ جب مدینہ میں اتنی موتیں ہوں گی کہ گھر یعنی قبر ایک غلام کے بدلہ میں ملے گا؟ ۱؎ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، یا کہا: اللہ اور اس کے رسول میرے لیے ایسے موقع پر کیا پسند فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: صبر کو لازم پکڑنا یا فرمایا: صبر کرنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ارشاد فرمائیں تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا جب تم احجار الزیت ۲؎ کو خون میں ڈوبا ہوا دیکھو گے میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کے رسول میرے لیے پسند فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ کو لازم پکڑنا جہاں کے تم ہو ۳؎، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کر اسے اپنے کندھے پر نہ رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو تم ان کے شریک بن جاؤ گے میں نے عرض کیا: پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر کو لازم پکڑنا میں نے عرض کیا: اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلواروں کی چمک تمہاری نگاہیں خیرہ کر دے گی تو تم اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لینا (اور قتل ہو جانا) وہ تمہارا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے گا۔
صحيح
سنن ابي داود
4409
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، عَنِ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ يَعْنِي الْقَبْرَ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَوْ مَا خَارَ لِي اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ، أَوْ قَالَ: تَصْبِرُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ يُقْطَعُ النَّبَّاشُ: لِأَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْمَيِّتِ بَيْتَهُ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میں نے کہا: حاضر ہوں، اور حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب لوگوں کو موت پہنچے گی اور گھر یعنی قبر ایک خادم کے بدلہ میں خریدی جائیگی؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، یا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر کو لازم پکڑنا یا فرمایا: اس دن صبر کرنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن ابی سلیمان کہتے ہیں: کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ میت کے گھر میں گھسا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4709
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس نے کہا: پھر عمل کرنے والے کس بنا پر عمل کریں؟ آپ نے فرمایا: ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4931
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ فَرُبَّمَا دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي الْجَوَارِي، فَإِذَا دَخَلَ خَرَجْنَ وَإِذَا خَرَجَ دَخَلْنَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے، میرے پاس لڑکیاں ہوتیں، تو جب آپ اندر آتے تو وہ باہر نکل جاتیں اور جب آپ باہر نکل جاتے تو وہ اندر آ جاتیں۔
صحيح
سنن ابي داود
5044
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ بَعْضِ آلِ أُمِّ سَلَمَةَ" كَانَ فِرَاشُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِمَّا يُوضَعُ الْإِنْسَانُ فِي قَبْرِهِ، وَكَانَ الْمَسْجِدُ عِنْدَ رَأْسِهِ".
ام سلمہ کی اولاد میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اس طرح بچھایا جاتا جس طرح انسان اپنی قبر میں لٹایا جاتا ہے، اور مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ یا مسجد نبوی) آپ کے سرہانے ہوتی۔
ضعيف
سنن ابي داود
5151
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى قُلْتُ لَيُوَرِّثَنَّهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل مجھے برابر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں (دل میں) کہنے لگا کہ وہ ضرور اسے وارث بنا دیں گے۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.