الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
47. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ
47. باب: قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1037
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا الشيباني، حدثنا الشعبي، اخبرني من راى النبي صلى الله عليه وسلم وراى قبرا منتبذا، فصف اصحابه خلفه فصلى عليه، فقيل له: من اخبركه؟ فقال: ابن عباس. قال: وفي الباب، عن انس، وبريدة، ويزيد بن ثابت، وابي هريرة، وعامر بن ربيعة، وابي قتادة، وسهل بن حنيف. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يصلى على القبر، وهو قول: مالك بن انس، وقال عبد الله بن المبارك: إذا دفن الميت ولم يصل عليه، صلي على القبر، وراى ابن المبارك الصلاة على القبر، وقال احمد، وإسحاق: يصلى على القبر إلى شهر، وقالا: اكثر ما سمعنا عن ابن المسيب، " ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى على قبر ام سعد بن عبادة بعد شهر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى قَبْرًا مُنْتَبِذًا، فَصَفَّ أَصْحَابَهُ خَلْفَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: مَنْ أَخْبَرَكَهُ؟ فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، صُلِّيَ عَلَى الْقَبْرِ، وَرَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ الصَّلَاةَ عَلَى الْقَبْرِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ إِلَى شَهْرٍ، وَقَالَا: أَكْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَهْرٍ ".
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبر پر نماز پڑھی جائے گی ۱؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے،
۵ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کر دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس کی نماز جنازہ قبر پر پڑھی جائے گی،
۶- ابن مبارک قبر پر نماز (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں،
۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: قبر پر نماز ایک ماہ تک پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی نماز جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان61 (857) والجنائز5 (1247) و54 (1419) و55 (1324) 59 (1326) و66 (1336) و69 (1340) صحیح مسلم/الجنائز23 (954) سنن ابی داود/ الجنائز58 (3196) سنن النسائی/الجنائز94 (2025) سنن ابن ماجہ/الجنائز32 (1530) (تحفة الأشراف: 5766) مسند احمد (1/338) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ لوگ باب کی حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے «إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم» ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قبر کو منور کرنے کے لیے تھی اور یہ دوسروں کی نماز میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی آپ نے انہیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائز ہے اور اگر یہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتا دوسروں کے لیے جائز نہ ہوتا تو آپ انہیں ضرور منع فرما دیتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1530)

   صحيح البخاري857عبد الله بن عباسمن مر مع النبي على قبر منبوذ فأمهم وصفوا عليه
   صحيح البخاري1336عبد الله بن عباسمر مع النبي على قبر منبوذ أنه أمهم وصلوا خلفه
   صحيح البخاري1326عبد الله بن عباسصفنا خلفه ثم صلى عليها
   صحيح البخاري1322عبد الله بن عباسمر مع نبيكم على قبر منبوذ فأمنا فصففنا خلفه
   صحيح البخاري1321عبد الله بن عباسأفلا آذنتموني قالوا دفناه في ظلمة الليل فكرهنا أن نوقظك قام فصففنا خلفه فصلى عليه
   صحيح البخاري1340عبد الله بن عباسصلى النبي على رجل بعد ما دفن بليلة قام هو وأصحابه وكان سأل عنه فقال من هذا فقالوا فلان دفن البارحة فصلوا عليه
   صحيح البخاري1319عبد الله بن عباسأتى على قبر منبوذ فصفهم وكبر أربعا
   جامع الترمذي1037عبد الله بن عباسرأى قبرا منتبذا فصف أصحابه خلفه فصلى عليه
   سنن أبي داود3196عبد الله بن عباسمر بقبر رطب فصفوا عليه وكبر عليه أربعا
   سنن النسائى الصغرى2025عبد الله بن عباسأمهم وصف خلفه
   سنن النسائى الصغرى2026عبد الله بن عباسمر بقبر منتبذ فصلى عليه وصف أصحابه خلفه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1037  
´قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1037]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے (إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم) ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتا توآپ انھیں ضرور منع فرما دیتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1037   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.