الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سجود قرآن کے مسائل
The Book of Prostration During The Recitation of The Quran.
12. بَابُ مَنْ لَمْ يَجِدْ مَوْضِعًا لِلسُّجُودِ مِنَ الزِّحَامِ:
12. باب: جو شخص ہجوم کی وجہ سے سجدہ تلاوت کی جگہ نہ پائے۔
(12) Chapter. Whoever dose not find a place for prostration (with the Imam) because of overcrowding.
حدیث نمبر: 1079
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا صدقة بن الفضل، قال: اخبرنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرا السورة التي فيها السجدة، فيسجد ونسجد معه حتى ما يجد احدنا مكانا لموضع جبهته".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السُّورَةَ الَّتِي فِيهَا السَّجْدَةُ، فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا مَكَانًا لِمَوْضِعِ جَبْهَتِهِ".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی سورۃ کی تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں کسی کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔ (معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سجدہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے) «والله أعلم» ۔

Narrated Ibn `Umar.: Whenever the Prophet recited the Sura which contained the prostration of recitation he used to prostrate and then, we, too, would prostrate and some of us did not find a place for prostration.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 19, Number 185


   صحيح البخاري1079عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه حتى ما يجد أحدنا مكانا لموضع جبهته
   صحيح البخاري1076عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه فنزدحم حتى ما يجد أحدنا لجبهته موضعا يسجد عليه
   صحيح البخاري1075عبد الله بن عمريسجد ونسجد حتى ما يجد أحدنا موضع جبهته
   صحيح مسلم1295عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه حتى ما يجد بعضنا موضعا لمكان جبهته
   سنن أبي داود1412عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه حتى لا يجد أحدنا مكانا لموضع جبهته
   سنن أبي داود1413عبد الله بن عمريقرأ علينا القرآن فإذا مر بالسجدة كبر وسجد وسجدنا
   بلوغ المرام276عبد الله بن عمريقرا علينا القران فإذا مر بالسجدة كبر وسجد وسجدنا معه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 276  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
‏‎‍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ جب آیت سجدہ پر سے گزرتے تو اللہ اکبر کہ کر سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی سجدہ کرتے۔
ابوداؤد نے اسے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 276»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الرجل يسمع السجده وهو راكب، حديث:1413.* عبدالله بن عمر العمري ضعيف لكنه حسن الحديث عن نافع.»
تشریح:
1. امام حاکم نے اس روایت کو عبیداللہ عمری کے حوالے سے نقل کیا ہے جسے انھوں نے ثقہ کہا ہے‘ اور اس حدیث کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔
اور ابوداود کی روایت جسے متن میں بیان کیا گیا ہے عبداللہ اکبر کی ہے‘ وہ ضعیف راوی ہے۔
مستدرک حاکم کی روایت جسے امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے اس میں تکبیر کا ذکر نہیں ہے۔
غالباً اسی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کی بابت لکھا ہے کہ اس میں تکبیر کا ذکر منکر ہے۔
تکبیر کے بغیر مذکورہ روایت صحیح ہے جیسا کہ امام حاکم نے بھی تکبیر کے بغیر والی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔
2. سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز ہی کی طرح ہے‘ لہٰذا افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے اور سات اعضاء پر سجدہ کرے۔
اور اگر اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوئے بغیر‘ بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کر دے تو بھی جائز ہے۔
سجدے کو جاتے اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے‘ جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔
(سنن النسائي‘ التطبیق‘ حدیث:۱۱۵۰‘ ۱۱۵۱) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
چونکہ سجدۂ تلاوت بھی نماز کی طرح ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کرنے کی صورت میں صرف سجدے کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔
نماز کے علاوہ سجدے سے سراٹھاتے وقت اللہ اکبر اور بعد میں سلام پھیرنا مروی نہیں۔
3.بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے ہوئے اللہ اکبرکہے اور فارغ ہو کر سلام پھیرے۔
لیکن اس موقف کے حاملین کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے‘ اس لیے سجدہ کو جاتے ہوئے اللہ اکبر اور فراغت کے بعد سلام کہنا ضروری نہیں‘ ہاں اگر کوئی دیگر عمومات سے استدلال کرتے ہوئے صرف جواز کو اپناتا ہے اور تکبیر وغیرہ کہہ لیتا ہے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے) کے لیے سنت ہے۔
اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع میں سجدہ کرنا چاہیے۔
4.افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت باوضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
5.سجدۂ تلاوت کی معروف دعا «سَجَدَ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ خَلَقَہُ وَ صَوَّرَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ‘ تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ» (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۷۱) کا سجدۂ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں۔
تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے‘ وہ یہ ہے: «اَللّٰھُمَّ اکْتُبْ لِي بِھَا عِنْدَکَ أَجْرًا‘ وَضَعْ عَنِّي بِھَا وِزْرًا وَاجْعَلْھَا لِي عِنْدَکَ ذُخْرًا‘ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ» (جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ باب ماجاء مایقول في سجود القرآن‘ حدیث:۵۷۹‘ وسنن ابن ماجہ ‘ حدیث: ۱۰۵۳‘ وصحیح ابن خزیمۃ‘ حدیث:۵۶۲‘ ۵۶۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
(فتوحات ربانیہ: ۲ /۲۷۶) نیز امام ابن خزیمہ‘ حاکم‘ ابن حبان‘ شیخ احمد شاکر اور شیخ البانی رحمہم اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابوداود (اُردو) مطبوعہ دارالسلام) جلد دوم‘ حدیث:۱۴۱۴ کے فوائد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 276   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1412  
´سوار یا وہ شخص جو نماز میں نہ ہو سجدے کی آیت سنے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سورۃ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) نماز کے علاوہ میں (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1412]
1412. اردو حاشیہ:
➊ حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ کہ اذدحام کی وجہ سے اگر کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی۔ تو وہ اپنے ساتھی کی کمر پر ہی سجدہ کرلیتا۔ [فتح الباري:723/2]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قاری اور سامع نماز میں نہ ہوں۔ تو ان دونوں کا آپس میں ربط ضروری نہیں۔ خواہ کوئی لمبا سجدہ کرے۔ اور دوسرا مختصر ایک پہلے اٹھ جائے۔ اور دوسرا بعد میں اس طرح اگر پڑھنے والا سجدہ نہ بھی کرے۔ تو سننے والا کرسکتا ہے۔ با وضو ہو یا بے وضو مرد ہو عورت یا بچہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1412   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1079  
1079. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کوئی ایسی سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو سجدہ فرماتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے حتی کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1079]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام مسلم ؒ نے یہ اضافہ بیان فرمایا ہے کہ اس قدر رش وقت نماز کے علاوہ ہوتا تھا۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1296(575) (2)
حضرت ابن عمر ؓ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔
اس بنا پر علمائے امت میں اختلاف ہوا۔
امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ اگر ہجوم کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے تو لوگوں کی پشت پر سجدہ کر لینا جائز ہے جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتظار کرنا چاہیے، جب لوگ سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو دوسرے سجدہ کر لیں لیکن طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں کو رش کی وجہ سے جگہ نہ ملتی تو دوسروں کی پشت پر سجدہ کر لیتے۔
اس سے امام بخاری ؒ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اپنی استطاعت کے مطابق سجدہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنے بھائی کی پشت ہی پر کرنا پڑے۔
(فتح الباري: 723/2)
اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فوراً ضروری نہیں، اسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
(4)
رسول اللہ ﷺ نماز میں جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے، اس لیے سجدۂ تلاوت کے لیے جھکتے وقت بھی اللہ أکبر کہنا چاہیے۔
اس سلسلے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔
اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لیے کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنا اور سجدۂ تلاوت سے فراغت کے بعد سلام پھیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(5)
سجدۂ تلاوت میں یہ دعا پڑھنی چاہیے:
(اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ) (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 579)
اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو درج ذیل دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے:
(سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ) (سنن أبي داود، سجود القرآن، حدیث: 1414)
"فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ" کے الفاظ مستدرک حاکم میں ہیں۔
(المستدرك للحاکم: 220/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1079   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.