الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: رضاعت کے احکام و مسائل
The Book on Suckling
15. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ تُسَافِرَ الْمَرْأَةُ وَحْدَهَا بِغَيْرِ مَحْرَمٍ
15. باب: عورت کے تنہا سفر کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1169
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر، ان تسافر سفرا يكون ثلاثة ايام فصاعدا إلا ومعها ابوها، او اخوها، او زوجها، او ابنها، او ذو محرم منها ". وفي الباب: عن ابي هريرة، وابن عباس، وابن عمر. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " لا تسافر المراة مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم "، والعمل على هذا عند اهل العلم، يكرهون للمراة ان تسافر إلا مع ذي محرم واختلف اهل العلم في المراة، إذا كانت موسرة، ولم يكن لها محرم هل تحج؟، فقال: بعض اهل العلم لا يجب عليها الحج، لان المحرم من السبيل لقول الله عز وجل: من استطاع إليه سبيلا سورة آل عمران آية 97، فقالوا: إذا لم يكن لها محرم، فلا تستطيع إليه سبيلا، وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة، وقال بعض اهل العلم: إذا كان الطريق آمنا فإنها تخرج مع الناس في الحج، وهو قول: مالك، والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا يَكُونُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا، أَوْ أَخُوهَا، أَوْ زَوْجُهَا، أَوِ ابْنُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا ". وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا تُسَافِرُ الْمَرْأَةُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ "، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَكْرَهُونَ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تُسَافِرَ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَرْأَةِ، إِذَا كَانَتْ مُوسِرَةً، وَلَمْ يَكُنْ لَهَا مَحْرَمٌ هَلْ تَحُجُّ؟، فَقَالَ: بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَجِبُ عَلَيْهَا الْحَجُّ، لِأَنَّ الْمَحْرَمَ مِنَ السَّبِيلِ لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97، فَقَالُوا: إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا مَحْرَمٌ، فَلَا تَسْتَطِيعُ إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ الطَّرِيقُ آمِنًا فَإِنَّهَا تَخْرُجُ مَعَ النَّاسِ فِي الْحَجِّ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن ۱؎ یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: عورت ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کسی محرم کے بغیر نہ کرے۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے کہ محرم کے بغیر سفر کرے۔ اہل علم کا اس عورت کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو حج کی استطاعت رکھتی ہو لیکن اس کا کوئی محرم نہ ہو تو وہ حج کرے یا نہیں؟ بعض اہل علم کہتے ہیں: اس پر حج نہیں ہے، اس لیے کہ محرم بھی اللہ تعالیٰ کے ارشاد «من استطاع إليه سبيلا» میں استطاعت سبیل میں داخل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس کا کوئی محرم نہ ہو تو وہ استطاعت سبیل نہیں رکھتی۔ یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب راستہ مامون ہو، تو وہ لوگوں کے ساتھ حج میں جا سکتی ہے۔ یہی مالک اور شافعی کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 74 (1340)، سنن ابی داود/ المناسک 2 (1726)، سنن ابن ماجہ/المناسک 2 (1723)، مسند احمد (2/340، 493) (تحفة الأشراف: 14316)، سنن الدارمی/الاستئذان 46 (2720) (صحیح) وأخرجہ: صحیح البخاری/فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة 6 (1197)، وجزاء الصید 26 (1864)، والصوم 67 (1995)، من غیر ہذا الوجہ وبلفظ ”سفر یومین“»

وضاحت:
۱؎: اس میں تین دن کا ذکر ہے، بعض روایتوں میں دو اور بعض میں ایک دن کا ذکر ہے، اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو یا تین دن کا اعتبار نہیں اصل اعتبار سفر کا ہے کہ اتنی مسافت ہو جس کو سفر کہا جا سکے اس میں تنہا عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔
۲؎: محرم سے مراد شوہر کے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتہ دار ہیں جن سے اس کا کبھی نکاح نہیں ہو سکتا، جیسے باپ، بیٹا، بھائی، بھتیجا اور بھانجا اور اسی طرح رضاعی باپ، بیٹا، بھائی، بھتیجا اور بھانجا ہیں، داماد بھی انہیں میں ہے، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز ہے، ان کے علاوہ کسی کے ساتھ سفر پر نہیں جا سکتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2898)

   صحيح البخاري1197سعد بن مالكلا تسافر المرأة يومين إلا معها زوجها أو ذو محرم لا صوم في يومين الفطر الأضحى لا صلاة بعد صلاتين بعد الصبح حتى تطلع الشمس بعد العصر حتى تغرب لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام ومسجد الأقصى ومسجدي
   صحيح البخاري1864سعد بن مالكلا تسافر امرأة مسيرة يومين ليس معها زوجها أو ذو محرم لا صوم يومين الفطر الأضحى لا صلاة بعد صلاتين بعد العصر حتى تغرب الشمس بعد الصبح حتى تطلع الشمس لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام مسجدي مسجد الأقصى
   صحيح البخاري1995سعد بن مالكلا تسافر المرأة مسيرة يومين إلا ومعها زوجها أو ذو محرم لا صوم في يومين الفطر الأضحى لا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس لا بعد العصر حتى تغرب لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام مسجد الأقصى مسجدي هذا
   صحيح مسلم3263سعد بن مالكلا تسافر المرأة ثلاثا إلا مع ذي محرم
   صحيح مسلم3264سعد بن مالكلا تسافر امرأة فوق ثلاث ليال إلا مع ذي محرم
   صحيح مسلم3270سعد بن مالكلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها أو ابنها أو زوجها أو أخوها أو ذو محرم منها
   جامع الترمذي1169سعد بن مالكلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها أو أخوها أو زوجها أو ابنها أو ذو محرم منها
   سنن أبي داود1726سعد بن مالكلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا فوق ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها أو أخوها أو زوجها أو ابنها أو ذو محرم منها
   سنن ابن ماجه2898سعد بن مالكلا تسافر المرأة سفرا ثلاثة أيام فصاعدا إلا مع أبيها أو أخيها أو ابنها أو زوجها أو ذي محرم
   بلوغ المرام558سعد بن مالكنهى عن صيام يومين: يوم الفطر ويوم النحر
   بلوغ المرام578سعد بن مالك‏‏‏‏لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي هذا والمسجد الاقصى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 578  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے تین مسجدوں کے (کسی کے لئے) کجاوے نہ باندھو۔ (یعنی) مسجد الحرام، میری اس مسجد اور مسجد اقصی (کے علاوہ)۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 578]
578 لغوی تشریح:
«لَا تُشَدُّ الرِّجَالُ» مجہول کا صیغہ ہے اور اس میں احتمال ہے کہ یہ فعل نفی ہو یا فعل نہی۔
«اِلرِّجَال» «رحل» کی جمع ہے اور وہ اونٹ کے کجاوے کو کہتے ہیں، جیسے گھوڑے کی کاٹھی ہوتی ہے۔ اور کجاوے باندھنا استعمال کر کے سفر سے کنایہ کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر سفر کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور معنی یہ ہیں کہ حصول برکت و فضیلت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے۔ اور ایک روایت میں «لَا تَشُدُّوا» یعنی نہی کا صیغہ جمع مذکر ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان تین مقامات کے علاوہ کسی بھی مقام کو باعث برکت سمجھ کر نیک اور صالح لوگوں کی زیارت کرنا، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ یا وہاں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا درست نہیں۔
➋ تبرک کی تخصیص اس لیے ہے کہ ان تین مساجد کی طرف سفر اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ان کے علاوہ دوسرے مقامات کی طرف سفر کی ممانعت بھی اسی مقصد سے مختص ہے، البتہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے سفر کرنا جائز ہے بلکہ بسا اوقات واجب ہے جس کی تفصیل الصارم المنکی وغیرہ مطول کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
➋ یہ حدیث ان تینوں مقامات کے شرف و فضل پر دلالت کرتی ہے اور اسے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان مقامات میں اعتکاف کیا جائے، وہاں عبادت اور ذکر و تلاوت کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 578   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1169  
´عورت کے تنہا سفر کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن ۱؎ یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1169]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں تین دن کا ذکرہے،
بعض روایتوں میں دو اوربعض میں ایک دن کا ذکرہے،
اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو یا تین دن کا اعتبارنہیں اصل اعتبارسفرکا ہے کہ اتنی مسافت ہو جس کو سفرکہا جا سکے اس میں تنہاعورت کے لیے سفرکرنا جائزنہیں۔

2؎:
محرم سے مراد شوہرکے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتہ دارہیں جن سے اس کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا،
جیسے باپ،
بیٹا،
بھائی،
بھتیجا اور بھانجا اوراسی طرح رضاعی باپ،
بیٹا،
بھائی،
بھتیجا اور بھانجا ہیں،
داماد بھی انہیں میں ہے،
ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز ہے،
ان کے علاوہ کسی کے ساتھ سفرپرنہیں جا سکتی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1169   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.