الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
88. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ لِلْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ
88. باب: جنبی جب سونا چاہے تو وضو کر لے۔
حدیث نمبر: 120
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم: اينام احدنا وهو جنب؟ قال: " نعم إذا توضا ". قال: وفي الباب، عن عمار , وعائشة , وجابر , وابي سعيد , وام سلمة. قال ابو عيسى: حديث عمر احسن شيء في هذا الباب واصح، وهو قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: إذا اراد الجنب ان ينام توضا قبل ان ينام.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَمَّارٍ , وَعَائِشَةَ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا أَرَادَ الْجُنُبُ أَنْ يَنَامَ تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ.
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب وہ وضو کر لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عمار، عائشہ، جابر، ابوسعید اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- عمر رضی الله عنہ والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے،
۳- یہی قول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وہ سونے سے پہلے وضو کر لے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 6 (306)، (تحفة الأشراف: 10552)، مسند احمد (1/17، 35) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں، یہ وضو واجب ہے یا غیر واجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے، جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واجب ہے۔ اور پہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔
۲؎: یعنی مستحب ہے کہ وضو کر لے، یہی جمہور کا مذہب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (585)

   صحيح البخاري287عبد الله بن عمرنعم إذا توضأ أحدكم فليرقد وهو جنب
   صحيح البخاري290عبد الله بن عمرتوضأ واغسل ذكرك ثم نم
   صحيح البخاري289عبد الله بن عمرأينام أحدنا وهو جنب قال نعم إذا توضأ
   صحيح مسلم704عبد الله بن عمرتوضأ واغسل ذكرك ثم نم
   صحيح مسلم703عبد الله بن عمرليتوضأ ثم لينم حتى يغتسل إذا شاء
   صحيح مسلم702عبد الله بن عمرأيرقد أحدنا وهو جنب قال نعم إذا توضأ
   جامع الترمذي120عبد الله بن عمرأينام أحدنا وهو جنب قال نعم إذا توضأ
   سنن أبي داود221عبد الله بن عمرتوضأ واغسل ذكرك ثم نم
   سنن النسائى الصغرى261عبد الله بن عمرتوضأ واغسل ذكرك ثم نم
   سنن النسائى الصغرى260عبد الله بن عمرأينام أحدنا وهو جنب قال إذا توضأ
   سنن ابن ماجه585عبد الله بن عمرأيرقد أحدنا وهو جنب قال نعم إذا توضأ
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم46عبد الله بن عمرتوضا واغسل ذكرك ثم نم
   مسندالحميدي672عبد الله بن عمرنعم إذا توضأ ويطعم إن شاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 46  
´رات کو جنبی ہو جائے تو کیا کرے؟`
«. . . 280- وبه: أنه قال: ذكر عمر بن الخطاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه تصيبه الجنابة من الليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: توضأ واغسل ذكرك ثم نم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ (بعض اوقات) رات کو جنبی ہو جاتے ہیں (تو کیا کریں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو کرو اور اپنی شرمگاہ (ذکر) دھو لو پھر سو جاؤ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 46]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 290، و مسلم 306/25، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جنبی کو چاہئے کہ استنجا اور وضو کرکے اگر سونا چاہے تو سو جائے۔
➋ اگر کوئی مجبوری ہو تو وضو اور غسل کے بغیر جنبی سو سکتا ہے۔
امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر جنبی بغیر وضو کے سونا چاہے تو سو جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/61 ح667 وسندہ صحيح]
◄ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ جنابت میں وضو یا تیمّم کر کے سو جاتے تھے۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 1/400 وسنده حسن غريب، وحسنه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى فتح الباري 1/394 ح290]
◄ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب حالتِ جنابت میں ہوتیں تو وضو یا تیمّم کر کے سو جاتی تھیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/61 ح676 وسنده صحيح]
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جنبی آدمی کو وضو کے بغیر نہیں سونا چاہئے۔ [الموطأ 1/48 ح106، وسنده صحيح]
➍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب حالتِ جنابت میں کھانا کھانے یا سونے کا ارادہ کرتے تو اپنا چہرہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھ دھوتے، سر کا مسح کرتے پھر کھانا کھاتے یا سو جاتے تھے۔ [الموطأ 1/48 ح107، وسنده صحيح]
➎ لوگوں کو دین سمجھانے کے لئے ضرورت کے وقت حق بات بیان کرنے سے نہیں شرمانا چاہئے۔
➏ جنابت سے مومن نجس نہیں ہوتا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 280   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 230  
´میت پر (آواز کے ساتھ) رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے`
«. . . 316- وبه: أنها سمعت عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم، وذكر لها أن عبد الله بن عمر يقول: إن الميت ليعذب ببكاء الحي، فقالت: يغفر الله لأبي عبد الرحمن، أما إنه لم يكذب ولكنه نسي أو أخطأ، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكي عليها أهلها، فقال: إنهم ليبكون عليها، وإنها لتعذب فى قبرها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ذکر کیا گیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: بے شک میت کو گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن عمر) کی اللہ مغفرت فرمائے، انہوں نے جھوٹ نہیں بولا: لیکن وہ بھول گئے ہیں یا انہیں غلطی لگی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک یہودی عورت (کی قبر) کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس پر رو رہے ہیں اور اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 230]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1289، ومسلم 932، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ میت کو نوحہ کرکے رونے والوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، مذکورہ بالا حدیث کو درج ذیل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی بیان کیا ہے:
◄ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ [سنن الترمذي: 1003، وقال: هذا حديث حسن غريب ابن ماجه: 1594، مسند أحمد 4/414 ح19716، وسنده حسن لذاته واللفظ له وصححه الحاكم 471/2]
◄ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ [سنن النسائي15/4 ح1850، وسنده حسن، ابن حبان، الاحسان: 3124 دوسرا نسخه: 3134]
◄ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1291، صحيح مسلم: 933] نیز دیکھئے [نيل المقصود فى التعليق عليٰ سنن ابي داود مخطوط ص716 ح3129]
● معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہ بھولے ہیں اور نہ انھیں غلطی لگی ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص جاہلیت کی طرح رونے پیٹنے کے خلاف تھا اور اس سے منع کرتا تھا تو اس پر ایسا رونے پیٹنے کی وجہ سے کوئی عذاب نہیں ہوتا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ دلیل کا یہی مطلب ہے۔ جو شخص جاہلیت کی طرح روتا پیٹتا تھا اور اسے پسند کرتا تھا تو پھر اس پر رونے پیٹنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی بیان کردہ حدیث کا یہی مطلب ہے۔ نیز دیکھئے [صحيح بخاري قبل ح1284]
➋ علمائے حق کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری صحیح روایت میں آیا ہے کہ «إنما مرّ رسول الله صلى الله عليه وسلم علٰي قبر۔۔۔» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قبر کے پاس سے گزرے تھے۔ الخ [مسند أحمد 2/38 ح4959 وسنده صحيح، سنن ابي داود: 3129، سنن النسائي 4/17 ح1856]
معلوم ہوا کہ یہودیہ کے پاس سے گزرے کا مطلب یہودیہ کی قبر کے پاس سے گزرے تھے، ہے۔
➍ اگر کسی مسئلے میں دوسرے کی اصلاح مقصود ہو تو احسن انداز سے رد کرنا چاہئے۔
➎ کفار ومشرکین اور منافقین وغیرہ کو عذابِ قبر ہوتا ہے۔
➏ دوسرے مسلمان بھائیوں کے لئے ہمیشہ حسنِ ظن کا جذبہ رکھنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 316   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 221  
´جنبی غسل کے بغیر سونا چاہے تو. . . `
«. . . ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ، ثُمَّ نَمْ . . .»
. . . عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ مجھے رات کو جنابت لاحق ہو جاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: وضو کر لو، اور اپنا عضو تناسل دھو کر سو جاؤ . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 221]
فوائد و مسائل:
وضو کرو، اپنی شرمگاہ دھو سے یہ ترتیب مراد نہیں، بلکہ پہلے استنجا کرنا اور شرمگاہ دھونا اور پھر وضو کرنا مراد ہے۔ اور یہ وضو مستحب اور تاکیدی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر، شوکانی اور شیخ البانی وغیرہ رحمها اللہ یہی بیان کرتے ہیں۔ جبکہ اہل ظاہر اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ علامہ ابن دقیق العید بھی اسی طرف مائل ہیں کہ اس میں امر اور شرط کے صیغے وارد ہوئے ہیں۔ بہرحال غسل مؤخر کرنا ہو تو وضو کرنے میں غفلت نہیں کرنی چاہئیے اور جنبی رہنے کو عادت بھی نہیں بنانا چاہئیے اور وضو آدھا غسل سمجھا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 221   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 261  
´جنبی کے سونے کا ارادہ کرنے پر اپنا عضو مخصوص دھونے اور وضو کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ وہ رات میں جنبی ہو جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو کر لو اور اپنا عضو مخصوص دھو لو، پھر سو جاؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 261]
261۔ اردو حاشیہ: جنبی کے لیے سونے سے پہلے کم از کم شرم گاہ دھونا یا صاف کرنا ضروری ہے۔ باقی رہا وضو تو یہ مستحب چیز ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ بعض نے واجب بھی کہا ہے کہ ہو سکتا ہے، اسے موت آ جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 261   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 120  
´جنبی جب سونا چاہے تو وضو کر لے۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب وہ وضو کر لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 120]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں،
یہ وضو واجب ہے یا غیر واجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے،
جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واجب ہے۔
اور پہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔
2؎:
یعنی مستحب ہے کہ وضو کر لے،
یہی جمہور کا مذہب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 120   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.