الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
7. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الشِّرَاءِ إِلَى أَجَلٍ
7. باب: کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1213
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو حفص عمرو بن علي، اخبرنا يزيد بن زريع، اخبرنا عمارة بن ابي حفصة، اخبرنا عكرمة، عن عائشة، قالت: كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم ثوبان قطريان غليظان، فكان إذا قعد فعرق ثقلا عليه، فقدم بز من الشام لفلان اليهودي، فقلت: لو بعثت إليه، فاشتريت منه ثوبين إلى الميسرة، فارسل إليه، فقال: قد علمت ما يريد إنما يريد ان يذهب بمالي، او بدراهمي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كذب قد علم اني من اتقاهم لله، وآداهم للامانة ". قال: وفي الباب، عن ابن عباس، وانس، واسماء بنت يزيد. قال ابو عيسى: حديث عائشة، حديث حسن غريب صحيح، وقد رواه شعبة ايضا، عن عمارة بن ابي حفصة، قال: وسمعت محمد بن فراس البصري، يقول: سمعت ابا داود الطيالسي، يقول: سئل شعبة يوما، عن هذا الحديث فقال: لست احدثكم حتى تقوموا إلى حرمي بن عمارة بن ابي حفصة، فتقبلوا راسه، قال: وحرمي في القوم. قال ابو عيسى: اي إعجابا بهذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمَرُو بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَانِ قِطْرِيَّانِ غَلِيظَانِ، فَكَانَ إِذَا قَعَدَ فَعَرِقَ ثَقُلَا عَلَيْهِ، فَقَدِمَ بَزٌّ مِنْ الشَّامِ لِفُلَانٍ الْيَهُودِيِّ، فَقُلْتُ: لَوْ بَعَثْتَ إِلَيْهِ، فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي، أَوْ بِدَرَاهِمِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَذَبَ قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ، وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ أَيْضًا، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ فِرَاسٍ الْبَصْرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ، يَقُولُ: سُئِلَ شُعْبَةُ يَوْمًا، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: لَسْتُ أُحَدِّثُكُمْ حَتَّى تَقُومُوا إِلَى حَرَمِيِّ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، فَتُقَبِّلُوا رَأَسَهُ، قَالَ: وَحَرَمِيٌّ فِي الْقَوْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: أَيْ إِعْجَابًا بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہو جاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا: کاش! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہو گی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا: جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- اسے شعبہ نے بھی عمارہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے،
۳- ابوداؤد طیالسی کہتے ہیں: ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کر سکتا جب تک کہ تم کھڑے ہو کر حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سر نہیں چومتے اور حرمی (وہاں) لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی،
۴- اس باب میں ابن عباس، انس اور اسماء بنت یزید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 70 (4632)، مسند احمد (6/147) (تحفة الأشراف: 1740) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھار سودا کرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پر استدلال ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع

   سنن النسائى الصغرى4632عائشة بنت عبد اللهأني من أتقاهم لله وآداهم للأمانة
   جامع الترمذي1213عائشة بنت عبد اللهأني من أتقاهم لله وآداهم للأمانة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1213  
´کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہو جاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا: کاش! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہو گی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا: جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1213]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھارسودا کرنا درست ہے کیونکہ آپﷺ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا،
اسی سے باب پراستدلال ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1213   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.