حدثنا يحيى بن يحيى ، وقتيبة بن سعيد كلاهما، عن عبد العزيز ، قال يحيى: اخبرنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، ان نفرا، جاءوا إلى سهل بن سعد ، قد تماروا في المنبر من اي عود هو، فقال: اما والله، إني لاعرف من اي عود هو ومن عمله، ورايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، اول يوم جلس عليه، قال: فقلت له: يا ابا عباس، فحدثنا، قال: ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلى امراة، قال ابو حازم: إنه ليسمها يومئذ، انظري غلامك النجار، يعمل لي اعوادا، اكلم الناس عليها، فعمل هذه الثلاث درجات، ثم امر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوضعت هذا الموضع، فهي من طرفاء الغابة، " ولقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام عليه، فكبر، وكبر الناس وراءه وهو على المنبر، ثم رفع، فنزل القهقرى، حتى سجد في اصل المنبر، ثم عاد، حتى فرغ من آخر صلاته، ثم اقبل على الناس "، فقال: " يا ايها الناس، إني صنعت هذا لتاتموا بي ولتعلموا صلاتي،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ نَفَرًا، جَاءُوا إِلَى سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَدْ تَمَارَوْا فِي الْمِنْبَرِ مِنْ أَيِّ عُودٍ هُوَ، فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ، إِنِّي لَأَعْرِفُ مِنْ أَيِّ عُودٍ هُوَ وَمَنْ عَمِلَهُ، وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوَّلَ يَوْمٍ جَلَسَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبَّاسٍ، فَحَدِّثْنَا، قَالَ: أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى امْرَأَةٍ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: إِنَّهُ لَيُسَمِّهَا يَوْمَئِذٍ، انْظُرِي غُلَامَكِ النَّجَّارَ، يَعْمَلْ لِي أَعْوَادًا، أُكَلِّمُ النَّاسَ عَلَيْهَا، فَعَمِلَ هَذِهِ الثَّلَاثَ دَرَجَاتٍ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوُضِعَتْ هَذَا الْمَوْضِعَ، فَهِيَ مِنْ طَرْفَاءِ الْغَابَةِ، " وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ عَلَيْهِ، فَكَبَّرَ، وَكَبَّرَ النَّاسُ وَرَاءَهُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَنَزَلَ الْقَهْقَرَى، حَتَّى سَجَدَ فِي أَصْلِ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ عَادَ، حَتَّى فَرَغَ مِنْ آخِرِ صَلَاتِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ "، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا بِي وَلِتَعَلَّموا صَلَاتِي،
عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے خبر دی کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے منبر نبوی کے بارے میں میں بخث کی تھی کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہے؟ انھوں (سہل رضی اللہ عنہ) نے کہا: ہاں! اللہ کی قسم! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی ہے اور اسے کس نے بنایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلے دن اس پر بیٹھے تھے، میں نے آپ کو دیکھا تھا۔ میں (ابو حازم) نے کہا: ابو عباس! پھر تو (آپ) ہمیں (اس کی) تفصیل بتائیے۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی طرف پیغام بھیجا۔ ابو حازم نے کہا: وہ اس دن اس کا نام بھی بتارے تھے اور کہا۔“ اپنے بڑھئی غلام کو دیکھو (اور کہو) وہ میرے لیے لکڑیا ں (جوڑکر منبر) بنا دے تا کہ میں اس پر سے لوگوں سے گفتگو کیا کروں۔ تو اس نے یہ تین سٹرھیاں بنائیں، پھر رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اسے اس جگہ رکھ دیا گیا اور یہ مدینہ کے جنگل کے درخت جھاؤ (کی لکڑی) سے بنا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے تکبیر کہی جبکہ آپ منبر ہی پر تھے، پھر آپ (نے رکوع سے سر اٹھایا) اٹھے اور الٹے پاؤں نیچے اترے اور منبر کی جڑ میں (جہاں وہ رکھا ہوا تھا) سجدہ کیا، پھر دوبارہ وہی کیا (منبر پر کھڑے ہو گئے) حتی کہ نماز پوری کر کے فارغ ہوئے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:“ لوگو! میں نے یہ کام اس لیے کیا ہےتاکہ تم (مجھے دیکھتے ہوئے) میری پیروی کرو اور میری نماز سیکھ لو۔”
حضرت عبد العزیزبن ابی ابو حازم رحمتہ اللّٰہ علیہ اپنے باپ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ منبر نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہے؟ تو انہوں نے کہا، ہاں اللّٰہ کی قسم! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا ہے اور اسے کس نے بنایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلے دن اس پر بیٹھے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا، میں (ابو حازم) نے کہا اے ابو عباس! تو ہمیں بتائیے، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی طرف پیغام بھیجا (ابو حازم نے کہا، وہ اس دن اس کا نام بھی بتا رہے تھے)۔ کہ اپنے بڑھئی غلام کو دیکھو (اور کہو) وہ مجھے لکڑیوں کو جوڑ کر (منبر بنا دے) میں ان پر لوگوں سے گفتگو کروں گا تو اس نے تین سیڑھیاں بنائیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اسے اس جگہ پر رکھ دیا گیا اور وہ مدینہ کے جنگل کے جھاؤ سے بنا تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ہی تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رکوع سے) اٹھے اور الٹے پاؤں نیچے اترے، حتیٰ کہ منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر دوبارہ منبر پر کھڑے ہو گئے، حتیٰ کہ نماز پوری کر کے فارغ ہو گئے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری اقتدا کرو اور میری نماز سیکھ لو یا جان لو (اگر (تَعَلَّمُوْا) ہو تو معنی سیکھ لو ہو گا اور اگر (تَعْلَمُوا) ہو تو معنی جان لو ہوگا)۔
مري عبدك فليعمل لنا أعواد المنبر فأمرت عبدها فذهب فقطع من الطرفاء فصنع له منبرا فلما قضاه أرسلت إلى النبي إنه قد قضاه قال أرسلي به إلي فجاءوا به فاحتمله النبي فوضعه حيث ترون
قام عليه رسول الله حين عمل ووضع فاستقبل القبلة كبر وقام الناس خلفه فقرأ وركع وركع الناس خلفه ثم رفع رأسه ثم رجع القهقرى فسجد على الأرض ثم عاد إلى المنبر ثم ركع ثم رفع رأسه ثم رجع القهقرى حتى سجد بالأرض فهذا شأنه
مري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلت إلى رسول الله فأمر بها فوضعت ها هنا رأيت رسول الله صلى عليها وكبر وهو عليها ثم ركع وهو عليها ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد فلما فرغ أقب
انظري غلامك النجار يعمل لي أعوادا أكلم الناس عليها فعمل هذه الثلاث درجات ثم أمر بها رسول الله فوضعت هذا الموضع فهي من طرفاء الغابة رأيت رسول الله قام عليه فكبر وكبر الناس وراءه وهو على المنبر ثم رفع فنزل القهقرى حتى سجد في أصل المنبر ثم عاد حتى فرغ من آخر
مري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلته إلى النبي فأمر بها فوضعت هاهنا رأيت رسول الله صلى عليها وكبر عليها ثم ركع وهو عليها ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد فلما فرغ أقبل على ال
مري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلت إلى رسول الله فأمر بها فوضعت ها هنا رقي فصلى عليها وكبر وهو عليها ثم ركع وهو عليها ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد فلما فرغ أقبل على النا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 740
´منبر پر نماز پڑھنے کا بیان۔` ابوحازم بن دینار کہتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ لوگ منبر کی لکڑی کے بارے میں بحث کر رہے تھے کہ وہ کس چیز کی تھی؟ ان لوگوں نے سہیل رضی اللہ عنہ اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ یہ منبر کس لکڑی کا تھا، میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا تھا جس دن وہ رکھا گیا، اور جس دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہل اس پر بیٹھے (ہوا یوں تھا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت (سہل رضی اللہ عنہ نے اس کا نام لیا تھا) کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے غلام سے جو بڑھئی ہے کہیں کہ وہ میرے لیے کچھ لکڑیوں کو اس طرح بنا دے کہ جب میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کروں تو اس پر بیٹھ سکوں، تو اس عورت نے غلام سے منبر بنانے کے لیے کہہ دیا، چنانچہ غلام نے جنگل کے جھاؤ سے اسے تیار کیا، پھر اسے اس عورت کے پاس لے کر آیا تو اس نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے یہاں رکھا گیا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس پر چڑھے، اور اس پر نماز پڑھی، آپ نے اللہ اکبر کہا، آپ اسی پر تھے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور آپ اسی پر تھے، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کے پایوں کے پاس سجدہ کیا، پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا، تو جب آپ فارغ ہو گئے، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! میں نے یہ کام صرف اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کر سکو، اور (مجھ سے) میری نماز سیکھ سکو۔“[سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 740]
740 ۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ نفل نماز تھی اور نفل نماز میں کافی وسعت ہوتی ہے۔ اگرچہ منبر نماز کے لیے نہیں بنایا گیا تھا مگر آپ نے مناسب خیال فرمایا کہ اس کا افتتاح نماز سکھانے سے ہو۔ اس کا یہ فائدہ مقصود تھا کہ لوگ آپ کے اونچا ہونے کی وجہ سے آپ کو بخوبی دیکھ سکیں اور نماز کا طریقہ سیکھ لیں۔ آپ نے سب سے بلند سیڑھی پر کھڑے ہو کر نماز ادا فرمائی۔ دیکھیے: [فتح الباري: 514/2، شرح حديث: 917] ➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کبھی رش یا جگہ کی تنگی یا ناہمواری کی وجہ سے نماز کا کوئی رکن کچھ ہٹ کر یا نیچے اتر کر یا کچھ آگے پیچھے چل کر ادا کرنا پڑے تو نفل نماز میں گنجائش ہے، البتہ فرض نماز میں اضطراری حالت کے علاوہ ایسے نہ کیا جائے۔ ➌ کہا گیا ہے کہ عورت کا نام سہلہ اور غلام کا نام میمون تھا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 512/2، شرح حديث: 917] ➍ صحیح روایت میں صراحت ہے کہ منبر بنانے کی پیش کش اس عورت نے خود کی تھی۔ آپ نے منظوری یا یاددہانی کا پیغام بھیجا۔ ➎ سجدہ کرنے کے لیے آپ کو کئی قدم اٹھانے پڑے کیونکہ سب سے اوپر والی سیڑھی سے اتر کر نیچے آنا اور مزید پیچھے ہٹ کر منبر کی قریب ترین جگہ پر سجدہ کرنا کئی قدموں کا متقاضی ہے، لہٰذا قدموں کی درجہ بندی کرنا کہ اگر مسلسل تین قدم اٹھائیں تو نماز باطل ہو جائے گی، درست نہیں۔ اس کی بجائے عمل کو ضرورت کے ساتھ مقید کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 740
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1080
´منبر بنانے کا بیان۔` ابوحازم بن دینار بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ لوگ منبر کے سلسلے میں جھگڑ رہے تھے کہ کس لکڑی کا تھا؟ تو انہوں نے سہل بن سعد سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: قسم اللہ کی! میں جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا تھا اور میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا جب وہ رکھا گیا اور جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے پاس- جس کا سہل نے نام لیا- یہ پیغام بھیجا کہ تم اپنے نوجوان بڑھئی کو حکم دو کہ وہ میرے لیے چند لکڑیاں ایسی بنا دے جن پر بیٹھ کر میں لوگوں کو خطبہ دیا کروں، تو اس عورت نے اسے منبر کے بنانے کا حکم دیا، اس بڑھئی نے غابہ کے جھاؤ سے منبر بنایا پھر اسے لے کر وہ عورت کے پاس آیا تو اس عورت نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ایک جگہ) رکھنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ منبر اسی جگہ رکھا گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور تکبیر کہی پھر اسی پر رکوع بھی کیا، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر منبر پر واپس چلے گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری پیروی کرو اور میری نماز کو جان سکو۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ: ➊ خطبے وغیرہ کے لئے منبر کا استعمال مستحب ہے۔ ➋ نماز کا معاملہ اس قدر اہم تھا اور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم میں ازحد مبالغے سے کام لیا، حتیٰ کہ منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ کر دکھائی۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بالعموم اور نماز میں بالخصوص فرض ہے۔ ➍ طلباء کو اہم علمی مسائل کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ضروری امور کی معرفت بھی حاصل کرنی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1080