الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سجدہ سھو کا بیان
The Book of As-Sahw (Forgetting)
5. بَابُ مَنْ يُكَبِّرُ فِي سَجْدَتَيِ السَّهْوِ:
5. باب: سہو کے سجدوں میں تکبیر کہنا۔
(5) Chapter. To Say Takbir in the prostrations of Sahw.
حدیث نمبر: 1230
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن الاعرج، عن عبد الله ابن بحينة الاسدي حليف بني عبد المطلب،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في صلاة الظهر وعليه جلوس، فلما اتم صلاته سجد سجدتين فكبر في كل سجدة وهو جالس قبل ان يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس" تابعه ابن جريج، عن ابن شهاب في التكبير.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسْدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ فَكَبَّرَ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ" تَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ فِي التَّكْبِيرِ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبداللہ بن بحینہ اسدی نے جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہو گئے۔ حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھنا چاہئے تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں «الله اكبر» کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔ اس روایت کی مطابعت ابن جریج نے ابن شہاب سے تکبیر کے ذکر میں کی ہے۔

Narrated `Abdullah bin Buhaina Al-Asdi: (the ally of Bani `Abdul Muttalib) Allah's Apostle stood up for the Zuhr prayer and he should have sat (after the second rak`a but he stood up for the third rak`a without sitting for Tashah-hud) and when he finished the prayer he performed two prostrations and said Takbir on each prostration while sitting, before ending (the prayer) with Taslim; and the people too performed the two prostrations with him instead of the sitting he forgot.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 322


   صحيح البخاري829عبد الله بن مالكبهم الظهر فقام في الركعتين الأوليين لم يجلس فقام ا
   صحيح البخاري830عبد الله بن مالكصلى بنا رسول الله الظهر فقام وعليه جلوس فلما كان في آخر صلاته سجد سجدتين وهو جالس
   صحيح البخاري6670عبد الله بن مالكصلى بنا النبي فقام في الركعتين الأوليين قبل أن يجلس فمضى في صلاته فلما قضى صلاته انتظر الناس تسليمه فكبر وسجد قبل أن يسلم ثم رفع رأسه ثم كبر وسجد ثم رفع رأسه وسلم
   صحيح البخاري1225عبد الله بن مالكقام من اثنتين من الظهر لم يجلس بينهما فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك
   صحيح البخاري1224عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين من بعض الصلوات ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر قبل التسليم فسجد سجدتين وهو جالس ثم سلم
   صحيح البخاري1230عبد الله بن مالكقام في صلاة الظهر وعليه جلوس فلما أتم صلاته سجد سجدتين فكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   صحيح مسلم1269عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين من بعض الصلوات ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم ثم سلم
   صحيح مسلم1271عبد الله بن مالكقام في الشفع الذي يريد أن يجلس في صلاته فمضى في صلاته فلما كان في آخر الصلاة سجد قبل أن يسلم ثم سلم
   صحيح مسلم1270عبد الله بن مالكقام في صلاة الظهر وعليه جلوس فلما أتم صلاته سجد سجدتين يكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   جامع الترمذي391عبد الله بن مالكقام في صلاة الظهر وعليه جلوس فلما أتم صلاته سجد سجدتين يكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   سنن أبي داود1034عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته وانتظرنا التسليم كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم ثم سلم
   سنن النسائى الصغرى1179عبد الله بن مالكصلى فقام في الركعتين فسبحوا فمضى فلما فرغ من صلاته سجد سجدتين ثم سلم
   سنن النسائى الصغرى1224عبد الله بن مالكقام في الصلاة وعليه جلوس فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم
   سنن النسائى الصغرى1262عبد الله بن مالكقام في الثنتين من الظهر فلم يجلس فلما قضى صلاته سجد سجدتين كبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   سنن النسائى الصغرى1178عبد الله بن مالكصلى فقام في الشفع الذي كان يريد أن يجلس فيه فمضى في صلاته حتى إذا كان في آخر صلاته سجد سجدتين قبل أن يسلم ثم سلم
   سنن النسائى الصغرى1223عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم ثم سلم
   سنن ابن ماجه1206عبد الله بن مالكصلى صلاة أظن أنها الظهر فلما كان في الثانية قام قبل أن يجلس فلما كان قبل أن يسلم سجد سجدتين
   سنن ابن ماجه1207عبد الله بن مالكقام في ثنتين من الظهر نسي الجلوس حتى إذا فرغ من صلاته إلا أن يسلم سجد سجدتي السهو وسلم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم134عبد الله بن مالكقضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم137عبد الله بن مالكقام من اثنتين من الظهر لم يجلس فيهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك
   بلوغ المرام262عبد الله بن مالكصلى بهم الظهر فقام في الركعتين الاوليين ولم يجلس فقام الناس معه حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه كبر وهو جالس،‏‏‏‏ وسجد سجدتين قبل ان يسلم ثم سلم
   مسندالحميدي927عبد الله بن مالكصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة أظن أنها العصر، فقام في الثانية، ولم يجلس، فلما كان في آخر صلاته سجد سجدتين من قبل أن يسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 134  
´نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے`
«. . . عن عبد الله بن بحينة انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه. فلما قضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے (اور تشہد کے لئے) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی اور ہم آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے تو آپ نے تکبیر کہی اور دو سجدے سلام سے پہلے بیٹھے ہوئے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 134]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1224، و مسلم 570، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مخلوقات میں سے کوئی بھی وہم اور نسیان سے محفوظ نہیں ہے سوائے اس کے جسے اللہ محفوظ رکھے۔
➋ اگر نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے بلکہ نماز مکمل کر کے آخر میں سجدہ سہو یعنی دو سجدے سلام سے پہلے یا بعد میں کر لینے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں کھڑا ہو جانے کے بعد بیٹھ جائے تو جمہور علماء کے نزدیک اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دیکھئے: [التمهيد 10/185]
➌ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو تیسری رکعت میں (تشہد کے بغیر) کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا: تو آپ نہیں بیٹھے بلکہ لوگوں کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا پھر نماز پڑھ کر (آخر میں) دو سجدے کئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 34/2 ح4493 و سنده صحيح]
اس مفہوم کی مفصل روایت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 1/325 ح1214]، [والاوسط لابن المنذر 3/288 وسنده صحيح]
➍ سجدہ سہو میں ایک طرف سلام پھیرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
➎ اگر امام نماز میں بھول جائے اور بعد میں سجدہ سہو بھی بھول جائے تو حکم بن عتیبہ کے نزدیک مقتدیوں کو سجدہ سہو کرنا چاہئیے اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک ان پر سجدہ سہو نہیں ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/39 ح4525 وسنده صحيح]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث صحيح بخاري [1226]، صحيح مسلم [572] سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام سجدہ سہو بھول جائے تو سلام پھیرنے کے بعد بھی وہ دو سجدے (لوگوں کے ساتھ) کر لے۔
➏ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ نماز میں رکوع، سجود، قیام اور آخری جلسہ فرض ہے۔ [التمهيد 10/189] لہٰذا ان میں سے جو رہ گیا تو رکعت رہ گئی، اس رکعت کا اعادہ کرنا پڑے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 81   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1034  
´دو رکعت پر بغیر تشہد پڑھے اٹھ جائے تو کیا سجدہ سہو کرے؟`
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور قعدہ (تشھد) نہیں کیا تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی اور ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے الله أكبر کہہ کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1034]
1034۔ اردو حاشیہ:
➊ مقتدیوں پر امام کی اقتداء واجب ہے، خواہ وہ بھو ل رہا ہو۔ امام کو متنبہ کرنا ان کا شرعی حق ہے۔
➋ درمیانی تشہد رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
➌ راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام مالک اور بحینہ ان کی والدہ کا نام ہے۔ اس لئے محدث جب ان کا پورا نام عبدا للہ بن مالک بن بحینہ لکھتے ہیں تو ابن بحینہ کے شروع میں ہمزہ ضرور لکھتے ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ عبداللہ کی صفت ہے نہ کہ مالک کی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1034   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1206  
´جو شخص بھول سے دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، میرا خیال ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی، جب آپ دوسری رکعت میں تھے تو تشہد کیے بغیر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ آخری تشہد میں بیٹھے تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درمیانی تشہد بھولے سے رہ جائے تو آخر میں سجدہ سہو کرلینا چاہیے۔

(2)
سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی جائز ہے۔
اور سلام کے بعد بھی دیکھئے: (حدیث 1213)

(3)
سہو کے دو سجدے ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1206   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 262  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز ظہر پڑھائی تو دو رکعت ادا کر کے تشہد میں نہ بیٹھے اور سیدھے کھڑے ہو گئے اور مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو لوگ سلام پھیرنے کے انتظار میں تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے ہی «الله اكبر» کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے کہ بیٹھے ہوئے ہر سجدہ کے لیے «الله اكبر» کہتے تھے اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ سہو کیا۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھنا بھول گئے تھے، اس کی تلافی کے لیے دو سجدے کیے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 262»
تخریج:
«أخرجه البخاري، السهو، باب ما جاء في السهو إذا قام من ركعتي الفريضة، حديث:1224، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة والسجود له، حديث:570، وأبوداود، الصلاة، حديث:1034، والترمذي، الصلاة، حديث:391، والنسائي، السهو، حديث:1223، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1206، 1207، وأحمد:5 /345، 346.»
تشریح:
1. عربی میں بھول کے لیے دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک سہو اور دوسرا نسیان۔
پہلے کا اطلاق عموماً افعال کے لیے ہوتا ہے اور دوسرے کا معلومات کے لیے۔
اس کے باوجود کبھی کبھی یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی بھی آجاتے ہیں۔
علماء میں سے شاید ایک بھی ایسا نہیں ہے جو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نسیان کا قائل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی ابلاغ احکام الٰہی اور شریعت کے پہنچانے میں نسیان لاحق نہیں ہوا اور لاحق ہونے کا امکان بھی نہیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی﴾ (الأعلیٰ ۸۷:۶) باقی جہاں تک سہو کا معاملہ ہے‘ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ آپ سے سہو کا امکان ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔
متعدد صحیح احادیث اس بارے میں کتب احادیث میں موجود ہیں اور بہت سے واقعات عملی طور پر اس کا ثبوت ہیں۔
ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی سہو کو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت سمجھتے ہیں۔
غالباً آج تک کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس میں تو بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں صاحب علم و بصیرت لوگ ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
2. دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی نمازی کو تشہد اول بھول جائے تو اس نقصان کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو جاتی ہے۔
سجدۂ سہو قبل از سلام کیا جائے یا بعد از سلام؟ احادیث سے آپ کا عمل دونوں طرح ثابت ہے۔
زندگی بھر ایک لگے بندھے طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت نہیں ہوتا کہ بس فلاں طریقے پر ساری عمر عمل فرماتے رہے‘ البتہ جب ائمہ رحمہم اللہ کا دور آیا اور تقلید شخصی پر عمل شروع ہوا تو ائمۂ کرام کے مقلدین نے اپنے اپنے دائرے میں صورتیں معین کرلیں۔
3.ایک رائے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس مقام پر جو طرز عمل اختیار فرمایا وہاں اسی طرح عمل کیا جائے۔
مگر باقی مواقع پر جس طرح تحقیق سے ثابت ہوا ہو اس پر عمل کرے۔
4.امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (۳ /۱۲۲. ۱۲۸) میں اس طرز عمل کو بہتر قرار دیا ہے کہ نماز میں کمی واقع ہو جانے کی صورت میں سجدۂ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کیا جانا چاہیے اور اگر زیادتی واقع ہو جائے تو سلام پھیرنے کے بعد کیا جائے‘ البتہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ کرنا‘ پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرنا‘ صحیح احادیث کی روشنی میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 262   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1230  
1230. حضرت عبداللہ ابن بحینہ اسدی ؓ، جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے،سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے جبکہ آپ کو بیٹھ کر تشہد پڑھنا تھا۔ جب آپ نماز مکمل کرنے قریب تھے تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے قبل دو سجدے کیے اور ان کے لیے اللہ أکبر بھی کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کیے۔ یہ اس تشہد کی جگہ تھے جسے آپ بھول گئے تھے۔ امام ابن شہاب سے تکبیر کا لفظ بیان کرنے میں ابن جریج نے لیث کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1230]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سجدۂ سہو کے لیے الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ سجدے کو جاتے ہوئے ایک دفعہ اللہ أکبر کہنا ہی کافی ہے۔
تکبیر تحریمہ کہنے کے متعلق سنن ابی داود کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہا اور سجدۂ سہو کیا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1011)
لیکن امام ابو داود ؒ نے خود ہی اس روایت کے شاذ ہونے کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے کہ ان الفاظ کو حماد بن زید کے علاوہ دوسرے راویوں نے بیان نہیں کیا۔
ہشام بن حسان سے ان کے دوسرے شاگرد جب اس روایت کو بیان کرتے ہیں تو وہ مذکورہ الفاظ ذکر نہیں کرتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1011) (2)
ابن جریج کی متابعت کو امام عبدالرزاق نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر سجدۂ سہو میں اللہ أکبر کہتے تھے۔
مسند امام احمد کی روایت بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر سجدہ کیا۔
اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور دوسرا سجدہ کیا۔
اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔
ان تمام روایات میں صرف سجدہ کرتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے، تکبیر تحریمہ کا کوئی ذکر نہیں۔
اور جن روایات میں پہلے سجدے سے قبل دو دفعہ اللہ أکبر کہنے کا ذکر ہے وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
(فتح الباري: 134/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1230   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.