الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
3. بَابُ الدُّخُولِ عَلَى الْمَيِّتِ بَعْدَ الْمَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي كَفَنِهِ:
3. باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا جا چکا ہو تو اس کے پاس جانا (جائز ہے)۔
(3) Chapter. Visiting the deceased person after he has been put in his shroud.
حدیث نمبر: 1243
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب , قال: اخبرني خارجة بن زيد بن ثابت، ان ام العلاء امراة من الانصار بايعت النبي صلى الله عليه وسلم، اخبرته انه" اقتسم المهاجرون قرعة فطار لنا عثمان بن مظعون فانزلناه في ابياتنا، فوجع وجعه الذي توفي فيه فلما توفي وغسل وكفن في اثوابه دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: رحمة الله عليك ابا السائب فشهادتي عليك لقد اكرمك الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وما يدريك ان الله قد اكرمه؟ , فقلت: بابي انت يا رسول الله، فمن يكرمه الله؟ , فقال: اما هو فقد جاءه اليقين، والله إني لارجو له الخير والله ما ادري وانا رسول الله ما يفعل بي، قالت: فوالله لا ازكي احدا بعده ابدا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ" اقْتُسِمَ الْمُهَاجِرُونَ قُرْعَةً فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَأَنْزَلْنَاهُ فِي أَبْيَاتِنَا، فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ وَغُسِّلَ وَكُفِّنَ فِي أَثْوَابِهِ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ؟ , فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ يُكْرِمُهُ اللَّهُ؟ , فَقَالَ: أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے کہا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے فرمایا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی کہ ام العلاء رضی اللہ عنہا انصار کی ایک عورت نے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، نے انہیں خبر دی کہ مہاجرین قرعہ ڈال کر انصار میں بانٹ دیئے گئے تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے حصہ میں آئے۔ چنانچہ ہم نے انہیں اپنے گھر میں رکھا۔ آخر وہ بیمار ہوئے اور اسی میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد غسل دیا گیا اور کفن میں لپیٹ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابوسائب آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں میری آپ کے متعلق شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت فرمائی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت فرمائی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر کس کی اللہ تعالیٰ عزت افزائی کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں شبہ نہیں کہ ان کی موت آ چکی، قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ام العلاء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! اب میں کبھی کسی کے متعلق (اس طرح کی) گواہی نہیں دوں گی۔

Narrated Kharija bin Zaid bin Thabit: Um Al-`Ala', an Ansari woman who gave the pledge of allegiance to the Prophet said to me, "The emigrants were distributed amongst us by drawing lots and we got in our share `Uthman bin Maz'un. We made him stay with us in our house. Then he suffered from a disease which proved fatal when he died and was given a bath and was shrouded in his clothes, Allah's Apostle came I said, 'May Allah be merciful to you, O Abu As-Sa'ib! I testify that Allah has honored you'. The Prophet said, 'How do you know that Allah has honored him?' I replied, 'O Allah's Apostle! Let my father be sacrificed for you! On whom else shall Allah bestow His honor?' The Prophet said, 'No doubt, death came to him. By Allah, I too wish him good, but by Allah, I do not know what Allah will do with me though I am Allah's Apostle. ' By Allah, I never attested the piety of anyone after that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 334


   صحيح البخاري2687أم العلاء بنت الحارثجاءه والله اليقين وإني لأرجو له الخير ما أدري وأنا رسول الله ما يفعل به أريت لعثمان عينا تجري فجئت إلى رسول الله فأخبرته فقال ذاك عمله
   صحيح البخاري7018أم العلاء بنت الحارثما يدريك قلت لا أدري والله قال أما هو فقد جاءه اليقين إني لأرجو له الخير من الله
   صحيح البخاري7003أم العلاء بنت الحارثما يدريك أن الله أكرمه
   صحيح البخاري3929أم العلاء بنت الحارثما يدريك أن الله أكرمه قالت قلت لا أدري بأبي أنت وأمي يا رسول الله فمن قال أما هو فقد جاءه والله اليقين والله إني لأرجو له الخير ما أدري والله وأنا رسول الله ما يفعل بي ريت لعثمان بن مظعون عينا تجري فجئت رسول الله فأخبرته فقال ذلك عمله
   صحيح البخاري1243أم العلاء بنت الحارثجاءه اليقين والله إني لأرجو له الخير ما أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1243  
1243. ایک انصاری خاتون حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے۔ (جو ان عورتوں میں شامل ہیں) جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی،انھوں نےفرمایا:جب مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم ہوئے تو ہمارے حصے میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ آئے جنھیں ہم اپنے گھر لے آئے اور وہ اچانک مرض وفات میں مبتلا ہو گئے۔ جب وہ فوت ہوئے تو انھیں غسل دیاگیا اور انھی کے کپڑوں میں کنفایا گیا۔ دریں اثنا رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا:اے ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ تمہارے لیے میری شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں سرفراز کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تمھیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول (ﷺ)! میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں! تو پھر اللہ تعالیٰ کسے سرفراز کرے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:بلاشبہ انھیں اچھی حالت میں موت آئی ہے۔ واللہ!میں بھی ان کے لیے بھلائی کی اُمید رکھتا ہوں اللہ کی قسم!میں اللہ کا رسول ہوکر بھی اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1243]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔
ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت ﷺ نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔
اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔
انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون ؓ کو دیکھا۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔
ہمیں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔
حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔
کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔
اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہو گیا تھا۔
پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔
آپ ﷺ کا شفاعت کرنا برحق ہے۔
بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ ﷺ کو حاصل ہے۔
اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔
حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1243   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1243  
1243. ایک انصاری خاتون حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے۔ (جو ان عورتوں میں شامل ہیں) جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی،انھوں نےفرمایا:جب مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم ہوئے تو ہمارے حصے میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ آئے جنھیں ہم اپنے گھر لے آئے اور وہ اچانک مرض وفات میں مبتلا ہو گئے۔ جب وہ فوت ہوئے تو انھیں غسل دیاگیا اور انھی کے کپڑوں میں کنفایا گیا۔ دریں اثنا رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا:اے ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ تمہارے لیے میری شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں سرفراز کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تمھیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول (ﷺ)! میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں! تو پھر اللہ تعالیٰ کسے سرفراز کرے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:بلاشبہ انھیں اچھی حالت میں موت آئی ہے۔ واللہ!میں بھی ان کے لیے بھلائی کی اُمید رکھتا ہوں اللہ کی قسم!میں اللہ کا رسول ہوکر بھی اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1243]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام علاء ؓ کی شہادت سن کر فرمایا:
اللہ کی قسم! مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود اپنے اور تمہارے بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ قیامت کے دن ہم سے کیا برتاؤ کیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی بعینہ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ ﴾ (الأحقاف: 9: 46)
آپ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا برتاؤ ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ کا اپنے متعلق لاعلمی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد سے پہلے کا ہے:
﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿١﴾ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾ (الفتح: 48)
اے نبی! ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کر دی تاکہ اللہ آپ کی اگلی اور پچھلی سب لغزشیں صاف کر دے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے اور آپ کو صراط مستقیم پر چلائے۔
کیونکہ جن آیات میں لاعلمی کا اظہار ہے وہ مکی سورت میں ہے اور جہاں آپ کا مذکورہ اعزاز بیان ہوا ہے، وہ مدنی سورت میں ہے، (فتح الباري: 149/3)
نیز اپنے متعلق آپ نے واضح طور پر فرمایا:
جنت میں سب سے پہلے میں داخل ہوں گا۔
(مسند أحمد: 144/3، و السلسلة الأحادیث الصحیحة، تحت حدیث: 1571) (2)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، ام علاء ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق تبصرہ فرمایا تو مجھے بہت پریشانی لاحق ہوئی۔
میں نے خواب میں حضرت عثمان ؓ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:
یہ اس کا عمل ہے (جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری و ساری ہے)
۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2687) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قطعی طور پر کسی کو جنتی نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ حصول جنت کے لیے خلوص نیت شرط ہے جس پر اللہ کے سوا اور کوئی مطلع نہیں ہو سکتا، البتہ جن حضرات کے متعلق نص قطعی ہے، مثلا:
عشرہ مبشرہ وغیرہ تو انہیں جنتی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
والله أعلم۔
(4)
نافع بن یزید کی روایت کو اسماعیلی نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
شعیب کی متابعت کو امام بخارى ؒ نے خود متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
اللہ کی قسم! مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2687)
عمرو بن دینار کی متابعت کو ابو عمر نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 149/3)
معمر کی متابعت کو بھی امام بخاری نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7003)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1243   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.