الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
86. بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ:
86. باب: عذاب قبر کا بیان۔
(86) Chapter. Wha is said regarding the punishment in the grave.
حدیث نمبر: 1374
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا عبد الاعلى، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، انه حدثهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم، اتاه ملكان فيقعدانه فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم؟ فاما المؤمن فيقول: اشهد انه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد ابدلك الله به مقعدا من الجنة فيراهما جميعا، قال قتادة: وذكر لنا انه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث انس , قال: واما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا ادري، كنت اقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلين".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا، قَالَ قَتَادَةُ: وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ , قَالَ: وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے (منکر نکیر) اس کے پاس آتے ہیں ‘ وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کا ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کر دی جائے گی۔ (جس سے آرام و راحت ملے) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی ‘ فرمایا اور منافق و کافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تو نے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle said, "When (Allah's) slave is put in his grave and his companions return and he even hears their footsteps, two angels come to him and make him sit and ask, 'What did you use to say about this man (i.e. Muhammad)?' The faithful Believer will say, 'I testify that he is Allah's slave and His Apostle.' Then they will say to him, 'Look at your place in the Hell Fire; Allah has given you a place in Paradise instead of it.' So he will see both his places." (Qatada said, "We were informed that his grave would be made spacious." Then Qatada went back to the narration of Anas who said;) Whereas a hypocrite or a non-believer will be asked, "What did you use to say about this man." He will reply, "I do not know; but I used to say what the people used to say." So they will say to him, "Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Qur'an)." Then he will be hit with iron hammers once, that he will send such a cry as everything near to him will hear, except Jinns and human beings. (See Hadith No. 422).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 456


   سنن النسائى الصغرى2051أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم
   سنن النسائى الصغرى2052أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم قال فيأتيه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عليه و
   سنن النسائى الصغرى2053أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا خيرا منه قال رسو
   صحيح البخاري1338أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك من النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عل
   صحيح البخاري1374أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة فيراهما
   صحيح مسلم7216أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم قال يأتيه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل قال فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله قال فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال نبي الله صلى
   سنن أبي داود3231أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم
   سنن أبي داود4751أنس بن مالكالمؤمن إذا وضع في قبره أتاه ملك فيقول له ما كنت تعبد فإن الله هداه قال كنت أعبد الله فيقال له ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول هو عبد الله ورسوله فما يسأل عن شيء غيرها فينطلق به إلى بيت كان له في النار فيقال له هذا بيتك كان لك في النار ولكن الله عصمك ورحمك
   مشكوة المصابيح126أنس بن مالكإن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل
   المعجم الصغير للطبراني342أنس بن مالك من قتله بطنه لم يعذب فى قبره
   مسندالحميدي1221أنس بن مالكلولا أن تدافنوا لسألت الله عز وجل أن يسمعكم من عذاب أهل القبور ما أسمعني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1338  
´مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ , وَتُوُلِّيَ , وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1338]

فوائد و مسائل:
↰ یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو «حين يولون عنهٔ» (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور «إِذا انصرفوا»، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔

◈ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
«وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال»
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ [شرح أبى داؤد:188/6]
↰ پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی «ليسمع» وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔

↰ اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو:
◈ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
«والذي نفسي بيده! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين»
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ [شرح معاني الاثار للطحاوي:510/1، وسنده حسن]

◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ)اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
«فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.»
اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة: 1147]

◈ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
«فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.»
مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔ [القول المفيد على كتاب التوحيد: 289/1]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 126  
´قبر میں سوال جواب`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنه حَدثهمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَة وَذكر لنا أَنه يفسح لَهُ فِي قَبره ثمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيث أنس قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثقلَيْن» وَلَفظه للْبُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندے کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس ہونے لگتے ہیں تو وہ مردہ واپس جانے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آ کر اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تم کیا کہتے تھے۔ پس مومن بندہ جواب میں کہتا ہے کہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اس سے کہا جاتا ہے تم دوزخ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھو (کہ اگر تو ایمان نہیں لاتا تو تیرا ٹھکانا دوزخ میں تھا)، لیکن ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں جنت میں تمہارا ٹھکانا مقرر کر دیا ہے تو وہ دونوں جنت جہنم کے ٹھکانے کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ تم اس کے بارے میں کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ اس کے جواب میں کہتا ہے میں نہیں جانتا جو لوگ کہا کرتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا یعنی منافق بغیر سچے اعتقاد کے کلمہ طیبہ جان بچانے کے لیے کہہ دیتا تھا مگر نہ اس کا مطلب سمجھا اور نہ اس کے مطابق عمل کیا صرف مسلمانوں کے دیکھا دیکھی وہ کہہ دیا کرتا تھا اسی لیے وہ فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے کہ میں حقیقت حال کو کچھ نہیں جانتا، جو اور لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا۔ تو اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل ہی سے پہچانا اور نہ قرآن مجید کی تلاوت کی۔ یا یہ مطلب ہے نہ تم نے خود سمجھا اور نہ سمجھداروں کی تابعداری کی یعنی نہ دلیل عقلی سے سمجھا اور نہ دلیل نقلی، قرآن و حدیث سے جانا۔ یہ کہہ کر اسے لوہے کی گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ وہ چیخنے لگتا ہے کہ اس کی چیخ کی آواز آس پاس کے سب ہی سنتے ہیں، سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور الفاظ بخاری کے ہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 126]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1374]،
[صحيح مسلم 7216]

فقہ الحدیث:
➊ سوال و جواب کے وقت میت واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
➋ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے۔
«هذا الرجل» سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائے جاتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ میت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے: «اي رجل» کون سا آدمی؟ ديكهئے: [المستدرك للحاكم 3801/1 ح1709، وسنده حسن، و صحيح ابن حبان، الاحسان: 3119/3103 و صححه الحاكم و وافقه الذهبي]
اگر قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا تو مرنے والا یہ کبھی نہ پوچھتا کون سا آدمی؟
➍ آج کل «ولاتليتَ» سے بعض تقلیدی لوگ تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد کتاب اللہ کی تلاوت یا انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3231  
´قبروں کے درمیان جوتا پہن کر چلنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3231]
فوائد ومسائل:

میت کو قبر میں زندہ کیا جاتاہے۔
اور پھر اس کا محاسبہ ہوتا ہے۔
اور یہ سب غیبی معاملہ ہے۔
سماع موتیٰ میں ہمیں صرف اسی قدر خبر دی گئی ہے۔
کہ وہ جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔
اور اسی پر ہمارا ایمان ہے اس سے مذید کی نفی ثابت ہے۔

معلوم ہوا کہ قبرستان میں جوتے پہننا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3231   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1374  
1374. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:آدمی کو جب قبر میں دفن کردیاجاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں، وہ ابھی ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں جو اسے بٹھا کرپوچھتے ہیں کہ تو اس آدمی، یعنی محمد ﷺ کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟مومن جواب میں کہتا ہے:میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہاجاتا ہے:تو جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ نے اس کے بدلے تجھے جنت میں ٹھکانا دیاہے۔ وہ دونوں ٹھکانوں کو بیک وقت دیکھتا ہے۔ حضرت قتادہ ؒ نے کہا:حدیث میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ اسکی قبر کو کشادہ کردیاجاتا ہے۔ پھر اس نے حدیث انس ؓ کی طرف رجوع کیا،فرمایا:جب کافر اورمنافق سے سوال کیاجاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟تو وہ کہتا ہے:میں کچھ نہیں جانتا۔جو کچھ لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کچھ کہہ دیتا تھا۔ پھر اس سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1374]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے جو کفار و منافقین کو دیا جائے گا۔
اگر اللہ چاہے تو نافرمان اہل ایمان کو بھی عذاب قبر سے دوچار کر سکتا ہے، لیکن سوال و جواب اہل ایمان اور کفار دونوں سے ہوں گے۔
ابوداود میں اس حدیث کا سبب ورود بھی بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنو نجار کے ایک نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ نے ایک خوفناک آواز سنی جس سے آپ کو گھبراہٹ ہوئی۔
آپ نے دریافت فرمایا:
ان قبروں میں کون دفن ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! دور جاہلیت میں جو لوگ مر گئے تھے وہ ان میں دفن ہیں۔
آپ نے فرمایا:
عذاب قبر اور فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو۔
لوگوں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! عذاب قبر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
مومن کو جب قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4751)
ابوداود ہی کی اس روایت میں ہے کہ سوال و جواب کے وقت میت میں اعادہ روح ہوتا ہے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4753)
اس پر بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا کرنے سے تین دفعہ زندگی اور تین دفعہ موت واقع ہو گی جو قرآن کی صریح نص کے خلاف ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ﴾ (المؤمن11: 40)
کافر کہیں گے:
ہمارے پروردگار! تو نے دو دفعہ ہمیں مارا اور دو دفعہ زندہ کیا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ مذکورہ اعادہ روح صرف سوال و جواب کے لیے ہے۔
یہ مستقل زندگی نہیں جو کہ اسے جسم کے ساتھ روح کے قائم ہونے سے حاصل ہوئی تھی۔
یہ ایک عارضی زندگی ہے۔
اس کے بعد اس روح کو اس کے مستقر میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ مومن کی روح کو پرندے کی شکل میں چھوڑ دیا جاتا ہے وہ جنت کے درختوں سے کھاتی پیتی ہے۔
(مسندأحمد: 455/3) (3)
یہ اعادہ روح برزخ کے اعتبار سے ہے۔
دنیاوی لحاظ سے اس پر میت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
اس کے متعلق ہم پہلے تفصیل سے لکھ آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1374   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.