الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
88. بَابُ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنَ الْغِيبَةِ وَالْبَوْلِ:
88. باب: غیبت اور پیشاب کی آلودگی سے قبر کا عذاب ہونا۔
(88) Chapter. Punishment in the grave because of back-biting and soiling one’s clothes with urine.
حدیث نمبر: 1378
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما،" مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبرين , فقال: إنهما ليعذبان، وما يعذبان من كبير، ثم قال: بلى، اما احدهما فكان يسعى بالنميمة، واما احدهما فكان لا يستتر من بوله، قال: ثم اخذ عودا رطبا فكسره باثنتين، ثم غرز كل واحد منهما على قبر، ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ , فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ، وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ، ثُمَّ قَالَ: لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے مجاہد نے ‘ ان سے طاؤس نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کے مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہو رہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کی قبروں پر گاڑ دیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہو جائے۔

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet once passed by two graves and said, "They (the deceased persons in those graves) are being tortured not for a great thing to avoid." And then added, "Yes, (they are being punished for a big sin), for one of them used to go about with calumnies while the other never saved himself from being soiled with his urine." (Ibn `Abbas added): Then he took a green leaf of a date-palm) and split it into two pieces and fixed one piece on each grave and said, "May their punishment be abated till these (two pieces) get dry."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 460


   صحيح البخاري6055عبد الله بن عباسيعذبان وما يعذبان في كبير وإنه لكبير كان أحدهما لا يستتر من البول وكان الآخر يمشي بالنميمة ثم دعا بجريدة فكسرها بكسرتين أو ثنتين فجعل كسرة في قبر هذا وكسرة في قبر هذا فقال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
   صحيح البخاري216عبد الله بن عباسيعذبان وما يعذبان في كبير ثم قال بلى كان أحدهما لا يستتر من بوله وكان الآخر يمشي بالنميمة ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين فوضع على كل قبر منهما كسرة فقيل له يا رسول الله لم فعلت هذا قال لعله أن يخفف عنهما ما لم تيبسا أو إلى أن ييبسا
   صحيح البخاري6052عبد الله بن عباسليعذبان وما يعذبان في كبير أما هذا فكان لا يستتر من بوله وأما هذا فكان يمشي بالنميمة ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين فغرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا ثم قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
   صحيح البخاري218عبد الله بن عباسليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة قالوا يا رسول الله لم فعلت هذا قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
   صحيح البخاري1361عبد الله بن عباسليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين ثم غرز في كل قبر واحدة فقالوا يا رسول الله لم صنعت هذا فقال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا
   صحيح البخاري1378عبد الله بن عباسليعذبان وما يعذبان من كبير ثم قال بلى أما أحدهما فكان يسعى بالنميمة وأما أحدهما فكان لا يستتر من بوله قال ثم أخذ عودا رطبا فكسره باثنتين ثم غرز كل واحد منهما على قبر ثم قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
   صحيح مسلم677عبد الله بن عباسليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان يمشي بالنميمة وأما الآخر فكان لا يستتر من بوله قال فدعا بعسيب رطب فشقه باثنين ثم غرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا ثم قال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا
   جامع الترمذي70عبد الله بن عباسإنهما يعذبان وما يعذبان في كبير أما هذا فكان لا يستتر من بوله وأما هذا فكان يمشي بالنميمة
   سنن أبي داود20عبد الله بن عباسيعذبان وما يعذبان في كبير أما هذا فكان لا يستنزه من البول وأما هذا فكان يمشي بالنميمة ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين ثم غرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا وقال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
   سنن النسائى الصغرى2071عبد الله بن عباسليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستبرئ من بوله وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين ثم غرز في كل قبر واحدة فقالوا يا رسول الله لم صنعت هذا فقال لعلهما أن يخفف عنهما ما لم ييبسا
   سنن النسائى الصغرى2070عبد الله بن عباسيعذبان وما يعذبان في كبير ثم قال بلى كان أحدهما لا يستبرئ من بوله وكان الآخر يمشي بالنميمة ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين فوضع على كل قبر منهما كسرة فقيل له يا رسول الله لم فعلت هذا قال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا أو إلى أن ييبسا
   سنن النسائى الصغرى31عبد الله بن عباسيعذبان وما يعذبان في كبير أما هذا فكان لا يستنزه من بوله وأما هذا فإنه كان يمشي بالنميمة ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين فغرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا ثم قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
   سنن ابن ماجه347عبد الله بن عباسإنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستنزه من بوله وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة
   سنن أبي داود21عبد الله بن عباسان لا يستتر من بوله. وقال ابو معاوية: يستنزه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 20  
´پیشاب سے پاکی کا بیان`
«. . . رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ:" إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا هَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ . . .»
. . .رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قبر میں مدفون) ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں، ان میں سے یہ شخص تو پیشاب سے پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا یہ تو یہ چغل خوری میں لگا رہتا تھا۔۔۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 20]
فوائد و مسائل:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل ہی کے بتانے سے ایسی خبریں دیا کرتے تھے۔ فرمایا: «وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٭ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ» [النجم: 4۔ 3] وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے، جو کہتے ہیں وحی ہوتی ہے ان پر نازل کردہ۔ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے، حالانکہ امور غیب کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ «وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَ‌قَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَر‌ضِ وَلا رَ‌طبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ» [الانعام: 59] اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہین جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔ اور فرمایا: «قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُر‌ونَ أَيّانَ يُبعَثونَ» [النمل: 27۔ 65] اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کی بات پر مطلع فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «عـٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ‌ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا» ٭ «إِلّا مَنِ ار‌تَضىٰ مِن رَ‌سولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَ‌صَدًا» [الجن: 72۔ 26، 27] (وہی) غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔ اور فرمایا: «قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّ‌سُلِ وَما أَدر‌ى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ‌ مُبينٌ» [الاحقاف: 46، 9] کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو صاف صاف (کھلم کھلا) ڈرانا ہے۔

➋ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث میں ہے کہ جب حضرت جبریل نے نبی علیہ السلام سے قیامت کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما المسؤل عنها باعلم من السائل» [صحيح البخاري الايمان، باب سؤال جبريل النبى صلى الله عليه وسلم عن الايمان۔۔۔۔۔۔۔ حديث: 50، صحيح مسلم، الايمان، حديث: 8] اس کے بارے میں مسؤل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ضرور بتلایا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بس اتنا علم غیب تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کروا دیا تھا، اسی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ضرورت بتایا، غیب کے باقی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا۔ پیشاب سے طہارت حاصل نہ کرنا، یا اس کے چھینٹوں سے نہ بچنا، یا پردہ نہ کرنا یعنی برسرعام پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے بیٹھ جانا عذاب قبر کا باعث ہے۔
➌ چغل خوری کو بھی عام سی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی بہت بڑا گناہ اور عذاب قبر کا باعث ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں اور چھڑیاں رکھنے کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے مخصوص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ عمل نہیں کیا، اب جو لوگ کرتے ہیں ایک بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 20   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 21  
´پیشاب سے پاکی کا بیان`
«. . . كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ . . .»
. . . وہ پاکی حاصل نہیں کرتا تھا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 21]
فوائد و مسائل:
«لا يستتر» کا ظاہر معنی ہے کہ پردہ نہ کرتا تھا۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اور پیشاب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ کرتا تھا تاکہ وہ اس کے جسم اور کپڑوں کو نہ لگے۔ اس طرح دونوں لفظ معنوی طور پر ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 21   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 216  
´پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے`
«. . . قَالَ:" مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 216]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے کو کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھہرایا۔ امام بخاری نے باب کے تحت جو حدیث پیش کی ہے اس میں بھی یہی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے آپ نے اس جرم کو کبیرہ گناہ قرار دیا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ رہی بات یہ کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بڑے گناہ کے سبب نہیں، پھر آپ نے خود ہی فرما دیا کہ ہاں بڑا گناہ ہے تو اس تعارض کا کیا جواب ہو گا؟

اس تعارض کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا سکتا ہے۔
➊ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت اس کا علم نہ ہو گا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی گئی کہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا اور غیبت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
➋ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس فعل کو کبیرہ نہیں کہا: اس لیے کہ لوگوں کے نزدیک اس فعل کو کبیرہ میں شمار نہ کیا جاتا ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کے بارے میں آگاہی دے دی کہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔
➌ یہ بھی ممکن ہے کہ ابتداء میں شریعت نے اس فعل کو کبیرہ گناہوں میں شمار نہ کیا ہو لیکن بعد میں اسے کبیرہ گناہ کہہ کر اس فعل کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس کی تائید صحیح ابن حبان کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ: «يعذبان عذابا شديدا فى ذنب هين» [فتح الباري ج1 ص422] ان دونوں پر سخت عذاب ہو رہا ہے ہلکے گناہ میں۔
↰ ابن حبان کی اس حدیث نے واضح کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا تھا کہ کسی کبیرہ گناہ کے سبب ان کو عذاب نہیں دیا جا رہا تو اس سے مراد یہ ہے کہ گناہ تو ہلکا تھا لیکن عذاب کے اعتبار سے یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔

◈ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وما يعذبان بكبير يعنى عندكم وهو كبير يعنى عند الله كقوله تعالى: وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ الآية واختلفوا فى الكبائر، فقيل: الكبائر سبع، وقيل تسع . . . .» [الكواكب الدراري ت3 ص63]
ان دونوں کو قبر میں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا تھا یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہے (کہ پیشاب سے نہ بچنا چھوٹا گناہ ہے مگر) وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا! « ﴿وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ﴾ » اور تم اسے معمولی سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔ [النور: 15]

◈ عبداللہ بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«واختلف فى معنى قوله: (وإنه كبير) فقيل: يحتمل إنه صلى الله عليه وسلم ظن ان ذالك غير كبير، فأوحي اليه فى الحال بأنه كبير، وتعقب، بأنه يستلزم أن يكون نسخاً، وهو لا يدخل الخبر، وأجيب: بأن الخبر بالحكم يجوز نسخه، فقوله وما يعذبان فى كبير اخبار الحكم فاذا اوحي اليه انه كبير، فأخبر به كان نسخاً لذالك الحكم»
[ضياء الساري فى مسالك ابواب البخاري: ج 3، ص 502]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: کہ وہ کبیرہ گناہ ہے۔ اس میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ آپ علیہ السلام کا یہ خیال تھا کہ (پیشاب سے نہ بچنا) کبیرہ گناہ نہیں ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے یہ خبر دی گئی کہ وہ کبیرہ گناہ ہے۔ اور تعاقب یہ ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا اور وہ خبر میں داخل نہیں ہے۔ اس کا جواب دیا گیا کہ جب خبر حکم کے ساتھ ہو تو اس کا منسوخ ہونا جائز ہے (اہل علم کے نزدیک یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ نسخ احکام میں ہوتا ہے اخبار میں نہیں)۔‏‏‏‏
↰ امام عبداللہ بن سالم رحمہ اللہ کی اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حکم منسوخ ہو گا اور بعد کا حکم ناسخ ہے۔

◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان دونوں کو کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی گئی کہ وہ کبیرہ گناہ ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں ہاں، وہ کبیرہ گناہ ہے۔ [شرح تراجم ابواب البخاري، ص92]

◈ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن دقیق العید وغیرہ فرماتے ہیں کہ وہ مشقت کے اعتبار سے بڑا گناہ نہیں ہے مگر وعید کے اعتبار سے کبیرہ گناہ میں داخل ہے . جیسا کہ صحیح ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ ان دونوں کو سخت عذاب ہو رہا ہے ہلکے گناہ کی وجہ سے۔ [ارشادالساري: ج1، ص287]

اور کبیرہ گناہ میں اختلاف ہے (کہ ان کی تعداد کیا ہے) بعض نے کہا کہ وہ سات ہیں بعض نے کہا کہ وہ نو کی تعداد میں ہیں اور بھی کہا گیا ہے کہ ہر معصیت، ہر وہ گناہ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ مہر لگاتا ہے، آگ کی یا لعنت کرتا، غضب کرتا ہے یا عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔

◈ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کبیرہ گناہوں کے بارے میں کہ کیا وہ سات ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ سات سو کے قریب ہیں۔

◈ امام ذھبی رحمہ اللہ (المتوفی 748ھ) نے کبیرہ گناہوں کے بارے میں ایک ضخیم کتاب تحریر فرمائی ہے جس میں آپ نے ستر (70) کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس میں پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ [ديكهئے كتاب الكبائر للذهبي ص133]

◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان دونوں کو کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا پھر آپ علیہ السلام پر وحی کی گئی کہ وہ کبیرہ گناہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ہاں وہ بڑا گناہ ہے۔
گناہ کبیرہ کی تعریف میں علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے بہت عمدہ بحث فرمائی ہے جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی جامع ہے کہ جس گناہ پر کسی طرح کی وعید آئی ہے یعنی حد شرعی جیسا کہ قتل، زنا اور چوری کرنا جہنم کی وعید یا لعنت وارد ہوئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ [الاحزاب]

ان گزارشات واقتباسات سے واضح ہوا کہ لوگوں کے نزدیک یہ چھوٹا گناہ ہے مگر عذاب کے اعتبار سے کبیرہ گناہ ہے۔ «والله اعلم»

فائدہ:
مذکورہ بالا حدیث میں واضح طور پر عذاب قبر کی وعید ہے اور واضح اشارہ موجود ہے کہ عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے کسی برزخی قبر کا کوئی شریعت میں وجود ہی نہیں ہے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں قبر کا تصور اسی ارضی قبر کے ساتھ خاص ہے جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
«فلولاان لا تدافنو الدعوت الله ان يسمعكم من عذاب القبر»
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنا دے۔ [صحيح مسلم كتاب الجنة ونعيمها رقم 7213]
اس حدیث سے واضح طور پر یہ مسئلہ منکشف ہوا کہ عذاب قبر اسی جگہ ہوتا ہے جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیوں کہ اگر اس ارضی قبر کے علاوہ کوئی اور قبر کا تصور ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ تم مردے دفنانا چھوڑ دو گے بغیر کسی مقصد کے ہو جاتے غور فرمائیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنم کے عذاب کے لئے فرمایا؟ کیوں کہ جہنم میں کسی کو دفن نہیں کرتے اس ارضی قبر میں ہی دفن کرتے ہیں جہاں میت کو راحت یا عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں متعدد مقامات پر عذاب قبر کا ذکر فرمایا ہے اور اس پر مختلف قسم کے ابواب قائم کیے ہیں تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ عذاب قبر اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے۔ برزخی قبر کا تصور کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں بلکہ یہ صرف بدعتی گروہ کا خیال ہے۔۔۔۔

امام بخاری رحمہ اللہ ابواب قائم فرماتے ہیں کہ:
«باب الدخول على الميت بعد الموت»
«باب الرجل ينعي إلى أهل الميت بنفسه»
«باب قول الرجل للمرأة عند القبر اصبري»
«باب غسل الميت ووضؤه بالماء والسدر»
«مواضع الوضؤ من الميت»
«زيارة القبور»
«كيف الاشعار للميت»
«قول النبى صلى الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه»
«ما يكره عن النياحة على الميت»
«الحنوط للميت»
«قول الميت وهو على الجنازة قدموني»
«يكره من اتخاذ المسجد على القبور»
«الصلاة على القبر بعد ما دفن»
«الميت يسمع خفق النعال»
«دفن الرجين والثلاثة قبر واحد»
«اللحد والشق فى القبر»
«بناءالمسجد على القبر»
«عذاب القبر من الغيبة والبول»
«المیت یعرض علیہ مقعدہ»
«ماجاء فی عذاب القبر»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مقامات پر قبر کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کی واضح تشریح بھی فرمائی ہے اور آپ رحمہ اللہ نے بخاری میں سترہ مقامات پر قبر کے نام سے ابواب قائم کئے ہیں۔ جو واضح طور پر دلیل ہے کہ عذاب قبر اسی ارضی قبر میں ہی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
« ﴿مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾ » [طه 55/20]
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے تم سب کو دوبارہ نکال کھڑا کریں گے۔
اس آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین سے پیدا فرمایا ہے اور زمین میں ہی اس کو موت آئے گی اور اسی زمین ہی میں لوٹایا جائے گا اور وہ زمین سے ہی دوبارہ قیامت میں کھڑا کیا جائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک مؤمن اپنی قبر میں سرسبز و شاداب باغ میں ہوتا ہے اور اس کے لئے قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور چودھویں رات کے چاند کی طرح اس میں روشن کر دی جاتی ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ آیت « ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ » [طه: 124] کیا ہوتا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول یہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عذاب قبر ہے جو قبر میں کافر کو دیا جاتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک کافر پر ننانوے اژدھے مسلط کئے جاتے ہیں۔ جانتے ہو اژدھے کیا ہوتے ہیں؟ ایک اژدھا ستر سانپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ہر سانپ کے سات سر ہوتے ہیں جو کافر کو قیامت تک ڈستے اور کاٹتے رہیں گے۔ [ابن حبان كتاب الجنائز رقم 3112]

امام ابن خزیمۃ رحمہ اللہ عذاب قبر پر دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ!
باب ہے اس دلیل کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول وہی ہے جس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں موت دے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ سے اس بات کی نفی لازم نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دو مرتبہ سے زیادہ زندہ کرے۔
جو شخص عذاب قبر کا انکار کرے اور دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے کسی کو بھی قبر میں زندہ نہیں کرے گا اور دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرے۔ « ﴿رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ﴾ » [المؤمن: 11] اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی۔

اسی طرح کی دیگر آیات جن میں دو زندگیوں کا تذکرہ ہے ان سے دو سے زیادہ زندگیوں کی نفی لازم نہیں آتی، پس ان (دلائل) کو سمجھو اور مغالطہ نہ دو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
« ﴿اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ﴾ » [البقرة: 259]
یا جیسا کہ وہ شخص جو گزرا ایک بستی پر اور وہ گری پڑی تھی اپنی چھتوں پر وہ بولا کیونکر زندہ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ اس کے مرے پیچھے، پھر اسے موت دے دی اللہ نے سو 100 سال تک پھر دوبارہ زندہ کر دیا اسے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو قیامت سے پہلے دو مرتبہ زندہ فرمایا یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو دو مرتبہ زندہ کیا۔ دوسری مرتبہ تو اس وقت زندہ کیا جب کہ وہ پورے سو سال تک مردہ رہے۔ پھر قیامت کے دن تیسری مرتبہ انہیں زندہ کیا جائے گا۔

اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
« ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّـهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ﴾ » [البقرة: 243]
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو جو نکل گئے تھے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں (کی تعداد میں) تھے۔ موت سے ڈر کر پھر کہا انہیں اللہ نے کہ مر جاؤ پھر زندہ کر دیا ان کو
میں نے اپنی پہلی کتاب، کتاب معانی القرآن میں بیان کیا ہے کہ بے شک یہ حکم امر تکوین ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مار ڈالا تھا جیسا کہ «موتوا» کے الفاظ واضح کر تے ہیں کیونکہ آیت کا سیاق اس پر دلالت کر تا ہے کہ ان پر موت طاری کر دی گئی تھی۔ پھر ان کو زندہ، مر جانے کے بعد کیا گیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: « ﴿ثُمَّ أَحْيَاهُمْ﴾ » پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو (دوبارہ) زندہ کیا۔ یہ الفاظ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ وہ سب مر چکے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو موت کے بعد زندہ کیا۔ پس اس جماعت کو اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے دوسری مرتبہ زندہ کیا اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو تیسری مرتبہ زندہ کرے گا۔ پس الکتاب اس پر دال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو تین مرتبہ زندہ کیا۔ ان جاہلوں کا یہ دعوٰی کہ قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ قبر میں کسی کو زندہ نہ کرے گا۔ کیسے صحیح ہو سکتا ہے جبکہ کتاب اللہ اور سنن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے باطل دعویٰ کے خلاف بات ثابت ہو چکی ہے۔
لہٰذا عذاب قبر حق ہے اور اس کا تعلق اسی ارضی قبر کے ساتھ ہے اور یہ ایمان میں داخل ہے۔

◈ امام ابومحمد البر بھاری رحمہ اللہ (المتوفی 229ھ) فرماتے ہیں:
«والإيمان بعذاب القبر، ومنكر ونكير» [اتحاف القاري بالتعليقات على شرح السنة ج1 ص159]
امام ابومحمد البر بھاری رحمہ اللہ نے عذاب قبر اور منکر نکیر کو ایمان میں داخل فرمایا ہے۔

◈ عصر حاضر کے محقق الشیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں:
«كذالك من عقيدة اهل السنة والجماعة، الايمان بعذاب القبر، ونعيم القبر، فالميت اما ان يعذب فى قبره، واما ان ينعم الي ان يعبث يوم القيمة» [اتحاف القاري ج1ص159]
اسی طرح اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے عذاب قبر پر اس کی نعمتوں پر، میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے یا اسی نعمتوں سے مالامال کیا جاتا ہے قیامت کے دن تک۔ لہٰذا عذاب قبر حق ہے . یہی عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا اور یہی عقیدہ سلف صالحین کا تھا جو اس ایمان، عقیدے سے منحرف ہو گا یقیناً وہ شخص ضال و مضل ہو گا۔ لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی عذاب قبر سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ عذاب قبر کے بارے میں جاننے کے لئے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے کتاب التوحید اور امام قرطبی کی التذکرہ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

فائدہ نمبر2:
سابقہ احادیث کے مطالعہ کے بعد ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے کو عذاب قبر میں ملوث کیوں کیا جائے گا؟ قبر سے اس کی کیا مناسبت ہو گی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ «طهارت عن البول عبادات» اور اطاعت کا پہلا قدم ہے اور بعین اسی طرح سے دوسری طرف قبر کا معاملہ آخرت کے معاملات میں پہلا قدم ہے۔ بروز محشر سب سے پہلا سوال نماز کا ہو گا اور طہارت نماز سے مقدم ہے۔ یہی وجہ ہے عذاب قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے . جب عبادات کی پہلی منزل میں کوتاہی ہو گی (یعنی طہارت میں) تو آخرت کی تمام منزلیں برباد ہو جائیں گی۔
اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
«اتقوا البول فإنه أول ما يحاسب به العبد فى القبر» [رواه الطبراني بأسناد حسن]
پیشاب سے بچو کیونکہ قبر میں بندے سے پہلا حساب اسی کے بارے میں ہو گا۔

بعین یہی جواب عبداللہ بن سالم البصری رحمہ اللہ نے دیا ہے، آپ رقمطراز ہیں:
«ان القبر أول منازل الآخرة، وفيه أنموذج مايقع فى القيامة من العقاب والثواب، والمعاصي التى يعاقب عليها يوم القيمة نوعان: حق الله، وحق العبادة، أول ما يقضىٰ من حقوق الله: الصلاة، ومن حقوق الناس: الدماء، واما البرزخ فيقضيٰ فيه مقدمات هذين الحقين ووسائلهما، فمقدمة الصلاة: الطهارة من الحدث والخبث و مقدمة الدماء: النميته، فيبدا البرزخ بالعقاب عليهما» [ضياء الساري: ج 3، ص 505]
یعنی قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے۔ اسی میں مثال ہے قیامت کے عذات اور ثواب کا جو واقع ہو گا۔ معاصیت کے دو انجام ہیں قیامت کے روز پہلا حقوق اللہ، دوسرا حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں نماز ہے اور حقوق العباد میں خون ہے۔ (جس کا سوال پہلے کیا جائے گا) اور برزخ میں ان دونوں کے بارے میں فیصلے کیے جائیں گے . پس جو نماز کا مقدمہ ہے وہ «طهارت من الحديث» اور «خبث» (سے شروع ہو گا) اور جو خون کا مقدمہ ہے وہ غیبت سے (شروع ہو گا) پھر ان دونوں پر برزخ میں عذاب کی ابتدا ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 128   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6052  
´ غیبت کا بیان`
«. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ سورة الحجرات آية 12 . . .»
. . . اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه واتقوا الله إن الله تواب رحيم‏» اور تم میں بعض بعض کی غیبت نہ کرے کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، تم اسے ناپسند کرو گے اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6052]

«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ:" إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ" ثُمَّ دَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ، فَغَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا، ثُمَّ قَالَ:" لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ یہ (ایک قبر کا مردہ) اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا (یا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا) اور یہ (دوسری قبر والا مردہ) چغل خور تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری شاخ منگائی اور اسے دو ٹکڑوں میں توڑ کر دونوں قبروں پر گاڑ دیا اس کے بعد فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں سوکھ نہ جائیں اس وقت تک شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6052]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6052 کا باب: «بَابُ الْغِيبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں غیبت کا ذکر فرمایا، جبکہ تحت الباب غیبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ نمیمہ (چغل خوری) کا ذکر ہے۔ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کے لیے ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«بوّب على الغيبة، و ذكر النميمة تنبيهًا على اجتماعهما فى المعني، و هو الذكر بظهر الغيب بما يكره الإنسان أن يذكر عنه، و ألحق الغيبة بالنميمة بطريق الأولى، إذا النميمة لا يكون فيها تنقيص، و الغيبة لا تخلوا منه، فهي أحرم.» (2)
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں غیبت کا ذکر فرمایا اور حدیث میں چغل خوری کا بیان ہے، جو کہ تنبیہ ہے اس بات کی کہ اجتماعیت کے اعتبار سے یہ دونوں معنی میں یکساں ہیں، غیبت میں انسان کے اس کی پیٹھ پیچھے وہ باتیں کی جاتی ہیں جس کو وہ اپنے سامنے بھی نہ پسند کرتا ہے، لہذا غیبت اور نمیمہ ملحق ہیں ایک دوسرے کے ساتھ بطریق اولی، بعض نمیمہ میں تنقیص نہیں ہوتی اور غیبت اس چیز سے خالی نہیں تو پھر یہ زیادہ حرام شے ہوئی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وقد تقدم شرحه فى كتاب الطهارة، و ليس فيه ذكر الغيبة بل فيه يمشي بالنميمة، قال ابن التين: إنما ترجم بالغيبة و ذكر النميمة لأن الجامع بينهما ذكر ما يكرهه المقبول فيه بالظهر الغيب، و قال الكرماني: الغيبة نوع من النميمة لأن لو سمع المنقول عنه ما نقل عنه لغمه، قلت: الغيبة قد توجد فى بعض صور النميمة و هو أن يذكره فى غيبته بما فيه مما يسوؤه قاصدًا بذالك الفساد، فاحتمل أن تكون قصة الذى كان يعزب فى قبره كانت كذالك، و يحتمل أن يكون أشار إلى ما رد فى بعض طرقه بلفظ الغيبة صريحًا، و هو ما أخرجه هو فى الأدب المفرد من حديث جابر، قال: كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم فأتي قبرين فذكر فيه نحو حديث الباب و قال فيه أما أحدهما فكان يغتاب الناس، الحديث، و أخرج أحمد و الطبراني بإسناد صحيح عن أبى بكرة، قال: مر النبى صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال: إنهما يعذبان، و ما يعذبان فى كبير و بكي وفيه و ما يعذبان إلا فى الغيبة والبول.» (1)
اس حدیث کی شرح کتاب الطہارۃ میں مشروحا گزر چکی ہے، اس میں غیبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ چغلی کا ہے۔ ابن التین رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ترجمۃ امام بخاری رحمہ اللہ نے غیبت اور ذکر نمیمہ پر قائم فرمایا ہے، کیوں کہ دونوں کے مابین جامع اس امر کا کہ کسی کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا جسے منقول فیہ برا سمجھے۔ علامہ کرمانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: غیبت نمیمہ کی ایک قسم ہے، کیوں کہ اگر منقول فیہ یہ بات جو اس کی بابت نقل کی جا رہی ہے سن لے تو اسے دکھ ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اضافہ کرتے ہیں کہ غیبت کبھی نمیمہ کی بعض صورتوں میں بھی پائی جاتی ہے، مثلا کسی کی غیر موجودگی میں اسے ناگوار لگنے والا تذکرہ فساد پھیلانے کے ارادہ سے کرنا، تو محتمل ہے کہ اس شخص کا قصہ جسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا وہ بھی اسی طرح کا ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ (امام بخاری رحمہ اللہ) اس کے بعض طرق کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں صراحت کے ساتھ غیبت کے الفاظ موجود ہیں، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب الادب المفرد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی روایت میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو قبروں پر آئے، آگے حدیث باب کی مانند ذکر فرمایا، اس میں یہ ہے کہ «أما أحدهما كان يغتاب الناس»، مسند احمد اور طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر سے گزرے، جس میں مدفون شخص کو عذاب ہو رہا ہے اور «و مايعذبان فى كبير» پھر آپ روئے، اس میں یہ ہے کہ «و مايعذبان إلا فى الغيبة والبول»، یعنی ان دونوں کو غیبت اور پیشاب کی وجہ سے عذاب دیا جارہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل احمد اور طبرانی کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «الغيبة» کے الفاظ موجود ہیں جو کہ حدیث باب سے تعلق رکھتے ہیں۔
علامہ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب تو «الغيبة» پر قائم فرمایا، جبکہ حدیث «النميمة» پر پیش فرمائی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے، اس میں انسان کی وہ برائی مقصود ہوتی ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہے، اور غیبت زیادہ سخت ہے نمیمہ سے، کیوں کہ اس میں زیادہ تنقیص پائی جاتی ہے بخلاف نمیمہ کے اور یہ نمیمہ کے حکم میں ہے جو اس سے زیادہ سخت ہے (گناہ کے اعتبار سے)۔
بعض شارحین نے کہا کہ روایت میں نمیمہ یعنی چغل خوری کا ذکر ہے اور چغل خوری اور غیبت دونوں حرام ہیں اور گناہ کے اعتبار سے مشترک بھی ہیں۔(1)
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
«و لم يذكر فى الحديث إلا النميمة فأنه يشير إلى انها وردت كذالك لكن على غير شرطه وقد رواها ابن ماجة فى سننه.» (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے وہ چغل خوری کے متعلق ہے، پس آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «الغيبة» کے الفاظ ہیں، جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر فرمایا، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس لیے درج نہیں فرمایا کہ وہ آپ کی شرط پر نہیں تھی۔
ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ بعض شارحین کے مطابق مناسبت یوں ہے کہ نمیمہ اور غیبہ گناہ کے اعتبار سے یکساں ہیں، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں غیبت کا ذکر فرمایا اور حدیث جو ذکر فرمائی اس میں چغل خوری کا ذکر ہے۔
دوسری مناسبت یہ ہے کہ احمد، طبرانی سے صحیح سند سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جسے عذاب دیا جا رہا تھا، اس کے بارے میں فرمایا:
«انهما يعذبان فكان يغتاب الناس.» (3)
پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 179   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 216  
´انسانی پیشاب نجس ہے`
«. . . قَالَ:" مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ لاَ يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ: 216]

تخريج الحديث:
[167۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 56 باب ما جاء فى غسل البول 216، مسلم 292، أبوداود 20]

لغوی توضیح:
«مَرَّ» گزر ہوا۔
«لَا يَسْتَبْرِئُ» وہ بچتا نہیں تھا۔
«النَّمِيْمَة» چغلی۔
«جَرِيْدَة» ٹہنی۔

فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ انسانی پیشاب نجس ہے۔ سابقہ وہ روایت بھی اس کی دلیل ہے جس میں دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پانی کا ڈول بہانے کا حکم دیا۔ نیز اس مسئلے پر اجماع ہے۔ ديكهئے: [بداية المجتهد 73/1، المغني 52/1، فتح القدير 135/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 167   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 216  
´انسانی پیشاب نجس ہے`
«. . . فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا، قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا".، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِب الْقَبْرِ: كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ سِوَى بَوْلِ النَّاسِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 216]

تشریح:
اس حدیث سے عذاب قبر ثابت ہوا۔ یہ دونوں قبروں والے مسلمان ہی تھے اور قبریں بھی نئی تھیں۔ ہری ڈالیاں تسبیح کرتی ہیں اس وجہ سے عذاب میں کمی ہوئی ہو گی۔ بعض کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ہوا تھا ان ڈالیوں کا اثرنہ تھا۔ «والله اعلم بالصواب»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 216   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1378  
1378. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو آپ نے فرمایا:ان دونوں کو عذاب ہورہاہے اور کسی بڑے گناہ کی پاداش میں انھیں سزا نہیں دی جارہی۔ پھر فرمایا:کیوں نہیں!ایک ان میں سے چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر آپ نے (کھجور کی) ایک تازہ شاخ لی اور اسکے دو ٹکڑے کیے، پھر ہر ایک کو قبر پر گاڑ کر فرمایا:جب تک یہ خشک نہ ہوں گے امید ہے کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1378]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ الْمُرَادُ بِتَخْصِيصِ هَذَيْنِ الْأَمْرَيْنِ بِالذِّكْرِ تَعْظِيمُ أَمْرِهِمَا لَا نَفْيُ الْحُكْمِ عَمَّا عَدَاهُمَا فَعَلَى هَذَا لَا يَلْزَمُ مِنْ ذِكْرِهِمَا حَصْرُ عَذَابِ الْقَبْرِ فِيهِمَا لَكِنِ الظَّاهِرُ مِنَ الِاقْتِصَارِ عَلَى ذِكْرِهِمَا أَنَّهُمَا أَمْكَنُ فِي ذَلِكَ مِنْ غَيْرِهِمَا وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ السُّنَنِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ ثُمَّ أَوْرَدَ المُصَنّف حَدِيث بن عَبَّاسٍ فِي قِصَّةِ الْقَبْرَيْنِ وَلَيْسَ فِيهِ لِلْغِيبَةِ ذِكْرٌ وَإِنَّمَا وَرَدَ بِلَفْظِ النَّمِيمَةِ وَقَدْ تَقَدَّمَ الْكَلَامُ عَلَيْهِ مُسْتَوْفًى فِي الطَّهَارَةِ (فتح الباري)
یعنی زین بن منیر نے کہا کہ باب میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مراد نہیں۔
پس ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر ان ہی دو گناہوں پر منحصر ہے۔
یہاں ان کے ذکر پر کفایت کرنا اشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے۔
حدیث ابوہریرہ ؓ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔
باب کے بعد مصنف ؒ نے یہاں حدیث ابن عباس ؓ سے دو قبروں کا قصہ نقل فرمایا۔
اس میں غیبت کا لفظ نہیں ہے بلکہ چغل خور کا لفظ وارد ہوا ہے مزید وضاحت کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔
غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں اس لیے ہر دو عذاب قبر کے اسباب ہیں
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1378   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 31  
´پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ۱؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 31]
31۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض لوگ «فِي كَبِيرٍ» بھاری کاموں کی وجہ سے کے معنی کرتے ہیں بڑے گناہ یعنی ان لوگوں کو عذاب تو ہو رہا تھا، لیکن ایسے گناہوں کی وجہ سے نہیں جو کہ بڑے اور خطرناک ہوں، بلکہ معمولی گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا، حالانکہ ان الفاظ کا یہ مفہوم ہے ہی نہیں۔ صحیح اور درست مفہوم یہی ہے کہ یہ دونوں کام، یعنی پیشاب سے بے احتیاطی اور چغل خوری بڑے کبیرہ اور خطرناک گناہ ہیں۔ اس بات کی صراحت حدیث شریف میں موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث 216]
ہاں الفاظ کا یہ مطلب ضرور ہے کہ یہ دونوں کام کوئی اتنے بھاری اور مشکل نہیں کہ عمل نہ ہو سکتا ہو اور ان سے بچا نہ جا سکتا ہو۔ ان کاموں سے بچنا کوئی بڑی مشکل بات نہیں تھی۔ حقیقتاً یہ دونوں کام کبیرہ گناہ ہیں۔
➋ چھڑی یا شاخ کا رکھنا دراصل فعلی شفاعت تھی کہ یا اللہ! اتنی دیر تک ان سے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ چھڑی رکھنا صرف مدت کے تعین کے لیے تھا جیسا کہ صریح الفاظ ہیں۔ ورنہ چھڑی کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں کہ اسے سنت سمجھ کر اب بھی ایسا کیا جائے، البتہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے چھڑی رکھنے کی وصیت مذکور ہے۔ [صحیح البخاري، الجنائز، قبل الحدیث: 1361]
اس کے پیش نظر بعض کی رائے یہ ہے کہ چھڑی رکھنا تو جائز ہے، مگر اس کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں۔ مؤخر الذکر بات تو ٹھیک ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ صحابی کا اجتہاد ہے کیونکہ تخفیف عذاب میں نری چھڑی کا کوئی کمال نہیں تھا، اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی برکت اور اللہ تعالیٰ سے قربت کی بنا پر آپ کو تخفیف عذاب کی امید تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ آپ کا معجزہ تھا، کسی اور شخص کے لیے حالات قبور کا کشف و ظہور ناممکن ہے۔ جب قبر کی کیفیت کا پتہ ہی نہیں تو چھڑی گاڑنے کے کیا معنی؟ ہاں! بطور نشانی کوئی پتھر یا چھڑی وغیرہ ضرورت کے پیش نظرعا رضی طور پرنصب کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 31   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث347  
´پیشاب کی چھینٹ سے نہ بچنے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو نئی قبروں کے پاس سے ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل تھا)، ایک شخص تو پیشاب (کی چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا غیبت (چغلی) کیا کرتا تھا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 347]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کو قبر کے اندر کے حالات سے آگاہ کردیا گیا۔
اس کی حیثیت ایک معجزے کی ہے اور معجزہ نبی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔
ممکن ہے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہو۔

(2)
اس واقعہ سے قبر میں عذاب کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

(3)
پیشاب سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم اور لباس کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچایا جائے اور پیشاب سے فارغ ہو کر مٹی یا پانی سے استنجا کیا جائے۔

(4)
یہاں پیشاب سے مراد انسان کا پیشاب ہے۔
کیونکہ اس حدیث میں اپنے پیشاب سے کے الفاظ ہیں۔
جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کے پیشاب سے بھی بچنا ضروری ہے، البتہ گائے بھینس وغیرہ جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کے بارے میں شریعت نے نرمی کی ہے تاہم صفائی کے نقطہ نظر سے ان کے پیشاب سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے
(5)
  کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا کا مطلب یہ ہے کہ پیشاب سے بچنا مشکل کا م نہ تھا۔
اگر ذرا سی توجہ اور احتیاط سے کام لیتا تو پیشاب کے چھینٹوں سے خود کو بچاسکتا تھا۔ (6)
چغلی (نميمة)
کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کی کہی ہوئی بات دوسرے کو بتائی جائے تاکہ دونوں میں جھگڑا ہوجائے یا انکی باہمی محبت ختم ہوجائے۔
یہ بات سچ بھی ہو تو اس طرح لگائی بجھائی کے طور پر ایک دوسرے کو جا بتانا سخت گناہ ہے۔
اور اگر جھوٹ ہوتو گناہ کی شناعت اور بڑھ جاتی ہے۔
کسی کے عیوب اس کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا بھی چغلی (غیبت)
اور بڑا گناہ ہے تاہم بعض اوقات کسی کی غیر موجودگی میں اس کے عیب کا ذکر جائز بھی ہوتا ہے۔
علماء نے جائز غیبت میں چھ امور ذکر کیے ہیں:

     مظلوم کا حاکم یا کسی ایسے شخص کے پاس ظالم کی شکایت کرنا جو اسے سزا دے سکے یا ظلم سے منع کرے 2۔
     کسی کو برائی سے روکنے کے لیے دوسرے سے مدد حاصل کرنا مقصود ہو جب کہ یہ امید ہو کہ یہ شخص اسے برائی سے روک سکتا ہے۔

     مسئلہ پوچھتے وقت صورت حال کی وضاحت کے لیے۔

     مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے کسی کے شر سے بچانا مقصود ہو تو اس کا عیب بیان کرنا ضروری ہے مثلاً:
حدیث کے راوی کا ضعف بیان کرنا یا جب کسی سے رشتہ ناتا کرنے کاروبار میں شراکت کرنے یا اس کے پاس امانت رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا جائے تو مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ اگر ایسا شخص اس قابل نہیں تو مشورہ لینے والے کو حقیقت حال سے آگاہ کردے۔

     جو شخص سرعام گناہ یا بدعت کا ارتکاب کرتا ہو اس کے اس عیب کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا جائز ہے تاکہ سب لوگ مل جل کر اس کو اس سے منع کرسکیں۔

     کوئی شخص کسی جسمانی نقص یا عیب کی وجہ سے خاص نام سے معروف ہوجائےتو اس شخص کا ذکر اس نام سے کیا جا سکتا ہے جیسے لنگڑا یا ٹنڈا وغیرہ، بشرطیکہ اس سے توہین مقصود نہ ہو (رياض الصالحين باب بيان ما يباح من الغيبة)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 347   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 70  
´پیشاب کے بارے میں وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ دونوں قبر والے عذاب دیئے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہوتا) رہا یہ تو یہ اپنے پیشاب سے بچتا نہیں تھا ۱؎ اور رہا یہ تو یہ چغلی کیا کرتا تھا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 70]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا،
پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن یا کپڑوں پر پڑ جایا کرتے تھے،
جو قبر میں عذاب کا سبب بنے،
اس لیے اس کی احتیاط کرنی چاہئے،
اور یہ کوئی بہت بڑی اور مشکل بات نہیں۔

2؎:
چغلی خود گرچہ بڑا گنا ہ ہے مگر اس سے بچنا کوئی مشکل بات نہیں،
اس لحاظ سے فرمایا کہ کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جارہے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحیح بخاری 1361  
´قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال`
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں سے ہوا، ان کو عذاب ہو رہا تھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔ ​
«ثم أخذ جريدة رطبة، فشقها بنصفين، ثم غرز فى كل قبرواحدة، قالوا: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! لم صنعت هذا؟ فقال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا . . .»
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! آپ نے ایساکیوں کیا ہے؟ فرمایا، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دے۔ [صحيح بخاري: ۱۸۲/۱، ح: ۱۳٦۱، صحيح مسلم: ۱٤۱/۱، ح: ۲۹۲]
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ​
«استحب العلماء قراءة القرآن لهذا الحديث، لأنه إذا كان يرجي التخفيف بتسبيح الجريد، فتلاوته أوليٰ، والله أعلم!»
اس حدیث میں علماء کرام نے قرآن کریم کی تلاوت کو مستحب سمجھا ہے، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہے تو قرآن کریم کی تلاوت بالاولٰی ایسے ہو گی۔
واللہ اعلم! [شرح صحيح مسلم للنووي: ۱٤۱/۱]
تبصرہ:
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے، نیز یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ​
«إني مررت بقبرين يعذبان، فأحببت بشفاعتي أن يرفه ذاك عنهما، مادام الغصنان رطبين .»
میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں)کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تَر رہیں۔ [صحيح مسلم: ٤۱۸/۲، ح: ۳۰۱۲]
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔ اسی طرح ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [صحيح ابن حبان: ۸۲٤، وسنده حسنٌ]
نیز دیکھیں: [مصنف ابن ابي شيبه: ۳ /۳٧٦، مسنداًلامام احمد: ٤٤۱/۲ عذاب القبر اللبيهقي: ۱۲۳، وسنده حسنٌ]
فائدہ:
مورّق العجلی کہتے ہیں: ​
«أوصيٰ بريده الأسلمي أن توضع فى قبره جريدتان، فكان مات بأذني خراسان، فلم توجه إلا فى جوالق حمار .»
سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں میں ملیں۔ [الطبقات لابن سعد: ۸/۷، وسنده صحيحٌ ان صحٌ سماع مورق عن بريدة]
بشرطِ صحت یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا تھا، نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب سے تحفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔
فائدہ:
سیدنا ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ والی روایت (تاریخ بغداد ١٨٢/١-١٨٣) ضعیف ہے۔ اس کے دو راویوں الشاہ بن عمار اور النضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے، دوسری بات یہ کہ قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہیں۔ ان کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں۔ [جامع التحصيل فى احكام المراسيل: ۲۵۵]
   ماہنامہ السنہ جہلم، حدیث\صفحہ نمبر: 0   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1378  
1378. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو آپ نے فرمایا:ان دونوں کو عذاب ہورہاہے اور کسی بڑے گناہ کی پاداش میں انھیں سزا نہیں دی جارہی۔ پھر فرمایا:کیوں نہیں!ایک ان میں سے چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر آپ نے (کھجور کی) ایک تازہ شاخ لی اور اسکے دو ٹکڑے کیے، پھر ہر ایک کو قبر پر گاڑ کر فرمایا:جب تک یہ خشک نہ ہوں گے امید ہے کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1378]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس حدیث میں غیبت کا ذکر نہیں، لیکن غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں، اس لیے دونوں عذاب قبر کے اسباب میں سے ہیں، تاہم اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ غیبت آیا بھی ہے۔
(2)
حافظ ابن حجرؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی نہیں ہے، یعنی ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر صرف ان دو گناہوں پر منحصر ہے۔
اس مقام پر صرف ان کا ذکر کرنا، اس لیے ہے کہ ان کے ارتکاب پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے کیونکہ یہ دونوں کام عوامی نوعیت کے ہیں۔
کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز کیا کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبر اس سے بدپرہیزی کی بنا پر ہوتا ہے۔
(سنن دارقطني: 127/1، و فتح الباري: 308/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1378   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.