الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
The Book on Blood Money
23. باب مَا جَاءَ فِي الْقَسَامَةِ
23. باب: قسامہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1422
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا الليث بن سعد , عن يحيى بن سعيد , عن بشير بن يسار , عن سهل بن ابي حثمة , قال يحيى: وحسبت عن رافع بن خديج , انهما قالا: خرج عبد الله بن سهل بن زيد , ومحيصة بن مسعود بن زيد , حتى إذا كانا بخيبر تفرقا في بعض ما هناك , ثم إن محيصة وجد عبد الله بن سهل قتيلا قد قتل فدفنه , ثم اقبل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هو وحويصة بن مسعود , وعبد الرحمن بن سهل , وكان اصغر القوم ذهب عبد الرحمن ليتكلم قبل صاحبيه , قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كبر للكبر " , فصمت وتكلم صاحباه , ثم تكلم معهما , فذكروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مقتل عبد الله بن سهل , فقال لهم: " اتحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم , او قاتلكم " , قالوا: وكيف نحلف ولم نشهد , قال: " فتبرئكم يهود بخمسين يمينا " قالوا: وكيف نقبل ايمان قوم كفار , فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى عقله. حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا يحيى بن سعيد , عن بشير بن يسار , عن سهل بن ابي حثمة , ورافع بن خديج , نحو هذا الحديث بمعناه , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم في القسامة , وقد راى بعض فقهاء المدينة القود بالقسامة , وقال بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم: إن القسامة لا توجب القود , وإنما توجب الدية.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , قَالَ يَحْيَى: وَحَسِبْتُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , أَنَّهُمَا قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ , وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ , حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَاكَ , ثُمَّ إِنَّ مُحَيِّصَةَ وَجَدَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا قَدْ قُتِلَ فَدَفَنَهُ , ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ , وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ ذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ , قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَبِّرْ لِلْكُبْرِ " , فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ , ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا , فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ , فَقَالَ لَهُمْ: " أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ , أَوْ قَاتِلَكُمْ " , قَالُوا: وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ , قَالَ: " فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا " قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ , فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى عَقْلَهُ. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْقَسَامَةِ , وَقَدْ رَأَى بَعْضُ فُقَهَاءِ الْمَدِينَةِ الْقَوَدَ بِالْقَسَامَةِ , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّ الْقَسَامَةَ لَا تُوجِبُ الْقَوَدَ , وَإِنَّمَا تُوجِبُ الدِّيَةَ.
سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: بڑے کا لحاظ کرو، لہٰذا وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھیوں نے گفتگو کی، پھر وہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریک گفتگو ہو گئے، ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ بیان کیا، آپ نے ان سے فرمایا: کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤ گے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہو جاؤ (یا کہا) قاتل کے خون کے مستحق ہو جاؤ؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری ہو جائیں گے، ان لوگوں نے کہا: ہم کافر قوم کی قسم کیسے قبول کر لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ معاملہ دیکھا تو ان کی دیت ۱؎ خود ادا کر دی۔ اس سند سے بھی سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے،
۳- مدینہ کے بعض فقہاء قسامہ ۲؎ کی بنا پر قصاص درست سمجھتے ہیں،
۴- کوفہ کے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں: قسامہ کی بنا پر قصاص واجب نہیں، صرف دیت واجب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصح 7 (2702)، والجزیة 12 (3173)، والأدب 89 (6183)، والدیات 22 (6898)، والأحکام 38 (7192)، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) 1 (1669)، سنن ابی داود/ الدیات 8 (4520)، سنن النسائی/القسامة 3 (4714)، سنن ابن ماجہ/الدیات 28 (2677)، (تحفة الأشراف: 4644)، وط/القسامة 1 (201)، و مسند احمد (4/2، 3)، وسنن الدارمی/الدیات 2 (2398) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کر دی۔
۲؎: «قسامہ»: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کا علم کسی کو نہ ہو، پھر قاتل کے خلاف کوئی شہادت بھی موجود نہ ہو، تو بعض قرائن کی بنیاد پر مقتول کے اولیاء کسی متعین شخص کے خلاف دعویٰ پیش کریں کہ فلاں نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے، مثلاً مقتول اور مدعی علیہ کے مابین عداوت پائی جائے، یا مقتول مدعی علیہ کے گھر کے قریب ہو یا مقتول کا سامان کسی انسان کے پاس پایا جائے، یہ سب قرائن ہیں، تو مدعی، مدعی علیہ کے خلاف پچاس قسمیں کھا کر مقتول کے خون کا مستحق ہو جائے گا، یا اگر مدعی قسم کھانے سے گریز کریں تو مدعا علیہ قسم کھا کر خوں طبہا سے بری ہو جائے گا، دونوں کے قسم نہ کھانے کی صورت میں خوں بہا بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2677)

   صحيح البخاري6142تستحقون قتيلكم بأيمان خمسين منكم قالوا يا رسول الله أمر لم نره قال فتبرئكم يهود في أيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداهم رسول الله من قبله قال سهل فأدركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها
   صحيح مسلم4342تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
   صحيح مسلم4343يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم
   جامع الترمذي1422تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
   سنن أبي داود4520يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار قال فوداه رسول الله من قبله
   سنن النسائى الصغرى4717يقسم خمسون منكم فقالوا يا رسول الله أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداه رسول الله من قبله
   سنن النسائى الصغرى4716تحلفون خمسين يمينا وتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا كيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطاه عقله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1422  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1422]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کر دی۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1422   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4520  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو (اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4520]
فوائد ومسائل:
قسامہ قسم سے ماخوذ ہے اور تکرار کے ساتھ قسمیں اٹھانے کے معنی میں ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کہیں کوئی قتل ہو جائے اور اس قاتل کا علم نہ ہو اور نہ کوئی گواہی موجود ہو، مگر مقتول کے وارث کسی شخص یا اشخاص پر قتل کا دعوی رکھتے ہوں اور اس کے کچھ قرائن بھی موجود ہوں، مثلا ان لوگوں کے مابین دشمنی ہو یا ان کے علاقے میں قتل ہواہو یا کسی کے پاس سے مقتول کا سامان ملے یا اس قسم کی دیگر علامات موجود ہوں تو مدعی لوگ پہلے پچاس قسمیں کھائیں فلاں شخص یا افراد ہمارے آدمی کے قاتل ہیں۔
اس طرح ان کا دعوی ثابت ہو گا، اگر مدعی لوگ قسمیں نہ کھائیں تو مدعاعلیہ پچاس قسمیں کھا کر برمی ہو جائیں گے۔
اگر معاملہ واضح نہ ہو سکے تو بیت المال سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائےگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4520   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.