الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
10. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا 
10. باب: موحد قطعی جنتی ہے۔
حدیث نمبر: 148
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن منصور ، اخبرنا معاذ بن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، قال: حدثنا انس بن مالك ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم ومعاذ بن جبل، رديفه على الرحل، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: " ما من عبد يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، إلا حرمه الله على النار "، قال: يا رسول الله، افلا اخبر بها الناس فيستبشروا؟ قال: إذا يتكلوا، فاخبر بها معاذ عند موته تاثما.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُخْبِرُ بِهَا النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا، فَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
قتادہ نے کہا: ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے، جب وہ پالان پر آپ کے پیچھے سوار تھے، فرمایا: اے معاذ! انہوں نےعرض کی: میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! میرے نصیب روشن ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کی: میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! زہے نصیب۔ پھر آپ نے فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کی، میں ہر بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! میری خوش بختی۔ (اس پر) آپ نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں جو (سچے دل سے) شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں مگر اللہ ایسے شخص کو دوزخ پر حرام کر دیتا ہے۔ حضرت معاذ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے۔ چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے (کتمان علم کے) گناہ کے خوف سے اپنی موت کے وقت یہ بات بتائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) کو جب کہ وہ پالان پر آپؐ کے پیچھے سوار تھے، پکارا: اے معاذ! انھوں نے عرض کیا: لبّیك یا رسول اللہ و سعدیك، تین دفعہ ایسا ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی سچّے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے۔ حضرت معاذ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے۔ پھر حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) نے کتمان علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث بیان کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 32

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى العلم من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية ان لا يفهموا برقم (128) انظر ((التحفة)) برقم (1363)» ‏‏‏‏

   صحيح البخاري128أنس بن مالكما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله أفلا أخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا
   صحيح البخاري129أنس بن مالكمن لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة قال ألا أبشر الناس قال لا إني أخاف أن يتكلوا
   صحيح مسلم148أنس بن مالكما من عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله أفلا أخبر بها الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا فأخبر بها معاذ عند موته تأثما
   مشكوة المصابيح25أنس بن مالك ما من احد يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله افلا اخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا واخبر بها معاذ عند موته تاثما
   المعجم الصغير للطبراني45أنس بن مالك من مات وهو يشهد أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله دخل الجنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 128  
´دین کے کسی بھی اہم کام کی خبر دیتے وقت سامعین کو خوب اچھی طرح متوجہ کر لینا چاہیے`
«. . . حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، قَالَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا "، وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا . . . .»
. . . انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا: 128]

لغوی توضیح:
«رَدِیْف» کسی بھی سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔
«تَاَثُّمًا» گناہ سے بچنے کی غرض سے۔

فھم الحدیث:
اس سے معلوم ہوا کہ دین کے کسی بھی اہم کام کی خبر دیتے وقت سامعین کو خوب اچھی طرح متوجہ کر لینا چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ پکار کر متوجہ کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عوام الناس کو محض بشارتیں ہی نہیں سناتے رہنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ اعمال میں سست و کوتاہ نہ بن جائیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 16   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 129  
´علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا`
«. . . قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِمُعَاذِ: مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قَالَ: أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ، قَالَ: لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا . . .»
. . . انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ (یقیناً) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا: 129]

تشریح:
اور اپنی غلط فہمی سے نیک اعمال میں سستی کریں گے۔ نجات اخروی کے اصل الاصول عقیدہ توحید و رسالت کا بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا، جن کے ساتھ لازماً اعمال صالحہ کا ربط ہے۔ جن سے اس عقیدہ کی درستگی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی لیے بعض روایت میں کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کو جنت کی کنجی بتلاتے ہوئے کنجی کے لیے دندانوں کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اعمال صالح اس کنجی کے دندانے ہیں۔ بغیر دندانے والی کنجی سے قفل کھولنا محال ہے ایسے ہی بغیر اعمال صالحہ کے دعوائے ایمان و دخول جنت ناممکن، اس کے بعد اللہ ہر لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 129   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 25  
´اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذٌ رديفه على الرحل قَالَ: «يَا معَاذ بن جبل قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْديك ثَلَاثًا قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاس فيستبشروا قَالَ إِذا يتكلوا وَأخْبر بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ اے معاذ! معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا لبیک و سعدیک یا رسول اللہ یعنی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو آواز دی کہ اے معاذ! معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ جی یا رسول اللہ! حاضرِ خدمت ہوں۔ اسی طرح تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دے کر پکارا اور معاذ رضی اللہ عنہ نے لبیک و سعدیک سے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ ہی سچا معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ یقیناًً اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دے گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اس کی خوشخبری لوگوں کہ نہ سنا دوں تاکہ لوگ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خوشخبری سن کر لوگ اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کو چھوڑ دیں گے۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے مرنے کے وقت یہ حدیث لوگوں کو سنا دی تاکہ گناہ سے بچے رہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 25]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 128]،
[صحیح مسلم 148]

فقہ الحدیث
➊ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت گناہ کے خوف سے یہ حدیث بیان فرما دی تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كتم علماً تلجم بلجام من نار يوم القيامة»
جو شخص علم چھپائے گا اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 95، الموارد: 95]
علماء کرام نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث چند خاص لوگوں کے سامنے بیان کی تھی، اور حدیث میں ممانعت عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی ہے، یا یہ کہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے۔ «والله اعلم»
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا «لا اله الا الله» اور «محمد رسول الله» کا زبانی اقرار کافی نہیں، بلکہ دلی یقین کے ساتھ اس کا اقرار اور اس پر عمل بھی ضروری ہے۔
➌ احادیث نبویہ کا بیان کرنا دین و ایمان میں سے ہے۔
➍ کوئی اہم بات بتانے کے لئے سامعین کو اچھی طرح متوجہ کرنا مسنون ہے، تاکہ وہ پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ سن لیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 25   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 148  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث میں آپ (صلی اللہ عنہ)
نے خود یہ خوشخبری دینے کا حکم دیا تھا،
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کےسامنے اس میں جو منفی پہلو تھا وہ پیش کیا اور نبی نے اس کو خلاف مصلحت سمجھا،
تو آپ نے حضرت عمر کی رائے تسلیم کر لی،
اس سے یہ اصول نکلا کہ اگر کوئی بڑا حتی کہ اللہ کا نبی ورسول بھی کسی معاملہ میں اپنی رائے ظاہر کرے اور کسی صاحب رائے آدمی کو اس میں مضرت کا پہلو نظر آئے تو وہ اد ب واحترام کے ساتھ اپنی رائے اور اپنا مشورہ پیش کرنے میں تامل نہ کرے،
اور بڑے کو چاہیے کہ وہ اس رائے یا مشورہ پر غور وخوض کرے،
اگر دوسرے کی رائے بہتر اور مصلحت وحکمت کے مطابق ہو تو اس کو قبول کرکے اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ادنیٰ تامل نہ کرے۔
نبی اکرم ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے بعد اپنی رائے بدل لی تھی۔
(2)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے،
اس وقت تک اس حدیث کے ضیاع کا احتمال نہیں تھا،
جب مرنے لگے تو انہیں کتمان علم (علم چھپانا)
کا اندیشہ لاحق ہوا،
جو ایک بڑا جرم ہے،
اور نبی اکرم ﷺ کا منع فرمانا،
ایک مصلحت وحکمت کےلیے تھا کہ لوگ اس پر اعتماد کرکے سعی وعمل سے بیٹھ رہیں گے،
لیکن جب دین کی نشرواشاعت عام ہوگئی،
آپ کی وفات تک دین وشریعت مکمل ہوگئے،
لوگوں کے اندر،
دین راسخ ہوگیا اور جذبہ عمل قوی ہوگیا اور عمل وکوشش میں کوتاہی کا ڈر نہ رہا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث،
موت کے وقت بیان کر دی،
کیونکہ نہی تحریم کےلیے نہ تھی،
وگرنہ حضرت معاذ جیسے صاحب علم وفضل کو کتمان علم کا اندیشہ لاحق نہ ہوتا۔
اور حقیقت یہ ہے کہ کلمہ شہادت کا دل کی گہرائی سے اقرار انسان کو دین کی مکمل پابندی پر مجبور کرتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان دوزخ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 148   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.