الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
12. باب بَيَانِ عَدَدِ شُعَبِ الْإِيمَانِ وَأَفْضَلِهَا وَأَدْنَاهَا وَفَضِيلَةِ الْحَيَاءِ وَكَوْنِهِ مِنْ الْإِيمَانِ 
12. باب: ایمان کی شاخوں کی تعداد، اور افضل اور ادنیٰ ایمان کا بیان، اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 154
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وعمرو الناقد قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يعظ اخاه في الحياء، فقال: " الحياء من الإيمان ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ: " الْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ ".
سفیان بن عیینہ نے زہری سے حدیث سنائی، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا: (حیا سے مت روکو) حیا ایمان میں سے ہے۔
سالمؒ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا وہ اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا ہے تو آپؐ نے فرمایا: (حیاء سے مت روکو) حیاء ایمان کا اہم جز ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 36

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، الترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء ان الحياء من الايمان وقال هذا حديث حسن صحيح برقم (2615) وابن ماجه فى ((سننه)) فى المقدمة، باب: فى الايمان برقم (58) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (6828)»

   صحيح البخاري24عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   صحيح البخاري6118عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   صحيح مسلم154عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   جامع الترمذي2615عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   سنن أبي داود4795عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   سنن النسائى الصغرى5036عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   سنن ابن ماجه58عبد الله بن عمرالحياء شعبة من الإيمان
   بلوغ المرام1319عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   المعجم الصغير للطبراني1021عبد الله بن عمر دعه فإن الحياء من الإيمان
   مسندالحميدي638عبد الله بن عمرإن الحياء من الإيمان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1319  
حیا ایمان ہے
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏الحياء من الإيمان ‏‏‏‏ متفق عليه.»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا ایمان ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1319]

تخریج:
[بخاري 24]،
[ مسلم الايمان/373]،
[تحفته الاشراف 388/5] [373/5] [429/9] [42/9] [9/11] [16/11] [11/11]

مفردات:
«اَلْحَيَاءُ» شرم، طبیعت کا کسی کام سے اس لیے رک جانا کہ اسے کرنے سے مذمت کا یا عیب لگنے کا خطرہ ہو یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے ورنہ وہ بھی جانوروں کی طرح جو بھی دل میں آتا کر گزرتا۔ شرع میں حیا ایک ایسی عادت کو کہتے ہیں جو آدمی کو قبیح کام سے بچنے اور حق والوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچنے پر آمادہ رکھتی ہے۔

فوائد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقعہ پر یہ الفاظ کہے؟
صحیح بخاری میں مکمل حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«دعه فان الحياء من الايمان»
اسے رہنے دو کیونکہ حیا ایمان سے ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب الادب المفرد میں ہے «يعاتب اخاه» اپنے بھائی پر ناراض ہو رہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھائی حیا کی وجہ سے لوگوں سے اپنے حقوق بھی پوری طرح وصول نہیں کر سکتا تھا تو اس کے بھائی نے اسے نصیحت کی اور ناراض بھی ہوا کہ تم حیا کی وجہ سے اپنا نقصان کر رہے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رہنے دو کیونکہ حیا ایمان سے ہے یعنی اگر حیا کی وجہ سے یہ اپنا کوئی حق وصول نہ کر سکا تو وہ حق اس کے لیے اجر کا باعث ہو گا۔ بعض احادیث میں آیا ہے:
«الحياء كله خير» ‏‏‏‏
حیا ساری کی ساری خیر ہے۔
اور:
«الحياء لا ياتي الا بخير»
حیا خیر کے علاوہ کچھ نہیں لاتی۔

حیا ایمان سے کس طرح ہے؟
بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ حیا آدمی کو برائی سے روک دیتی ہے جس طرح ایمان بندے کے لیے گناہ سے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس مشابہت سے اسے ایمان کہا گیا۔ لیکن اس تفسیر کی رو سے حیا ایمان کا مشابہ قرار پاتی ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ایمان سے ہے۔
اس لیے اس کا معنی دوسری حدیث کو مدنظر رکھ کر کریں تو بہتر ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الايمان بضع وستون شعبة والحياء شعبة من الايمان» [صحيح بخاري ح9]
ایمان ساٹھ سے زائد شاخوں کا نام ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کلمہ، نماز، روزہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دوسری چیزیں ایمان کا حصہ ہیں اسی طرح حیا بھی ایمان کے درخت کی ایک شاخ اور اس کا حصہ ہے۔
«الحياء من الايمان» کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے بھائی کی یہ حیا ایمان کا نتیجہ ہے اور اس میں یہ خوبی ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

حیا کی قسمیں:
اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ان سے رکنا حیا ہے۔ عقلاً جو چیزیں ناپسندیدہ ہیں ان سے رکنا حیا ہے اور لوگ جن چیزوں کو برا جانتے ہوں ان سے رکنا بھی حیا ہے، مگر اصل حیا اللّٰہ اور اس کے رسول کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب ہے۔ بعض لوگ کئی نیکی کے کام نہیں کرتے مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کہتے ہیں ہمیں حیا آتی ہے لیکن یہ حیا نہیں بزدلی ہے، حیا ناپسندیدہ کام سے اجتناب ہے نیکی سے اجتناب حیا نہیں۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 245   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث58  
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 58]
اردو حاشہ:
(1)
حیا سے مراد وہ اخلاقی کیفیت ہے جس کی وجہ سے انسان معیوب امور سے پرہیز کرتا ہے اور حق دار کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا۔

(2)
حیا مومن کی خوبی ہے، اس لیے ہر وہ چیز یا عمل جو انسان کو بے حیائی پر آمادہ کرے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

(3)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی بہت سی شاخیں ہیں جن میں کمی بیشی ممکن ہے، لہذا ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔

(4)
حیا کے متعلق نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے کہہ رہا تھا کہ اتنی زیادہ شرم اچھی نہیں ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرما دی۔

(5)
جب کسی سے کوئی غلط بات سننے میں آئے جسے وہ صحیح سمجھ رہا ہو تو اس کی غلط فہمی دور کر کے صحیح بات واضح کر دینی چاہیے۔
یہ بھی نهي عن المنكر کی ایک صورت ہے۔

(6)
بعض لوگ فطری طور پر شرمیلے ہوتے ہیں۔
ان کی تربیت کر کے ان کا رخ نیکیوں کی طرف موڑ دیا جائے تو یہ زیادہ مفید ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 58   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2615  
´حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیاء (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کر رہا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور تاکید) فرمایا: حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2615]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے حیا کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے،
ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیا سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے،
کیوں کہ حیا انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2615   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4795  
´شرم و حیاء کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک شخص پر سے گزرے، وہ اپنے بھائی کو شرم و حیاء کرنے پر ڈانٹ رہا تھا (اور سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم کرنا اچھی بات نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، شرم تو ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4795]
فوائد ومسائل:
حیا اگرچہ ایک طبعی اور فطری عمل ہوتا ہے۔
مگر اس کے باوجود شرعی امور میں اور شرعی طور پر اس کے اظہار و استعمال کے لیئے قصد۔
کسب اور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے اسے ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4795   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.