الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
52. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الْكَعْبَةِ:
52. باب: کعبہ کے اندر نماز پڑھنا۔
(52) Chapter. Offering As-Salat (the prayers) inside the Kabah.
حدیث نمبر: 1599
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما،" انه كان إذا دخل الكعبة مشى قبل الوجه حين يدخل ويجعل الباب قبل الظهر يمشي، حتى يكون بينه وبين الجدار الذي قبل وجهه قريبا من ثلاث اذرع فيصلي يتوخى المكان الذي اخبره بلال ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فيه، وليس على احد باس ان يصلي في اي نواحي البيت شاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْكَعْبَةَ مَشَى قِبَلَ الْوَجْهِ حِينَ يَدْخُلُ وَيَجْعَلُ الْبَابَ قِبَلَ الظَّهْرِ يَمْشِي، حَتَّى يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ الَّذِي قِبَلَ وَجْهِهِ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِ أَذْرُعٍ فَيُصَلِّي يَتَوَخَّى الْمَكَانَ الَّذِي أَخْبَرَهُ بِلَالٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ، وَلَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَأْسٌ أَنْ يُصَلِّيَ فِي أَيِّ نَوَاحِي الْبَيْتِ شَاءَ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے۔ آپ اسی طرح چلتے رہتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز پڑھی تھی۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کعبہ میں جس جگہ بھی کوئی چاہے نماز پڑھ لے۔

Narrated Nafi`: Whenever Ibn `Umar entered the Ka`ba he used to walk straight keeping the door at his back on entering, and used to proceed on till about three cubits from the wall in front of him, and then he would offer the prayer there aiming at the place where Allah's Apostle prayed, as Bilal had told him. There is no harm for any person to offer the prayer at any place inside the Ka`ba.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 669



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1599  
1599. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ بیت اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو داخل ہوتے ہی سیدھےآگے چلے جاتے، دروازےکو اپنی پشت کی طرف کر لیتے، یہاں تک کہ آپ کے اور سامنے والی دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا تو وہاں نماز پڑھتے۔ اور آپ کا مقصد اس جگہ کو تلاش کرنا ہوتا جس کے متعلق حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشاندہی کی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا کی تھی۔ لیکن کسی پر کوئی حرج نہیں ہے۔ کہ بیت اللہ کی جس جانب چاہے نماز پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1599]
حدیث حاشیہ:
(1)
بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے لیے اس کی تمام جوانب برابر کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اگرچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نشاندہی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن یمانی کی جانب دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی، تاہم یہ تعیین قصدا نہیں بلکہ اتفاقا تھی، ایسا کرنا تخییر کے منافی نہیں۔
اگر آپ نے قصدا بھی ایسا کیا ہو تو بھی لزوم کے درجے میں نہیں تھا۔
(2)
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
(باب الصلاة بين السواري في غير جماعة)
"ستونوں کے درمیان جماعت کے بغیر انفرادی نماز پڑھنا مشروع ہے۔
" (صحیح البخاری،الصلاۃ،باب: 96)
حدیث کے آخر میں وضاحتی بیان کے متعلق احتمال ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہو یا کسی اور راوی نے یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کیا ہو۔
(فتح الباری: 3/589)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الصلاة في الكعبة (العبادات)
2. دخول النبي الكعبة (العبادات)
موضوعات 1. کعبہ میں نماز پڑھنا (عبادات)
2. نبیﷺ کا کعبہ میں داخل ہونا (عبادات)
Topics 1. Offering prayer in Ka'bah (Prayers/Ibadaat)
2. Prophet's Entery in Ka'aba (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/1599 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ بیت اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو داخل ہوتے ہی سیدھےآگے چلے جاتے، دروازےکو اپنی پشت کی طرف کر لیتے، یہاں تک کہ آپ کے اور سامنے والی دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا تو وہاں نماز پڑھتے۔
اور آپ کا مقصد اس جگہ کو تلاش کرنا ہوتا جس کے متعلق حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشاندہی کی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا کی تھی۔
لیکن کسی پر کوئی حرج نہیں ہے۔
کہ بیت اللہ کی جس جانب چاہے نماز پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے لیے اس کی تمام جوانب برابر کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اگرچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نشاندہی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن یمانی کی جانب دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی، تاہم یہ تعیین قصدا نہیں بلکہ اتفاقا تھی، ایسا کرنا تخییر کے منافی نہیں۔
اگر آپ نے قصدا بھی ایسا کیا ہو تو بھی لزوم کے درجے میں نہیں تھا۔
(2)
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
(باب الصلاة بين السواري في غير جماعة)
"ستونوں کے درمیان جماعت کے بغیر انفرادی نماز پڑھنا مشروع ہے۔
" (صحیح البخاری،الصلاۃ،باب: 96)
حدیث کے آخر میں وضاحتی بیان کے متعلق احتمال ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہو یا کسی اور راوی نے یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کیا ہو۔
(فتح الباری: 3/589)
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے خبردی، انہیں نافع نے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب کعبہ کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے۔
آپ اسی طرح چلتے رہتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے۔
اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جس کے متعلق بلال ؓ سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں نماز پڑھی تھی۔
لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کعبہ میں جس جگہ بھی کوئی چاہے نماز پڑھ لے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi':
Whenever Ibn 'Umar (RA)
entered the Ka’bah he used to walk straight keeping the door at his back on entering, and used to proceed on till about three cubits from the wall in front of him, and then he would offer the prayer there aiming at the place where Allah's Apostle (ﷺ) prayed, as Bilal (RA)
had told him. There is no harm for any person to offer the prayer at any place inside the Ka’bah. ________ حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم1616٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
1599٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1496٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
1599٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1522٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1558٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1599٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1599١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1599 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے:
(كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾ ) (الرحمٰن29: 55)
"وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔
" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔
ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔
اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔
اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔
فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔
ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔
حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔
خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔
(صحیح مسلم،الایمان،حدیث: 114(16)
صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔
(صحیح مسلم،الایمان،حدیث: 111(16)
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔
(صحیح البخاری،الایمان،حدیث: 8)
صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔
(صحیح مسلم،الایمان،حدیث: 113،112(16)
جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔
(صحیح البخاری،التفسیر،حدیث: 4514)
اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔
دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:
٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔
پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔
نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260)
مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151)
چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔
ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔
الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔
ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔
33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔
قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1599   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.