الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
54. بَابُ مَنْ كَبَّرَ فِي نَوَاحِي الْكَعْبَةِ:
54. باب: جس نے کعبہ کے چاروں کونوں میں تکبیر کہی۔
(54) Chapter. Saying Takbir (Allah is the Most Great) inside the Kabah.
حدیث نمبر: 1601
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا ايوب، حدثنا عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم ابى ان يدخل البيت وفيه الآلهة فامر بها، فاخرجت فاخرجوا صورة إبراهيم وإسماعيل في ايديهما الازلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قاتلهم الله، اما والله لقد علموا انهما لم يستقسما بها قط، فدخل البيت فكبر في نواحيه ولم يصل فيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ وَفِيهِ الْآلِهَةُ فَأَمَرَ بِهَا، فَأُخْرِجَتْ فَأَخْرَجُوا صُورَةَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ فِي أَيْدِيهِمَا الْأَزْلَامُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّهُمَا لَمْ يَسْتَقْسِمَا بِهَا قَطُّ، فَدَخَلَ البيت فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِيهِ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (فتح مکہ کے دن) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر جانے سے اس لیے انکار فرمایا کہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ نکالے گئے، لوگوں نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے بت بھی نکالے۔ ان کے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر دے رکھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ان مشرکوں کو غارت کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان بزرگوں نے تیر سے فال کبھی نہیں نکالی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور چاروں طرف تکبیر کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر نماز نہیں پڑھی۔

Narrated Ibn `Abbas: When Allah's Apostle came to Mecca, he refused to enter the Ka`ba with idols in it. He ordered (idols to be taken out). So they were taken out. The people took out the pictures of Abraham and Ishmael holding Azlams in their hands. Allah's Apostle said, "May Allah curse these people. By Allah, both Abraham and Ishmael never did the game of chance with Azlams." Then he entered the Ka`ba and said Takbir at its corners but did not offer the prayer in it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 671


   صحيح البخاري3352عبد الله بن عباسقاتلهم الله والله إن استقسما بالأزلام قط
   صحيح البخاري4288عبد الله بن عباسقاتلهم الله لقد علموا ما استقسما بها قط ثم دخل البيت فكبر في نواحي البيت وخرج ولم يصل فيه
   صحيح البخاري1601عبد الله بن عباسقاتلهم الله أما والله لقد علموا أنهما لم يستقسما بها قط فدخل البيت فكبر في نواحيه ولم يصل فيه
   سنن أبي داود2027عبد الله بن عباسقاتلهم الله والله لقد علموا ما استقسما بها قط ثم دخل البيت فكبر في نواحيه وفي زواياه ثم خرج ولم يصل فيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2027  
´کعبہ کے اندر نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر لیے ہوئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں (ابراہیم اور اسماعیل) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا، وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2027]
فوائد ومسائل:

پانسے کے تیر یوں تھے کہ لکڑیاں سی ہوتیں۔
اور ان میں سے کچھ پر لکھا ہوتا تھا۔
(افعل) کام کرلو۔
اور کچھ پر لکھا ہوا تھا۔
(لاتفعل) مت کرو۔
اورکچھ خالی ہوتی تھیں۔
لوگ کسی اہم سفر یا کام کے موقع پر مجاور کعبہ کے پاس آتے۔
اور اس سے اپنا کام نہ کرنے یا کرنے کے متعلق پوچھتے تو وہ ان لکڑیوں کو ڈبے میں ڈال کرہلاتا اور کوئی ایک نکال کر جواب دیتا۔
کہ کرو یا نہ کرو۔
اگر خالی تیر نکلتا تودوباہ کرتا حتیٰ کہ کوئی جواب نکل آتا۔
سورۃ المائدہ میں ہے۔
  (وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ) (المائدہ۔
3)
  یہ بھی حرام ہے۔
کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔
دوسری جگہ فرمایا۔
<قرآن> (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(المائدہ۔
90)
  اے ایمان والو! شراب۔
جوا۔
بت۔
پانسے یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔
سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائو

کعبہ کے اندر نماز پڑھنا حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے ثابت ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کےساتھ نہیں تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کی بھی نفی ہے۔
مگرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں اثبات ہے۔
اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفی کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا تکبیر میں دیکھا تو خود بھی ایک طرف اسی عمل میں لگ گئے۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے۔
اور انہوں نے دھیان نہیں کیا۔
جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے تمام اعمال کا جائزہ لیتے رہے نیز کمرے میں دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا تو اس لئے بھی صورت حال مخفی رہی۔
واللہ اعلم۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2027   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1601  
1601. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبہ کے اندر داخل ہونے سے انکار کردیا۔ کیونکہ اندر بت رکھے ہوئے تھے، پھر آپ کے حکم سے انھیں نکال دیا گیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی وہ تصوریریں بھی نکال دیں جن کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو تباہ کرے!انھیں بخوبی معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے تو کبھی پانسوں سے قرعہ اندازی نہیں کی۔ اس کے بعد آپ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور اس کے اطراف میں اللہ أکبر کہا لیکن نماز نہیں پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1601]
حدیث حاشیہ:
مشرکین مکہ نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم ؑ وحضرت اسماعیل ؑ کے بتوں کے ہاتھوں میں تیر دے رکھے تھے اور ان سے فال نکالا کرتے۔
اگر افعل (اس کام کو کر)
والا تیر نکلتا تو کرتے اگر لا تفعل (نہ کر)
والا ہوتا تو وہ کام نہ کرتے۔
یہ سب کچھ حضرات انبیاؑ پر ان کا افتراء تھا۔
قرآن نے اس کو رِجس مِن عَملِ الشیطانِ کہا کہ یہ گندے شیطانی کام ہیں۔
مسلمانوں کو ہرگز ہر گز ایسے ڈھکو سلوں میں نہ پھنسنا چاہیے۔
آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ میں کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔
پھر آپ اندر داخل ہوئے اور خوشی میں کعبہ کے چاروں کونوں میں آپ نے نعرہ تکبیر بلند فرمایا:
﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ (بني إسرائیل: 81)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1601   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1601  
1601. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبہ کے اندر داخل ہونے سے انکار کردیا۔ کیونکہ اندر بت رکھے ہوئے تھے، پھر آپ کے حکم سے انھیں نکال دیا گیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی وہ تصوریریں بھی نکال دیں جن کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو تباہ کرے!انھیں بخوبی معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے تو کبھی پانسوں سے قرعہ اندازی نہیں کی۔ اس کے بعد آپ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور اس کے اطراف میں اللہ أکبر کہا لیکن نماز نہیں پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1601]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر کعبے کو بتوں سے پاک کیا، پھر اندر تشریف لے گئے اور خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا بلکہ کعبہ کے چاروں کونوں میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا۔
(2)
اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے کعبہ میں نماز پڑھنے کی نفی کی ہے جبکہ حضرت بلال ؓ نے اس کا اثبات کیا ہے۔
امام بخاری ؓ نے ایک مقام پر حضرت بلال کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں اثبات ہے اور نماز نہ پڑھنے کی روایت کو مرجوح قرار دیا ہے کیونکہ یہ ایک نفی ہے اور اصولی لحاظ سے اثبات نفی پر مقدم کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس حضرت ابن عباس ؓ نے تکبیر کا اثبات کیا ہے اور حضرت بلال ؓ نے اس کی نفی نہیں کی۔
امام بخاری ؒ نے اس مقام پر اسے بطور حجت پیش کیا ہے کیونکہ اس میں اضافہ ہے۔
اس اضافے کے باعث آپ نے اس عنوان کو ثابت کیا ہے۔
دراصل حضرت ابن عباس ؓ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔
وہ نماز کی نفی کو اپنے بھائی فضل بن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں لیکن وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔
ممکن ہے کہ انہوں نے حضرت اسامہ ؓ سے اس نفی کو بیان کیا ہو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت بلال اور حضرت اسامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دعا میں مصروف ہو گئے۔
اس اثناء میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھ لی، جس کے متعلق حضرت اسامہ ؓ کو معلوم نہ ہو سکا، اس بنا پر انہوں نے نماز کی نفی کر دی۔
بہرحال امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بیت اللہ کے اندر نعرہ تکبیر بلند کرنے کو ثابت کیا ہے، اور اس کا اثبات اظہر من الشمس ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1601   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.