الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
The Book About The Virtues Or Al-Madina.
11. بَابُ كَرَاهِيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُعْرَى الْمَدِينَةُ:
11. باب: مدینہ کا ویران کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار تھا۔
(11) Chapter. The dislike of the Prophet ﷺ that Al-Madina should be vacated.
حدیث نمبر: 1887
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن سلام، اخبرنا الفزاري، عن حميد الطويل، عن انس رضي الله عنه، قال:" اراد بنو سلمة ان يتحولوا إلى قرب المسجد، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تعرى المدينة، وقال: يا بني سلمة، الا تحتسبون آثاركم، فاقاموا".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَرَادَ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ يَتَحَوَّلُوا إِلَى قُرْبِ الْمَسْجِدِ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُعْرَى الْمَدِينَةُ، وَقَالَ: يَا بَنِي سَلِمَةَ، أَلَا تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ، فَأَقَامُوا".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنو سلمہ نے چاہا کہ اپنے دور والے مکانات چھوڑ کر مسجد نبوی سے قریب اقامت اختیار کر لیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہ کیا کہ مدینہ کے کسی حصہ سے بھی رہائش ترک کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بنو سلمہ! تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے، چنانچہ بنو سلمہ نے (اپنی اصلی اقامت گاہ میں) رہائش باقی رکھی۔

Narrated Anas: (The people of) Bani Salama intended to shift near the mosque (of the Prophet) but Allah's Apostle disliked to see Medina vacated and said, "O the people of Bani Salama! Don't you think that you will be rewarded for your footsteps which you take towards the mosque?" So, they stayed at their old places.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 111


   صحيح البخاري656أنس بن مالكألا تحتسبون آثاركم
   صحيح البخاري1887أنس بن مالكألا تحتسبون آثاركم فأقاموا
   سنن ابن ماجه784أنس بن مالكألا تحتسبون آثاركم فأقاموا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث784  
´مسجد سے جو جنتا زیادہ دور ہو گا اس کو مسجد میں آنے کا ثواب اسی اعتبار سے زیادہ ہو گا۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے پرانے گھروں کو جو مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھے چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ رہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ویرانی کو مناسب نہ سمجھا، اور فرمایا: بنو سلمہ! کیا تم اپنے نشانات قدم میں ثواب کی نیت نہیں رکھتے؟، یہ سنا تو وہ وہیں رہے جہاں تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 784]
اردو حاشہ:
(1)
  رسول اللہ ﷺ نے انہیں مسجد نبوی کے قریب رہائش اختیار کرنے سے منع فرمایا تاکہ شہر کی سرحدیں محفوظ رہیں اور دشمن اچانک حملہ نہ کرسکیں۔

(2)
بنو سلمہ کا مقصد بھی نیک تھا لیکن ان کے رہائش تبدیل نہ کرنے میں مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انفرادی مفاد پر اجتماعی فائدے کو فوقیت حاصل ہے بشرطیکہ اس سے کوئی بڑی خرابی لازم نہ آتی ہو،
(3)
مسجد سے دور رہنے والوں کو بھی نماز باجماعت میں شریک ہونا لازم ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ انھیں گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 784   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1887  
1887. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ بنو سلمہ قبیلے نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد نبوی ﷺ کے قریب منتقل ہوجائیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مدینہ طیبہ کو یوں بےآباد کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا: اے بنو سلمہ!کیا تم اپنے نشانات قدم کا ثواب نہیں لینا چاہتے ہو؟ یہ سن کر بنو سلمہ نقل مکانی سے رک گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1887]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ مدینہ کی آبادی سب طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کافروں اور منافقوں پر رعب پڑے، حضرت امام بخاری ؒ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مدینہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جس کو وہاں اطمینان کے ساتھ سکونت مل جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1887   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1887  
1887. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ بنو سلمہ قبیلے نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد نبوی ﷺ کے قریب منتقل ہوجائیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مدینہ طیبہ کو یوں بےآباد کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا: اے بنو سلمہ!کیا تم اپنے نشانات قدم کا ثواب نہیں لینا چاہتے ہو؟ یہ سن کر بنو سلمہ نقل مکانی سے رک گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1887]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے لیکن آپ نے مدینہ طیبہ ہی کو اپنا حقیقی ٹھکانا اور وطن بنا لیا۔
اس کی آبادی اور ترقی کے لیے اس قدر کوشاں ہوئے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔
آپ کا یہ اولین مقصد تھا کہ اس کی آبادی ہر طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کفارومنافقین پر رعب پڑے۔
(2)
حضرت امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جسے وہاں اطمینان کے ساتھ اقامت مل جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بنو سلمہ کی نقل مکانی کو اسی لیے ناپسند فرمایا، البتہ دعوت دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اگر مدینہ طیبہ کی اقامت چھوڑنی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ متعدد صحابۂ کرام ؓ نے دعوت و تبلیغ کے لیے مدینہ طیبہ کو چھوڑ دیا تھا۔
(3)
مدینے سے باہر رہتے ہوئے بھی اپنے دل میں اس کی محبت رکھنا عین ایمان ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1887   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.