الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
3. باب مَا جَاءَ مِنَ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ
3. باب: ماں باپ کی رضا مندی کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1900
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو حفص عمرو بن علي، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد"،(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ"،
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8888) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (516)

   جامع الترمذي1900عبد الله بن عمرورضا الرب في رضا الوالد وسخط الرب في سخط الوالد
   بلوغ المرام1255عبد الله بن عمرورضى الله في رضى الوالدين وسخط الله في سخط الوالدين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1255    
اللہ کی رضا ماں باپ کی رضا میں ہے
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏رضى الله فى رضى الوالدين وسخط الله فى سخط الوالدين .‏‏‏‏ اخرجه الترمذي وصححه ابن حبان والحاكم»
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا راضی ہونا ماں باپ کے راضی ہونے میں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا ماں باپ کے ناراض میں ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1255]
تخریج:
[صحيح ترمذي 1899]،
[ابن حبان 459/2] [حاكم 152/4]
شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ [516] میں اس کی تخریج و تصحیح پر مفصل بحث کی ہے۔

مفردات:
«رِضَا» ۔ «رَضِيَ عَنْهُ وَعَلَيْهِ يَرْضٰي رِضًا» «عَلِمَ يَعْلَمُ» کا مصدر ہے بکسر راء

ناقص واوی:
«سَخَطٌ» «قُفْلٌ» «عُنُقٌ» اور «جَبَلٌ» کے وزن پر «سُخْطٌ» «سُخُطٌ» اور «سَخَطٌ» پڑھا جاتا ہے «عَلِمَ» «يَعْلَمُ» کا مصدر ہے۔

فوائد:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کو راضی کرنا فرض ہے۔ اور انہیں ناراض کرنا حرام ہے کیونکہ ان کی رضا میں اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق ملا کہ ذکر فرمایا ہے:
«‏‏‏‏أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ» [31-لقمان:14]
میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔
اور فرمایا:
«وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانً» [الاسرا 23/171]
اور تیرے رب نے حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ ساتھ احسان کرو۔
➋ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فرضیت میں بہت سی احادیث ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«رغم انف ثم رغم انف ثم رغم انف قيل: من يا رسول الله؟ قال: " من ادرك ابويه عند الكبر احدهما او كليهما فلم يدخل الجن» [صحيح مسلم 6510]
اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جائے پھر اس کی ناک خاک آلود ہو پھر اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے میں پایا پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔
(ب) ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے۔ فرمایا: «الصلوة لوقتها» وقت پر نماز پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: «بر الوالدين» والدین سے حسن سلوک پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: «الجهاد فى سبيل الله» اللہ کے راستے میں جہاد کرنا [متفق عليه]
(ج) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اکبر الکبائر نہ بتاؤں، تین مرتبہ فرمایا ہم نے عرض کیا۔ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «:الاشراك بالله وعقوق الوالدين» [الحديث] اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کو ستانا۔ [صحيح بخاري 5976]
➌ والدین کا حکم صرف اسی وقت مانا جائے گا جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو تو والدین کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ مثلاً والدین ایسا کام کرنے کا حکم دیں جس سے اللہ نے منع فرمایا یا ایسے کام سے روکیں جو اللہ نے ہر ایک پر فرض کیا ہے تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا طاعة فى معصية انما الطاعة فى معروف» [ متفق عليه مشكوة كتاب الامارة]
اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ خصوصاً اگر وہ شرک کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں:
«وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا» [31-لقمان:15]
اور اگر تیرے ماں باپ تجھ پر زور کریں کہ میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھ کو علم نہیں تو تو ان کا کہا: نہ مان۔
➍ نواب صدیق خاں رحمہ الله نے اپنی تفسیر میں فرمایا: خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی معصیت کا ارتکا ب ہوتا ہو یا وہ چیز ترک کرنی پڑتی ہو جو فرض عین ہو یعنی ہر ایک شخص پر فرض ہو تو والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ ان کی اطاعت صرف ان چیزوں میں ہے جو مباح ہیں۔
شرح اقناع میں فرمایا: والدین اگر کوئی فرض چھورنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں ہو گی۔ مثلاً ان چیزوں کا علم حاصل کرنا جو آدمی پر فرض ہیں۔ اور جن سے دین قائم رہتا ہے جیسا کہ طہارت صلاۃ، صیام وغیرہ (کیونکہ ان فرائض کی ادائیگی ان کے علم کے بغیر ممکن نہیں) اگر یہ علم اپنے شہر میں حاصل نہ ہو سکے تو ان کی اجازت کے بغیر سفر کر سکتا ہے۔ کیونکہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ [بحواله توضيح الاحكام] کفار کے ساتھ لڑنے کی تربیت حاصل کرنا اور لڑائی کی تیاری کرنا بھی فرض ہے کیونکہ یہ تیاری نہ کرنا منافقین کا کام ہے:
«وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً» [9-التوبة:46]
اور اگر یہ (جنگ کے لئے) نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لئے کوئی نہ کوئی تیاری ضرور کرتے۔
اگر اپنے شہر میں یہ تیاری ممکن نہ ہو تو سفر کے لئے والدین کی اجازت کی کوئی شرط نہیں اور اگر وہ منع کریں تو ان کی بات ماننا جائز نہیں۔
➎ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے جہاد کی اجازت مانگی آپ نے فرمایا کہ تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہاں جی ہاں! آپ نے فرمایا: تو انہیں میں جہاد کر۔ [البخاري الجهاد باب 138 ]
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے اس حدیث پر باب باندھا ہے «الجهاد باذن الابوين» ماں باپ کی اجازت کے ساتھ جہاد اس کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله فرماتے ہیں:
جمہور علماء فرماتے ہیں جب ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک منع کر دے تو جہاد حرام ہے بشرطیکہ وہ دونوں مسلمان ہوں کیونکہ ان سے حسن سلوک اس پر فرض عین ہے اور جہاد فرض کفایہ ہے البتہ جب جہاد فرض عین ہو جائے تو کوئی اجازت نہیں لی جائے گی [فتح الباري حديث 3004 ]
➏ جب جہاد فرض عین ہو جائے اس وقت اگر کوئی شخص ماں باپ کے کہنے کی وجہ سے جہاد پر نہ جائے تو اللہ کے عذاب کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ» ‏‏‏‏ [9-التوبة:24]
کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، تمہارے مال جو تم نے کمائے ہیں وہ کاروبار جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور وہ رہائش گاہیں جنہیں تم پسند کرتے ہو (اگر یہ سب چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) لے آئے اور اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
➐ مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔
① جب دشمن مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر دے یا قبضہ کرے (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر قرطبی مسئلہ رابعہ آیت 41 سورت توبہ)
② جب امیر کسی گروہ یا خاص شخص کو نکلنے کا حکم دے دے۔
«واذا استنفرتم فانفروا» [بخاري 2825]
جب تمہیں نکلنے کا حکم دیا جائے تو نکلو۔
③ جب کوئی شخص میدان میں ہو اور لڑائی شروع ہو جائے۔
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ» [8-الأنفال:15]
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم ان لوگوں سے لڑائی کی مڈبھیڑ میں ملو جو کافر ہیں تو ان سے پیٹھ مت پھیرو۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 78   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1255  
´نیکی اور صلہ رحمی کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ اسے ترمذی نے نکالا ہے اور ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1255»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، حديث:1899، وابن حبان(الإحسان):1 /328، حديث:430، والحاكم:4 /152.»
تشریح:
اس حدیث میں والدین کو راضی رکھنے اور ان کی ناراضی سے بچنے کا حکم ہے لیکن اگر والدین ایسے کام کا حکم دیں جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو تو پھر ان کی اطاعت ناجائز ہے۔
ایسی صورت میں ان کی ناراضی کی پروا نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1255   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1900  
´ماں باپ کی رضا مندی کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1900]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھاجائے،
اگر والد کو جنس مان لیاجائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے،
یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1900   
حدیث نمبر: 1900M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو نحوه، ولم يرفعه، وهذا اصح، قال ابو عيسى: وهكذا روى اصحاب شعبة، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو موقوفا، ولا نعلم احدا رفعه غير خالد بن الحارث، عن شعبة، وخالد بن الحارث ثقة مامون، قال: سمعت محمد بن المثنى، يقول: ما رايت بالبصرة مثل خالد بن الحارث، ولا بالكوفة مثل عبد الله بن إدريس، قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ثقة مأمون، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَا بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
اس سند سے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے (موقوفاً) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح «عن شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو» کی سند سے موقوفا روایت کی ہے، ہم خالد بن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں، جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعاً روایت کی ہو،
۲- خالد بن حارث ثقہ ہیں، مامون ہیں، کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسا اور کوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا،
۳- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (515)


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.