الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
4. باب مَا جَاءَ فِي عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ
4. باب: ماں باپ کی نافرمانی اور ان سے قطع تعلق بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
حدیث نمبر: 1902
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن الهاد، عن سعد بن إبراهيم، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من الكبائر ان يشتم الرجل والديه "، قالوا: يا رسول الله، وهل يشتم الرجل والديه؟ قال: " نعم، يسب ابا الرجل فيشتم اباه ويشتم امه فيسب امه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتُمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: " نَعَمْ، يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَشْتُمُ أَبَاهُ وَيَشْتُمُ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
۲- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا، اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 4 (5973)، صحیح مسلم/الإیمان 38 (90)، سنن ابی داود/ الأدب 129 (5141)، (تحفة الأشراف: 8618) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (3 / 221)

   صحيح البخاري5973عبد الله بن عمرومن أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل كيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه
   صحيح مسلم263عبد الله بن عمرومن الكبائر شتم الرجل والديه قالوا هل يشتم الرجل والديه قال نعم يسب أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه
   جامع الترمذي1902عبد الله بن عمرومن الكبائر أن يشتم الرجل والديه قالوا هل يشتم الرجل والديه قال نعم يسب أبا الرجل فيشتم أباه ويشتم أمه فيسب أمه
   سنن أبي داود5141عبد الله بن عمرومن أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل كيف يلعن الرجل والديه قال يلعن أبا الرجل فيلعن أباه ويلعن أمه فيلعن أمه
   بلوغ المرام1258عبد الله بن عمرو‏‏‏‏نعم يسب ابا الرجل فيسب اباه ويسب امه فيسب امه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5973  
´کبیرہ گناہ`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ" قِيلَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ:" يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 5973]

لغوی توضیح:
«الْمُوبِقَاتِ» ہلاک کرنے والے۔
«التَّوَلِّي» فرار اختیار کرنا، بھاگ جانا۔
«يَوْمَ الزَّحْفِ» جنگ کے روز، جس روز دشمن کے ساتھ مڈبھیڑ ہو۔
«وَقَذْفُ» تہمت لگانا۔
«الْمُحْصَنَاتِ» پاکدامنہ عورتوں پر۔

فہم الحدیث:
ان احادیث میں کبیرہ (یعنی بڑے) گناہوں کا ذکر ہوا ہے۔ کبیرہ گناہ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی حد مقرر ہو، یا جس پر جہنم کی وعید ہو، یا جس پر لعنت یا غضب کا ذکر ہو۔ [مجموع الفواي لابن تيمية 650/11]
یہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ اور اگر کوئی ان کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو باقی چھوٹے گناہ اللہ تعالیٰ مختلف نیک اعمال کے ذریعے بھی معاف فرما دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ «اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیْآتِ» [هود: 114] نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
اسی طرح ایک حدیث میں وضوء کے ذریعے بھی گناہ جھڑنے کا ذکر ہے۔ [مسلم: كتاب الطهارة: 244]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 57   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1258    
ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏من الكبائر شتم الرجل والديه ‏‏‏‏ قيل: وهل يسب الرجل والديه؟ قال: ‏‏‏‏نعم يسب ابا الرجل فيسب اباه ويسب امه فيسب امه ‏‏‏‏ متفق عليه»
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ کہا گیا کہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! کہ وہ کسی آدمی کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے اور یہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے۔ بخاري و مسلم۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1258]
تخریج:
[بخاري الادب باب لايسب الرجل والديه 5973]،
[مسلم الايمان 263]

فوائد:
➊ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو اف کہنے اور جھڑکنے سے منع فرمایا:
«فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا» [17-الإسراء:23]
تم ان کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو اور ان کو عزت سے مخاطب کرو۔
گالی دینا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔
➋ والدین کو اگرچہ خود گالی نہ دے اور نہ ہی تکلیف دے مگر ایسا کام کرے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ کوئی انہیں گالی دے یا تکلیف پہنچائے تو یہ حرام ہے۔
➌ جس کام کے نتیجہ میں خطرہ ہو کہ کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ وہ کام بھی ناجائز ہے مثلاً کسی کے والدین کو گالی دینے سے خطرہ ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی دے گا اگرچہ یہ ضروری نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی نہ دے فقہاء کی اصطلاح میں اسے سد ذرائع کہتے ہیں۔
سد ذرائع کی ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
«وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ» [6-الأنعام:108]
اور جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو نہیں تو بے سمجھی سے ضد میں آ کر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔
ایک اور دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت سے (اسلام میں)آئی ہوئی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کے متعلق حکم دیتا اور اسے گرا دیا جاتا اس کا جو حصہ اس سے نکال دیا گیا ہے میں اس میں داخل کر دیتا اور اسے عین زمین کے ساتھ ملا دیتا اس کا ایک مشرقی دروازہ بنا دیتا اور ایک مغربی اور اسے ابراہیم عیہ السلام کی بنیاد پر پہنچا دیتا۔ [بخاري / الحج 42]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے کعبہ کو نہیں گرایا کہ کعبہ کو گرانے سے یہ نئی نئی مسلمان ہونے والی قوم شبهات میں مبتلا نہ ہو جائے حالانکہ کعبہ کو گرا کر دوبارہ بنانے میں بہت سے فائدے تھے۔
البتہ ایک بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے صرف وہ کام چھوڑ سکتا ہے جو ضروری نہ ہو بلکہ اختیاری ہو۔ اگر فرض کی ادائیگی سے کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی مثلاً اگر کوئی شخص نماز کی دعوت دینے سے بدزبانی شروع کر دے تو نماز کی دعوت ترک نہیں کی جائے گی۔ صرف اختیاری کام چھوڑے جا سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک عنوان قائم کیا ہے باب «من ترك بعض الاختيار مخافة ان يقصر فهم بعض الناس فيقوا فى اشد منه» یعنی اس شخص کا بیان جو بعض اختیاری چیزیں (جو ضروری نہ ہوں) اس خوف سے چھوڑ دے کہ بعض لوگوں کی سمجھ اس سے قاصر رہے گی۔ تو وہ اس سے بھی سخت چیز میں جا پڑیں گے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 87   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1258  
´نیکی اور صلہ رحمی کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ کہا گیا کہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! کہ وہ کسی آدمی کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے اور یہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1258»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأدب، باب لا يسب الرجل والديه، حديث:5973، ومسلم، الأيمان، باب الكبائر وأكبرها، حديث:90.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کام کے لیے سبب بننا گویا خود اس کام کو انجام دینا ہے۔
بالفاظ دیگر حرام چیز کے اسباب بھی حرام ہوتے ہیں‘ اس لیے ایسا کام کرنا یاایسی بات کرنا جس کے نتیجے میں والدین کو گالی دی جائے یا انھیں تکلیف پہنچے‘ حرام ہے‘ لہٰذا اگر اپنے والدین کو گالی سے بچانا ہے تو دوسرے کے والدین کو گالی نہ دو اور نہ انھیں برا بھلا کہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1258   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.