الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
32. باب مَا جَاءَ فِي إِدْخَالِ الإِصْبَعِ فِي الأُذُنِ عِنْدَ الأَذَانِ
32. باب: اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 197
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان الثوري، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال: رايت بلالا يؤذن ويدور ويتبع فاه ها هنا وههنا وإصبعاه في اذنيه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة له حمراء اراه قال: " من ادم " , فخرج بلال بين يديه بالعنزة فركزها بالبطحاء، فصلى إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، يمر بين يديه الكلب والحمار وعليه حلة حمراء كاني انظر إلى بريق ساقيه. قال سفيان: نراه حبرة. قال ابو عيسى: حديث ابي جحيفة حسن صحيح، وعليه العمل عند اهل العلم يستحبون ان يدخل المؤذن إصبعيه في اذنيه في الاذان، وقال بعض اهل العلم: وفي الإقامة ايضا يدخل إصبعيه في اذنيه، وهو قول الاوزاعي، وابو جحيفة اسمه: وهب بن عبد الله السوائي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ وَيُتْبِعُ فَاهُ هَا هُنَا وَهَهُنَا وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَاءَ أُرَاهُ قَالَ: " مِنْ أَدَمٍ " , فَخَرَجَ بِلَالٌ بَيْنَ يَدَيْهِ بِالْعَنَزَةِ فَرَكَزَهَا بِالْبَطْحَاءِ، فَصَلَّى إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَرِيقِ سَاقَيْهِ. قَالَ سُفْيَانُ: نُرَاهُ حِبَرَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُدْخِلَ الْمُؤَذِّنُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فِي الْأَذَانِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: وَفِي الْإِقَامَةِ أَيْضًا يُدْخِلُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُهُ: وَهْبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّوَائِيُّ.
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ سفیان کہتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ چادر یمنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوجحیفہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس چیز کو مستحب سمجھتے ہیں کہ مؤذن اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کرے،
۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اقامت میں بھی اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرے گا، یہی اوزاعی کا قول ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 47 (503)، سنن ابی داود/ الصلاة 34 (520)، سنن النسائی/الأذان 13 (644)، والزینة 23 (5380)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (711)، (تحفة الأشراف: 1186)، مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234)، (وراجع أیضا ماعند صحیح البخاری/الأذان 15 (634) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے «فلما بلغ حي على الصلاة حي على الفلاح لوّي عنقه يمينا وشمالاً ولم يستدر» یعنی: بلال جب «حي الصلاة حي على الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔
۲؎: یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیزے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں «ورأيت الناس والدواب يمرون بين يدي العنزة» ہے، میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانورنیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔
۳؎: اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں، رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (711)

   صحيح البخاري495وهب بن عبد اللهصلى بهم بالبطحاء وبين يديه عنزة الظهر ركعتين والعصر ركعتين تمر بين يديه المرأة والحمار
   صحيح البخاري5786وهب بن عبد اللهخرج في حلة مشمرا فصلى ركعتين إلى العنزة ورأيت الناس والدواب يمرون بين يديه من وراء العنزة
   صحيح البخاري633وهب بن عبد اللهخرج بلال بالعنزة حتى ركزها بين يدي رسول الله بالأبطح وأقام الصلاة
   صحيح البخاري499وهب بن عبد اللهصلى بنا الظهر والعصر وبين يديه عنزة والمرأة والحمار يمرون من ورائها
   صحيح البخاري501وهب بن عبد اللهصلى بالبطحاء الظهر والعصر ركعتين ونصب بين يديه عنزة وتوضأ فجعل الناس يتمسحون بوضوئه
   جامع الترمذي197وهب بن عبد اللهخرج بلال بين يديه بالعنزة فركزها بالبطحاء فصلى إليها رسول الله يمر بين يديه الكلب والحمار وعليه حلة حمراء كأني أنظر إلى بريق ساقيه
   سنن أبي داود688وهب بن عبد اللهصلى بهم بالبطحاء وبين يديه عنزة الظهر ركعتين والعصر ركعتين يمر خلف العنزة المرأة والحمار
   سنن النسائى الصغرى137وهب بن عبد اللهصلى بالناس والحمر والكلاب والمرأة يمرون بين يديه
   سنن النسائى الصغرى773وهب بن عبد اللهخرج في حلة حمراء فركز عنزة فصلى إليها يمر من ورائها الكلب والمرأة والحمار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 137  
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے وضو کا پانی (جو برتن میں بچا تھا) نکالا، تو لوگ اسے لینے کے لیے جھپٹے، میں نے بھی اس میں سے کچھ لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکڑی نصب کی، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ کے سامنے سے گدھے، کتے اور عورتیں گزر رہی تھیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 137]
137۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب مذکورہ روایت اس باب کے تحت لا کر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ماء مستعمل پاک ہے اور اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماء مستعمل کی بابت مزید تفصیل کے لیے کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
➋ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی جس کا اظہار اس حدیث سے بھی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے جسم وغیرہ پر بطور تبرک ملتے تھے۔ یہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ آپ کے بعد قرون اولیٰ میں سے کسی سے بھی یہ نہیں ملتاکہ کسی نے کسی صحابی یا تابعی سے بطور تبرک یہ عمل کیا ہو۔
➌ سترے کے آگے سے کسی چیز کا گزرنا نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، سترے کے بغیر مذکورہ چیزوں کا گزرنا نقصان دہ ہے، اس لیے سترے کا اہتمام کرنا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مذکورہ چیزوں سے بچاؤ کا ایک عمدہ تحفظ بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 773  
´سرخ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 773]
773 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق وہ حلہ خالص سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں، سطح سفید تھی۔ دیکھیے: [زاد المعاد: 137/1]
لہٰذا اس روایت کا ان روایات سے تعارض نہ ہو گا جن میں سرخ کپڑا پہننے سے روکا گیا ہے۔
➋ حلے سے مراد ہے، دو چادریں ایک رنگ کی اور ایک جیسی۔ ایک ازار اور دوسری ردا۔
➌ برچھایا چھوٹا نیزہ بطور سترہ گاڑا گیا تھا۔ اس کی بحث حدیث 748 میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 688  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھائیں اور آپ کے سامنے برچھی (بطور سترہ) تھی، اور برچھی کے پیچھے سے عورتیں اور گدھے گزرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 688]
688۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔
➋ سترے کے آگے سے کوئی بھی گزرے تو اس میں نمازی کا نقصان نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 688   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 197  
´اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان۔`
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
1؎:
قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے ((فَلَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ،
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ لَوَى عُنُقَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَمْ يَسْتَدِرْ)
)
 یعنی:
بلال جب حي الصلاة حي على الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔

2؎:
یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیز ے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں  ((وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْ الْعَنَزَةِ)) ہے،
میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانور نیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔

3؎:
اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں،
رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 197   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.