الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
66. بَابُ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ:
66. باب: عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا۔
(66) Chapter. Observing Saum on the first day of Eid-uI- Fitr.
حدیث نمبر: 1990
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن ابي عبيد مولى ابن ازهر، قال:" شهدت العيد مع عمر بن الخطابرضي الله عنه، فقال: هذان يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم، واليوم الآخر تاكلون فيه من نسككم"، قال ابو عبد الله: قال ابن عيينة: من قال مولى ابن ازهر فقد اصاب، ومن قال مولى عبد الرحمن بن عوف، فقد اصاب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، قَالَ:" شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: هَذَانِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَالْيَوْمُ الْآخَرُ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: مَنْ قَالَ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ فَقَدْ أَصَابَ، وَمَنْ قَالَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَدْ أَصَابَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ازہر کے غلام ابوعبید نے بیان کیا کہ عید کے دن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا یہ دو دن ایسے ہیں جن کے روزوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے۔ (رمضان کے) روزوں کے بعد افطار کا دن (عیدالفطر) اور دوسرا وہ دن جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو (یعنی عید الاضحی کا دن)۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا سفیان بن عیینہ نے کہا، جس نے ابوعبداللہ کو ابن ازہر کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا، اور جس نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا۔(اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن ازہر اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ دونوں اس غلام میں شریک تھے)۔

Narrated Abu `Ubaid: (the slave of Ibn Azhar) I witnessed the `Id with `Umar bin Al-Khattab who said, Allah's Apostle has forbidden people to fast on the day on which you break fasting (the fasts of Ramadan) and the day on which you eat the meat of your sacrifices (the first day of `Id ul Fitr and `Id ul-Adha).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 211


   صحيح البخاري1990عمر بن الخطابيومان نهى رسول الله عن صيامهما يوم فطركم من صيامكم اليوم الآخر تأكلون فيه من نسككم
   صحيح مسلم2671عمر بن الخطابهذين يومان نهى رسول الله عن صيامهما يوم فطركم من صيامكم الآخر يوم تأكلون فيه من نسككم
   جامع الترمذي771عمر بن الخطابينهى عن صوم هذين اليومين أما يوم الفطر ففطركم من صومكم وعيد للمسلمين أما يوم الأضحى كلوا من لحوم نسككم
   سنن أبي داود2416عمر بن الخطابصيام هذين اليومين أما يوم الأضحى فتأكلون من لحم نسككم أما يوم الفطر ففطركم من صيامكم
   سنن ابن ماجه1722عمر بن الخطابنهى عن صيام هذين اليومين يوم الفطر يوم الأضحى أما يوم الفطر فيوم فطركم من صيامكم يوم الأضحى تأكلون فيه من لحم نسككم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم219عمر بن الخطابيومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم والآخر يوم تاكلون منه من نسككم
   مسندالحميدي8عمر بن الخطابإن هذا يوم اجتمع فيه عيدان للمسلمين فمن كان هاهنا من أهل العوالي فأحب أن يذهب فقد أذنا له، ومن أحب أن يمكث فليمكث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 219  
´نماز عید سے پہلے خطبہ نہیں دینا چاہئے`
«. . . ثم شهدت العيد مع على بن ابى طالب وعثمان محصور فجاء فصلى ثم انصرف فخطب . . .»
. . . پھر میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی نماز پڑھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محاصرے میں تھے انہوں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) نے آ کر نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 219]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1990، ومسلم 1137، من حديث مالك به]

تفقه
➊ عید کی نماز کے بعد خطبہ عید مسنون ہے لہٰذا نماز عید سے پہلے خطبہ نہیں دینا چاہئے۔
➋ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا تھے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے پہلے نماز عید پڑھاتے تھے۔ اس مفہوم کی روایات درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی مروی ہیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم 885/2، [2045] نيز ديكهئے صحيح البخاري 977] جابر بن عبد اللہ الانصاری [صحيح بخاري: 961 وصحيح مسلم: 885] عبداللہ بن عمر [صحيح بخاري: 957، صحيح مسلم: 888] ابوسعید الحذری [صحيح بخاري: 956، صحيح مسلم: 889] براء بن عازب [صحيح بخاري: 983، وصحيح مسلم: 1961 [5075] ] انس بن مالك [صحيح بخاري: 984، صحيح مسلم: 1962 [5080] ] جندب [صحيح بخاري: 985، صحيح مسلم: 1960 [5067] ] رضي الله عنهم اجمعين۔
معلوم ہوا کہ یہ حدیث متواتر ہے پھر بھی بعض لوگ ایسے تھے جو نماز عید سے پہلے خطبہ دیتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ عمل احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔
➍ اگر جمعہ اور عید اکٹھے ہو جائیں یعنی جمعہ کے دن عید ہو تو جمعہ میں اختیار ہے چاہے جمعہ پڑھے یا نماز ظہر ادا کرے۔ ایاس بن ابی رملہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاں حاضر تھا اور وہ سیدنا زید بن ارقم سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تمہاری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کبھی دو عیدیں (جمعہ اور عید) ایک ہی دن میں اکٹھی ہوئی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: تو آپ نے کیسے کیا؟ (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) عید کی نماز پڑھی پھر جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا: «مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّيْ» جو پڑھنا چاہتا ہے پڑھ لے۔ [سنن ابي داؤد: 1070، وسنده حسن، سنن النسائي: 1592، سنن ابن ماجه: 1310]
یاد رہے کہ نماز ظہر کی ادائیگی اسی طرح فرض ہے جس طرح عام دنوں میں ہے لہٰذا بعض الناس کا یہ کہنا کہ عید اور جمعہ اکٹھے ہونے کی صورت میں نماز ظہر میں بھی اختیار ہے، چاہے پڑھو یا نہ پڑھو۔ صحیح نہیں ہے۔
➎ جمعہ اور عید ایک ہی دن میں دو عیدوں کا اجتماع ہے اور باعث مزید مسرت و سعادت ہے، اسے نامبارک سمجھنا جہالت و بدعت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1722  
´عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔`
ابوعبید (سعد بن عبید الزہری) کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید شروع کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک تو عید الفطر، دوسرے عید الاضحی، رہا عید الفطر کا دن تو وہ تمہارے روزے سے افطار کا دن ہے، اور رہا عید الاضحی کا دن تو اس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1722]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز عید کا خطبہ نماز کے بعد ہو تا ہے
(2)
عید کے خطبے میں عید کے متعلق مسائل بیا ن کرنے چاہیں۔

(3)
عیدین کے دن روزہ رکھنا منع ہے کیو نکہ اس دن روزہ رکھنا گویا مسلمانو ں کی اجتماعی خوشی سے لاتعلق ہونے کا اظہا ر ہے جو ایک مسلمان کا کام نہیں۔

(4)
عید الفطر کے دن روزہ رکھنے سے عملی طور پر روزوں سے فا رغ نہ ہو نے کا اظہار ہو تا ہے اس طر ح گویا کہ اللہ کے مقرر کردہ فرض میں خود ساختہ اضافہ کر دیا جاتا ہے جو بہت برا فعل ہے
(5)
  جس طرح قربانی کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اس طرح قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ کھا پی لینا بھی اللہ کی نعمت کا شکر ہے اس دن روزہ رکھنا اس شکر سے پہلوتہی اور اللہ کی نعمت کی نا شکر ی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1722   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 771  
´عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 771]
اردو حاشہ:
1؎:
علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو،
اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنو ں میں روزہ رکھنے کی نذرمان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضا اس پر لازم آئے گی اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا،
ان کی قضا کرے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 771   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1990  
1990. حضرت ابوعبید مولی ابن ازہر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں عید کے دن حضرت عمر ؓ کے پاس تھا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دنوں میں روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے: ایک تمہارا روزوں کو افطار کرنے کا دن (عیدالفطر کا) اور دوسرا دن وہ ہے جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو۔ ابو عبداللہ (امام بخاری) نے ابو عبید کے متعلق فرمایا کہ مولی ابن ازہر اور مولی عبدالرحمان بن عوف دونوں طرح کہنا صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1990]
حدیث حاشیہ:
بعض نسخوں میں اس کے بعد اتنی عبارت زائد ہے قال أبوعبداللہ قال ابن عیینة من قال مولی ابن أزهر فقد أصاب ومن قال مولی عبدالرحمن بن عوف فقد أصاب یعنی امام بخاری ؒ نے کہاکہ سفیان بن عیینہ نے کہا جس نے ابوعبداللہ کو ازہر کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا، اور جس نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن ازہر اور عبدالرحمن بن عوف ؓ دونوں اس غلام میں شریک تھے۔
بعض نے کہا درحقیقت وہ عبدالرحمن بن عوف کے غلام تھے۔
مگر ابن ازہر کی خدمت میں رہا کرتے تھے تو ایک کے حقیقتاً غلام ہوئے دوسرے کے مجازاً۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1990   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.