الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
13. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ»
13. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں۔
(13) Chapter. The statement of the Prophet ﷺ "I know Allah تعالیٰ better, than all of you do.”
حدیث نمبر: Q20
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وان المعرفة فعل القلب لقول الله تعالى: {ولكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم}:وَأَنَّ الْمَعْرِفَةَ فِعْلُ الْقَلْبِ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ}:
‏‏‏‏ اور اس بات کا ثبوت کہ «معرفت» دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن (اللہ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔


Aur is baat ka suboot ke «ma’rifat» dil ka fe’l hai. Is liye ke Allah Ta’ala ne farmaaya hai “lekin (Allah) girift karega us par jo tumhaare dilon ne kiya hoga.”

حدیث نمبر: 20
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا عبدة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا امرهم، امرهم من الاعمال بما يطيقون، قالوا: إنا لسنا كهيئتك يا رسول الله، إن الله قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، فيغضب حتى يعرف الغضب في وجهه، ثم يقول: إن اتقاكم واعلمكم بالله انا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا".
یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ (اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے) (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ (پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)۔


Yeh Hadees hum se Muhammed bin Salaam ne bayan ki, woh kehte hain ke unhein is ki Abdah ne khabar di, woh Hishaam se naql karte hain, Hishaam Aisha Radhiallahu Anha se woh farmaati hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam logon ko kisi kaam ka hukm dete to woh aisa hi kaam hota jis ke karne ki logon mein taaqat hoti (is par) Sahaba Radhiallahu Anhum ne arz kiya ke ya RasoolAllah! Hum log to aap jaise nahi hain (Aap to ma’soom hain) aur Aap ki Allah paak ne agli pichli sab laghzishen mu’aaf farmaa di hain. (is liye hamein apne se kuch ziyada ibadat karne ka hukm farmaaiye) (yeh sun kar) Aap Sallallahu Alaihi Wasallam naraaz huwe hatta ke khafagi Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke chehra-e-mubarak se zahir hone lagi. Phir farmaaya ke be-shak main tum sab se ziyada Allah se darta hun aur tum sab se ziyada use jaanta hun. (Pas tum mujh se badh kar ibadat nahi kar sakte).

Narrated 'Aisha: Whenever Allah's Apostle ordered the Muslims to do something, he used to order them deeds which were easy for them to do, (according to their strength and endurance). They said, "O Allah's Apostle! We are not like you. Allah has forgiven your past and future sins." So Allah's Apostle became angry and it was apparent on his face. He said, "I am the most Allah fearing, and know Allah better than all of you do."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 20


   صحيح البخاري6465عائشة بنت عبد اللهأدومها وإن قل اكلفوا من الأعمال ما تطيقون
   صحيح البخاري6462عائشة بنت عبد اللهأحب العمل إلى رسول الله الذي يدوم عليه صاحبه
   صحيح البخاري43عائشة بنت عبد اللهعليكم بما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه مادام عليه صاحبه
   صحيح البخاري5861عائشة بنت عبد اللهخذوا من الأعمال ما تطيقون الله لا يمل حتى تملوا أحب الأعمال إلى الله ما دام وإن قل
   صحيح البخاري6466عائشة بنت عبد اللهكان عمله ديمة أيكم يستطيع ما كان النبي يستطيع
   صحيح البخاري1987عائشة بنت عبد اللهكان عمله ديمة
   صحيح البخاري1151عائشة بنت عبد اللهعليكم ما تطيقون من الأعمال الله لا يمل حتى تملوا
   صحيح البخاري20عائشة بنت عبد اللهإذا أمرهم أمرهم من الأعمال بما يطيقون أتقاكم وأعلمكم بالله أنا
   صحيح البخاري1970عائشة بنت عبد اللهخذوا من العمل ما تطيقون الله لا يمل حتى تملوا إذا صلى صلاة داوم عليها
   صحيح مسلم1827عائشة بنت عبد اللهالله لا يمل حتى تملوا أحب الأعمال إلى الله ما دووم عليه وإن قل
   صحيح مسلم1830عائشة بنت عبد اللهأحب الأعمال إلى الله أدومها وإن قل
   صحيح مسلم1828عائشة بنت عبد اللهأدومه وإن قل
   صحيح مسلم1833عائشة بنت عبد اللهخذوا من العمل ما تطيقون الله لا يسأم الله حتى تسأموا
   صحيح مسلم1834عائشة بنت عبد اللهعليكم من العمل ما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه
   صحيح مسلم1744عائشة بنت عبد اللهإذا عمل عملا أثبته إذا نام من الليل أو مرض صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة ما رأيت رسول الله قام ليلة حتى الصباح ما صام شهرا متتابعا إلا رمضان
   صحيح مسلم1829عائشة بنت عبد اللهكان عمله ديمة أيكم يستطيع ما كان رسول الله يستطيع
   سنن أبي داود1370عائشة بنت عبد اللهكان كل عمله ديمة
   سنن أبي داود1368عائشة بنت عبد اللهالله لا يمل حتى تملوا أحب العمل إلى الله أدومه وإن قل إذا عمل عملا أثبته
   سنن النسائى الصغرى763عائشة بنت عبد اللهالله لا يمل حتى تملوا أحب الأعمال إلى الله أدومه وإن قل كان إذا عمل عملا أثبته
   سنن النسائى الصغرى5038عائشة بنت عبد اللهعليكم من العمل ما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه ما دام عليه صاحبه
   سنن النسائى الصغرى1722عائشة بنت عبد اللهإذا صلى صلاة أحب أن يداوم عليها
   سنن النسائى الصغرى1643عائشة بنت عبد اللهعليكم بما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه
   سنن النسائى الصغرى1719عائشة بنت عبد اللهإذا صلى صلاة أحب أن يداوم عليها
   سنن ابن ماجه4238عائشة بنت عبد اللهعليكم بما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه الذي يدوم عليه صاحبه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 43  
باب اور حدیث میں مناسبت:
➊حدیث میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں «الدين» کے اور دین سے مراد یہاں عمل کے ہیں کیوں کہ اعتقاد کو ترک کرنا کفر ہے اور دین اور ایمان ایک ہی چیز ہے تو ایمان بھی عمل ہوا اور عمل ہی مقصود ہے اس باب میں۔ [ديكهيے فتح الباري ج1 ص 136]
➋ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بندہ مشقت سے جو عمل کرتا ہے اس پر دوام نہیں رکھ سکتا اور وہ جلد ہی اس عمل کو چھوڑ دیتا ہے اور جو مکمل نشاط اور توجہ سے عمل کرتا ہے تو اس پر وہ دوام اختیار کرتا ہے لہٰذا جو کام دل کی گہرائی اور دوام کے ساتھ ہو وہ یقیناً جنت کے حصول کا سبب بنتا ہے اور یقیناً جنت میں دین پر عمل کرنا ہی لے جاتا ہے یہاں سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 96   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 20  
´ایمان کا تعلق دل سے ہے`
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 20]

تشریح:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی و زیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «انااعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرو مگر مجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی اللہ کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی و بیشی بھی ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 20   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 20  
20. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:20]
حدیث حاشیہ:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری  یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ ؓ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔
یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔
آنحضرت ﷺ کے فرمان «أنا أعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت ﷺ اس معاملہ میں جمیع صحابہ ؓ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔
بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔
آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔
تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔
ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔
اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔
اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 20   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 763  
´نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 763]
763 ۔ اردو حاشیہ:
➊ چٹائی کو کھڑا کر کے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔
➋ کوئی نیک کام شروع کر کے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتا ہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 763   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4238  
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے۔‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طاقت سے زیادہ عبادت کرنا منع ہے۔
کیونکہ ا س کے بعد میں اکتاہٹ ہوجاتی ہے۔
اور خطرہ ہوتا ہے کہ انسان عبادت بالکل ہی ترک کردے۔

(2)
ہمیشگی والے عمل کا مجموعی ثواب زیادہ ہوجاتا ہے۔
اس لئےوہ افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4238   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1370  
´نماز میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1370]
1370. اردو حاشیہ: فائدہ: ہمیشگی اسی عمل پر ہوسکتی ہے جو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال پر مبنی ہو، اور مداومت اختیار کرنا ہی سب سے بڑی ریاضت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1370   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:20  
20. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:20]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ناراض ہوئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے آسان کاموں کو رفع درجات اور غفران ذنوب کے لیے ناکافی خیال کیا۔
ان کے گمان کے مطابق بلند مراتب کے حصول کے لیے ایسے کٹھن اعمال ہونے چاہئیں جن کی ادائیگی میں تکلیف ومشقت اٹھانی پڑے۔
اس پر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ شریعت میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں بلکہ جو اور جیسا ارشاد ہو، اس پر اکتفا کیاجائے۔

فرائض کی ادائیگی کے متعلق یہ حکم نہیں ہے کہ جتنا بوجھ اٹھاسکتا ہواتنا اٹھا لے کیونکہ فرائض اپنی جگہ شروع ہی سے انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں، البتہ نوافل کے متعلق یہ حکم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ادا کیے جائیں۔
استطاعت میں ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر تادم آخر عمل کیا جاسکے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
"أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ أدْومُها وإن قَلَّ" اللہ کے نزدیک محبوب اعمال وہ ہیں جن میں دوام ہو، مقدار میں اگرچہ وہ کم ہوں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1830(783)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے فرقہ کرامیہ کی تردید کرناچاہتے ہیں جن کاموقف ہے کہ ایمان صرف زبانی اقرار کا نام ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔
اس بناء پر محض زبانی اقرار کوایمان نہیں کہاجا سکتا۔
اس کے لیے معرفت قلبی بھی ضروری ہے، نیز اس سے ایمان کی کمی بیشی بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بلکہ جملہ مخلوقات سے بڑھ کر تھی کیونکہ حدیث میں آپ کا خطاب صرف حاضرین میں سے نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم سے ہے جس میں دوسرے انبیاءکرام علیہ السلام اور ملائکہ عظام بھی شامل ہیں۔
(شرح الکرماني: 113/1)

صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مغفور الذنب (بخشے بخشائے)
ہیں، لہٰذا آپ کو زیادہ عمل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں اعمال میں بہت زیادہ محنت وریاضت کی ضرورت ہے۔
اس پر آپ نے غصے کے انداز میں فرمایا:
میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔
اور سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔
اس تقویٰ اور علم کا تقاضا ہے کہ ہمہ وقت کام میں لگا رہوں۔
یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ مجھے عمل کی ضرورت نہیں۔
مغفرت تو ادنیٰ درجہ ہے اس کے بعد اور بھی درجات ہیں جن کے حصول کی مجھے ضرورت ہے۔

ایسے وساوس سے جوخیالات دل میں آئیں اور استقرار کی بجائے نکل جائیں،ان پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
البتہ انھیں زبان پر لانے یا ان کے مطابق عمل کرنے پر مواخذہ ہوگا۔
لیکن اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایسے بُرے خیالات جو دل میں جم جائیں اور وہ عزم کی صورت اختیار کرلیں وہ قابل مواخذہ ہیں اگرچہ انھیں زبان پر نہ لایا جائے یا ان کے مطابق عمل نہ کیاجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)
مگر اس کی پکڑ اس چیز پر ہوگی جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔
(البقرہ 225/2۔
وفتح الباری 97/1)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 20   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.