الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
42. باب مَا جَاءَ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ
42. باب: مؤذن کی اذان کے جواب میں آدمی کیا کہے؟
حدیث نمبر: 208
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك. ح قال: وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي رافع , وابي هريرة , وام حبيبة , وعبد الله بن عمرو , وعبد الله بن ربيعة , وعائشة , ومعاذ بن انس , ومعاوية. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حسن صحيح، وهكذا روى معمر وغير واحد، عن الزهري مثل حديث مالك، وروى عبد الرحمن بن إسحاق، عن الزهري هذا الحديث، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواية مالك اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح قَالَ: وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعَائِشَةَ , وَمُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ , وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَرَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوسعید رضی الله عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابورافع، ابوہریرہ، ام حبیبہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن ربیعہ، عائشہ، معاذ بن انس اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- معمر اور کئی رواۃ نے زہری سے مالک کی حدیث کے مثل روایت کی ہے، عبدالرحمٰن بن اسحاق نے اس حدیث کو بطریق: «الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، مالک والی روایت سب سے صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 7 (611)، صحیح مسلم/الصلاة 7 (383)، سنن ابی داود/ الصلاة 36 (522)، سنن النسائی/الأذان 33 (674)، سنن ابن ماجہ/الأذان 4 (720)، (تحفة الأشراف: 4150)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (2)، مسند احمد (3/6، 53، 78)، سنن الدارمی/الصلاة 10 (1234) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عمر رضی الله عنہ کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے «سوى الحيعلتين فيقول لا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی: «حي على الصلاة اور حي على الفلاح» کے علاوہ، ان پر «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ «حي على الصلاة اور حي على الفلاح» کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا «لاحول ولا قوۃ الا باللہ» کہے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (720)

   صحيح البخاري611سعد بن مالكإذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
   صحيح مسلم848سعد بن مالكسمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
   جامع الترمذي208سعد بن مالكإذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
   سنن أبي داود522سعد بن مالكإذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
   سنن النسائى الصغرى674سعد بن مالكإذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
   سنن ابن ماجه720سعد بن مالكإذا سمعتم النداء فقولوا كما يقول المؤذن
   بلوغ المرام153سعد بن مالك‏‏‏‏إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم77سعد بن مالكإذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 153  
´اذان کا جواب ہر حالت میں مشروع ہے`
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اذان سنو تو تم بھی اسی طرح کہتے جاؤ جس طرح مؤذن کہہ رہا ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 153]

فوائد ومسائل:
➊ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح مؤذن کلمات اذان کہے اسی طرح سننے والا بھی کہتا جائے۔ اور یہ جواب ہر حالت میں مشروع ہے، خواہ انسان پاک ہو یا ناپاک، البتہ بول وبراز وغیرہ میں مصروف ہو تو جواب دینا جائز نہیں۔
«حَيَّ عَلٰي الصَّلَاة، حَيَّ عَلٰي الْفَلَاح» کے جواب میں «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله» کہا جائے۔
➌ جس روایت میں یہ آیا ہے کہ جس طرح مؤذن کہے تم بھی اسی طرح کہو، تو یہ حکم عام ہے اور «حَيَّ عَلٰي الصَّلَاة، حَيَّ عَلَي الْفَلَاح» کے جواب میں «لَا حَوْل وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِالله» کہنے کا حکم خاص ہے۔ اور یہ طے شدہ اصول ہے کہ خاص کو عام پر اور مقید کو مطلق پر ترجیح دی جائے گی۔ جمہور علماء کے نزدیک یہی مسنون ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 153   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 77  
´اقامت اور الصلوٰۃ خیر من النوم کا وہی جواب دینا چاہئے جو مؤذن پڑھتا ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم (اذان کی) آواز سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 77]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 611، ومسلم 383، من حديث مالك به]

تفقه
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن «الله اكبر، الله اكبر» کہتا ہے تو تم میں سے ہر آدمی «الله اكبر، الله اكبر» کہے پھر جب مؤذن «اشهد ان لا الٰه الا الله» کہے تو یہ بھی «اشهد ان لا الٰه الا الله» کہے پھر جب مؤذن «اشهد ان محمداً رسول الله» کہے تو یہ بھی «اشهد ان محمداً رسول الله» کہے پھر جب مؤذن «حي على الصلوٰة» کہے تو یہ «لا حول ولا قوة الا بالله» کہے پھر جب مؤذن «حي على الفلاح» کہے تو یہ «لا حول ولا قوة الا بالله» کہے پھر جب مؤذن «الله اكبر، الله اكبر» کہے تو یہ بھی «الله اكبر، الله اكبر» کہے پھر جب مؤذن «لا اله الا الله» کہے، یہ بھی (سچے) دل سے «لا اله الا الله» کہے تو جنت میں داخل ہو گا۔ [صحیح مسلم 385/12]
➋ اگر جواب دینے والا «اشهد ان محمداً رسول الله» کہنے کے بعد عام دلائل کی رو سے درود پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر مسنون جوابات پر اکتفا کر کے آخر میں درود پڑھے تو یہ بہتر ہے کیونکہ اذان کے دوران میں خاص طور پر درود پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
➌ اذان کے بعد مسنون درود پڑھیں اور کہیں: «اللهم رب هذه الدعوة التامة و الصلاة القائمة آت محمدان الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودان الذى وعدته» اے اللہ! اس ساری دعوت (پکار) اور قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو (مقام) وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور تو نے ان سے جس مقام محمود کا وعدہ کیا ہے وہ عطا فرما، جو شخص اسے پڑھے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اللہ کے اذن سے اس کی شفاعت فرمائیں گے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 614، وصحيح مسلم 11/384]
➍ اس حدیث کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ اقامت اور الصلوٰۃ خیر من النوم کا وہی جواب دینا چاہئیے جو مؤذن پڑھتا ہے۔
➎ اگر اذانیں بہت زیادہ دی جائیں تو (اہل حق کی) پہلی اذان کا جواب دینا کافی ہے۔ «والله اعلم»
➏ اذان کے دوران میں انگوٹھے چومنا یا «صدقت و بررت» کے الفاظ کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے ثابت نہیں ہیں۔
➐ جو شخص اذان کے ساتھ کلمات مذکورہ کہے اور بعد میں دعا کرے تو اس کی دعا (ان شاء اللہ) قبول ہو گی۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 524 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 77   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 674  
´جس طرح مؤذن کہے اسی طرح اذان سننے والا بھی کہے۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسا مؤذن کہتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 674]
674 ۔ اردو حاشیہ:
➊ مؤذن کی اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا:، آپ نے فرمایا: یہ فطرت پر ہے اور جب شہادتین کہی تو آپ نے فرمایا: تو آگ سے نکل گیا۔ [صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 382]
ان کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جواب کی بجائے یہ کلمات فرمائے ہیں، اگر جواب دیا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، لہٰذا یہ عدم وجوب کی دلیل ہے۔ جبکہ دیگر بعض علماء کی رائے وجوب کی ہے کیونکہ احادیث کا ظاہر یہی ہے، مزید یہ ہے کہ وجوب سے پھیرنے والا کوئی صریح قرینہ بھی موجود نہیں اور کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجوب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے، یعنی اس حدیث میں یہ تو نہیں کہ آپ نے جواب نہیں دیا، ممکن ہے جواب بھی دیا ہو اور یہ کلمات بھی کہے ہوں اور راوی نے بغرض اختصار حدیث میں مذکور مزید فائدے کا ذکر کر دیا اور جواب کو عام شہرت کی بنا پر ترک کر دیا ہو جیسا کہ بعض اوقات رواۃ ایسا تصرف کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح الباري: 110/2]
➋ اذان کا جواب ساتھ ساتھ دینا بہتر اور افضل ہے، تاہم بامر مجبوری اذان کے آخر میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ تمام کلمات کے جواب میں وہی کلمات کہے جائیں گے مگر «حيَّ على الصَّلاةِ، حيَّ على الفلاحِ» کے جواب میں «لا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ» گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ کہا جائے گا۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں «الصلاةُ خيرٌ مِنَ النومِ» کے جواب میں «صدقتَ وبررتَ» کے الفاظ آئے ہیں مگر یہ ثابت نہیں، لہٰذا اصل کلمات ہی کہے جائیں۔ تفصیل کے لیے کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 674   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث720  
´مؤذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 720]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن (اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ)
ہے تو اسے سن کر سننے والا بھی (اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ)
 کہے۔
اسی طرح ہر کلمہ کے بعد جواب دیتا جائے۔
یہ مطلب نہیں کہ مؤذن کے فارغ ہونے کے بعد سننے والا پوری اذان دہرائے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الصلاة،   باب استجاب القول مثل قول المؤذن لمن سمع۔
۔
۔
۔
۔
الخ،   حديث: 385)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 720   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 208  
´مؤذن کی اذان کے جواب میں آدمی کیا کہے؟`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 208]
اردو حاشہ:
1؎:
عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے ((سِوَى الْحَيْعَلَتَيْنِ فَيَقُوْلُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ)) یعنی: (حَي عَلَى الصَّلَاةِ) اور (حَي عَلَى الْفَلَاحِ) کے علاوہ ان پر (لَاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ) کہے کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ'حي على الصلاة اور حي على الفلاح ' کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں،
ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا (لَاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ) کہے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 208   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.