الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
36. بَابُ شِرَاءِ الإِبِلِ الْهِيمِ أَوِ الأَجْرَبِ:
36. باب: ( «هيم» ) بیمار یا خارشی اونٹ خریدنا۔
(36) Chapter. Purchasing of camel suffering from skin disease or disease causing severe thirts.
حدیث نمبر: Q2099
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
الهائم المخالف للقصد في كل شيء.الْهَائِمُ الْمُخَالِفُ لِلْقَصْدِ فِي كُلِّ شَيْءٍ.
‏‏‏‏ «هيم»، «ہائم» کی جمعہ ہے۔ «هيم» اعتدال (میانہ روی) سے گزرنے والا۔

حدیث نمبر: 2099
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: قال عمرو:" كان هاهنا رجل اسمه: نواس، وكانت عنده إبل هيم، فذهب ابن عمررضي الله عنه، فاشترى تلك الإبل من شريك له، فجاء إليه شريكه، فقال: بعنا تلك الإبل، فقال: ممن بعتها؟ قال: من شيخ، كذا، وكذا، فقال: ويحك ذاك، والله ابن عمر، فجاءه، فقال: إن شريكي باعك إبلا هيما ولم يعرفك، قال: فاستقها، قال: فلما ذهب يستاقها، فقال: دعها رضينا بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا عدوى"، سمع سفيان عمرا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عَمْرٌو:" كَانَ هَاهُنَا رَجُلٌ اسْمُهُ: نَوَّاسٌ، وَكَانَتْ عِنْدَهُ إِبِلٌ هِيمٌ، فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَاشْتَرَى تِلْكَ الْإِبِلَ مِنْ شَرِيكٍ لَهُ، فَجَاءَ إِلَيْهِ شَرِيكُهُ، فَقَالَ: بِعْنَا تِلْكَ الْإِبِلَ، فَقَالَ: مِمَّنْ بِعْتَهَا؟ قَالَ: مِنْ شَيْخٍ، كَذَا، وَكَذَا، فَقَالَ: وَيْحَكَ ذَاكَ، وَاللَّهِ ابْنُ عُمَرَ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ: إِنَّ شَرِيكِي بَاعَكَ إِبِلًا هِيمًا وَلَمْ يَعْرِفْكَ، قَالَ: فَاسْتَقْهَا، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبَ يَسْتَاقُهَا، فَقَالَ: دَعْهَا رَضِينَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَى"، سَمِعَ سُفْيَانُ عَمْرًا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں (مکہ میں) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس! وہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہیں (آپ نے فرمایا تھا کہ) «لا عدوى‏.‏» (یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔

Narrated `Amr: Here (i.e. in Mecca) there was a man called Nawwas and he had camels suffering from the disease of excessive and unquenchable thirst. Ibn `Umar went to the partner of Nawwas and bought those camels. The man returned to Nawwas and told him that he had sold those camels. Nawwas asked him, "To whom have you sold them?" He replied, "To such and such Sheikh." Nawwas said, "Woe to you; By Allah, that Sheikh was Ibn `Umar." Nawwas then went to Ibn `Umar and said to him, "My partner sold you camels suffering from the disease of excessive thirst and he had not known you." Ibn `Umar told him to take them back. When Nawwas went to take them, Ibn `Umar said to him, "Leave them there as I am happy with the decision of Allah's Apostle that there is no oppression . "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 312


   صحيح البخاري5753عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة الشؤم في ثلاث في المرأة والدار والدابة
   صحيح البخاري5772عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة إنما الشؤم في ثلاث في الفرس والمرأة والدار
   صحيح البخاري2099عبد الله بن عمرلا عدوى
   صحيح مسلم5805عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة إنما الشؤم في ثلاثة المرأة والفرس والدار
   سنن ابن ماجه86عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة لا هامة أرأيت البعير يكون به الجرب فيجرب الإبل كلها قال ذلكم القدر فمن أجرب الأول
   سنن ابن ماجه3540عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة لا هامة البعير يكون به الجرب فتجرب به الإبل قال ذلك القدر فمن أجرب الأول

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث86  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 86]
اردو حاشہ:
(1)
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بیمار کے پاس کوئی تندرست آدمی اٹھتا بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا اس کا لباس استعمال کرتا ہے تو اسے بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے جو مریض کو تھی۔
عرف عام میں ایسی بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیماری اس طرح ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس وجہ سے پہلے آدمی کے جسم میں مرض پیدا ہوا ہے، وہی وجہ کسی اور شخص میں بھی پائی جائے اور وہ بھی بیمار ہو جائے۔
جدید طب میں جراثیم کا نظریہ بہت مقبول ہے لیکن یہ جراثیم بھی بحکم الہی اثر انداز ہوتے ہیں، گویا دوسرے مریض کے بیمار ہونے کی اصل وجہ حکم باری تعالیٰ ہے نہ کہ مریض کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔
اس کے علاوہ ہومیو پیتھک نظریہ علاج جراثیم کو امراض کا سبب ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس نظریے کے مطابق بھی مریض کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا ایک غلط تصور ہے۔

(2)
عرب لوگ پرندوںاور جنگلی جانوروں کے گزرنے سے شگون لیتے تھے۔
کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہتا تو کسی بیٹھے ہوئے پرندے یا ہرن وغیرہ کو پتھر مار کر بھگاتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو سمجھا جاتا کہ کام صحیح ہو جائے گا، اگر بائیں طرف جاتا تو سمجھا جاتا کہ کامیابی نہیں ہو گی۔
اس طرح کے کام محض توہم پرستی کا مظہر ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آج کل بھی اس طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں، مثلا:
کسی لنگڑے یا یک چشم انسان سے ملاقات ہو جائے تو اسے نحوست کا باعث قرار دینا۔
کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو سمجھنا کہ کام نہیں ہو گا یا کسی خاص عدد (مثلا تیرہ کا عدد)
یا کسی خاص دن (مثلا منگل)
یا کسی خاص مہینہ (مثلا ماہ صفر یا شوال)
کو نامبارک قرار دینا بھی اسی میں شامل ہے۔
کوئی نقش بنا کر اس کے خانوں میں انگلی رکھنا یا اس قسم کے فال ناموں سے قسمت معلوم کرنے کی کوشش کرنا سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

(3)
مشرکین عرب میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر متقول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح اُلو کی شکل اختیار کر کے بٹھکتی اور چیختی پھرتی ہے اور انتقام کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس غلط تصور کی وجہ سے ان لوگوں میں نسل در نسل انتقام اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اسی طرح اُلو کو منحوس تصور کرنا غلط ہے۔
وہ بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس کا انسانوں کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 86   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2099  
2099. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں نواس نامی ایک شخص تھا، اس کے پاس ایسے اونٹ تھے جن کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے اور اس کے شریک سے وہ اونٹ خرید لائے، پھر اس کے پاس وہ شریک آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے وہ اونٹ فروخت کردیے ہیں۔ اس نے کہا: کس کے ہاتھ فروخت کیے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ کو فروخت کیے ہیں جن کی شکل و صورت کچھ ایسی ایسی تھی۔ اس نے کہا: تیرے لیےخرابی ہو، اللہ کی قسم!وہ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: میرے شریک نے آپ کے ہاتھ پیاس والے اونٹ فروخت کر دیے ہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہانک کر لےجاؤ۔ جب وہ ہانکنے لگا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2099]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔
دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔
اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔
اور اس سودے کو فسخ کردے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔
یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔
اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔
ان شاءاللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2099   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2099  
2099. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں نواس نامی ایک شخص تھا، اس کے پاس ایسے اونٹ تھے جن کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے اور اس کے شریک سے وہ اونٹ خرید لائے، پھر اس کے پاس وہ شریک آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے وہ اونٹ فروخت کردیے ہیں۔ اس نے کہا: کس کے ہاتھ فروخت کیے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ کو فروخت کیے ہیں جن کی شکل و صورت کچھ ایسی ایسی تھی۔ اس نے کہا: تیرے لیےخرابی ہو، اللہ کی قسم!وہ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: میرے شریک نے آپ کے ہاتھ پیاس والے اونٹ فروخت کر دیے ہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہانک کر لےجاؤ۔ جب وہ ہانکنے لگا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2099]
حدیث حاشیہ:
(1)
بیوپاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خریداروں کو اپنے جانوروں کے عیوب بتادیں، اس سلسلے میں ہر گز دھوکا بازی نہ کی جائے،نیز عیب دار چیز کی خریدوفروخت کا بھی ثبوت ملتا ہے بشرطیکہ بیچنے والا اس کی وضاحت کر دے اور لینے والا اسے قبول کرلے۔
اگر وضاحت معاملہ طے کرنے کے بعد کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے اسے رکھ لے یا واپس کردے۔
(2)
اگر کوئی سودا گر بھول چوک سے عیب دار مال فروخت کردے تو ضروری ہے کہ اس کے بعد گاہک کے پاس جاکر اس کی معذرت کرے اور اس کی مرضی پر معاملہ چھوڑ دے۔
یہ اس کی شرافت ودیانت کی دلیل ہوگی۔
گاہک کا درگزر کرنا،اسے معاف کر دینا اور معاملہ برقرار رکھنا اس کی فراخ دلی کی علامت ہے۔
ایسا کرنا باعث خیروبرکت ہوسکتا ہے۔
(3)
کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا،اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الطب میں پیش کریں گے۔
باذن الله تعاليٰ.واضح رہے کہ مسند حمیدی میں سفیان نے تحدیث کی تصریح کی ہے۔
(مسند الحمیدی: 2/42،دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،وفتح الباری: 4/407)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2099   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.