الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
44. باب مَا جَاءَ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الدُّعَاءِ
44. باب: مؤذن اذان دے چکے تو آدمی کون سی دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 210
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن الحكيم بن عبد الله بن قيس، عن عامر بن سعد، عن سعد بن ابي وقاص، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال حين يسمع المؤذن: وانا اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له وان محمدا عبده ورسوله، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا، غفر له ذنبه ". قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث الليث بن سعد، عن حكيم بن عبد الله بن قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ: وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ حُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مؤذن کی اذان سن کر کہا: «وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا» اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی الله علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوں تو اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اسے ہم صرف لیث بن سعد کی سند سے جانتے ہیں جسے وہ حکیم بن عبداللہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (386)، سنن ابی داود/ الصلاة 36 (525)، سنن النسائی/الأذان 38 (680)، سنن ابن ماجہ/الأذان 4 (721)، (تحفة الأشراف: 3877)، مسند احمد (1/181) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (721)

   سنن النسائى الصغرى680سعد بن مالكمن قال حين يسمع المؤذن وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا غفر له ذنبه
   صحيح مسلم851سعد بن مالكمن قال حين يسمع المؤذن أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا غفر له ذنبه
   جامع الترمذي210سعد بن مالكمن قال حين يسمع المؤذن وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا غفر له ذنبه
   سنن أبي داود525سعد بن مالكمن قال حين يسمع المؤذن وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا غفر له
   سنن ابن ماجه721سعد بن مالكمن قال حين يسمع المؤذن وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا غفر له ذنبه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 680  
´اذان سننے کے بعد کی دعا کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مؤذن (کی اذان) سن کر یہ کہا: «وأنا أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا» اور میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 680]
680 ۔ اردو حاشیہ: یقیناًً جو شخص عقیدے میں راسخ ہو اور صدق دل سے ان باتوں کا معترف ہو اسے واقعی اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے، خواہ کتنے ہی گناہوں کا مرتکب ہو۔ بھلا اس کے بخشش اور بندے کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 680   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث721  
´مؤذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ تن تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے راضی ہوں تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 721]
اردو حاشہ:
(1)
توحیدورسالت کا اقرار اسلام کی بنیاد ہےاور اسی پر نجات کا دارومدار ہے۔

(2)
اللہ کی ربویت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ربویت پر ایسا ایمان ہو جیسے ایمان کا حق ہے۔
یہ احساس کہ تمام نعمتیں وہی ہمیں دے رہا ہے اور مسلسل ہماری ضرورت کی ہر چیز بہم پہنچا رہا ہے اس سے شکر اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اس لیے مومن کی اللہ سے محبت بے مثال ہوتی ہے۔
یہ محبت اس کا مزید قرب حاصل کرنے کے لیے ہر نیکی پر آمادہ کرتی اور ہر گناہ سے اجتناب پر مجبور کرتی ہے۔
اس کے بعد ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہو جاتی ہیں جس کو یہ مقام حاصل ہوجائے وہ یقیناً اللہ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔

(3)
اسلام کو اپنا دین تسلیم کرلینا یہ ہے کہ یہ یقین پیدا ہو جائےکہ اس دین کی ہر بات حق اور ہر ہدایت بعینہ درست ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خامی اور خرابی نہیں۔
غیر مسلموں کا کوئی عقیدہ، کوئی رسم ورواج اور کوئی ادب اسلام کی عظیم تہذیب سے برتر نہیں۔
جب یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم کسی معاملہ میں رہنمائی کے لیے غیر مسلموں  کی طرف دیکھیں بلکہ ہر شعبۂ حیات اورزندگی کے ہر پہلو میں اسلام کی تعلیمات سے رہنمائی ملتی ہے اور اس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔
حقیقت میں یہی وہ ایمان ہے جو آجکل کے اکثر مسلمانوں میں مفقود ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ہر معاشرہ عملی طور پر غیر مسلم معاشرہ بنا ہوا ہے اور اسلام کی برکات سے محروم ہے۔

(4)
حضرت محمدﷺ کی نبوت ورسالت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی اسلام کی اصل تعبیر ہے جس پر عمل کرنا ہمارا مقصود ہے۔
گزشتہ انبیاء کرامؑ کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔
ہمیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس طرح کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی ہر بات آنکھ بند کرکے مان لی جائے۔
مسلمانوں کی اجتماعیت کا مرکز ومحور صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
جیسے کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ؔ
            بہ مصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست                                اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
   خود کو مصطفیﷺ تک پہنچاؤ کیونکہ انہی کی ذات سراپا دین ہے۔
اگر تم نبی ﷺ تک نہیں پہنچتے تو باقی سب کچھ ابو لہب ہی کا طریقہ ہے،
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 721   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.