الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
43. بَابُ إِذَا لَمْ يُوَقِّتْ فِي الْخِيَارِ، هَلْ يَجُوزُ الْبَيْعُ:
43. باب: اگر بائع یا مشتری اختیار کی مدت معین نہ کرے تو بیع جائز ہو گی یا نہیں؟
(43) Chapter. If the time for the option is not fixed, will the deal be considered as legal?
حدیث نمبر: 2109
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، او يقول احدهما لصاحبه: اختر"، وربما قال: او يكون بيع خيار.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، أَوْ يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اخْتَرْ"، وَرُبَّمَا قَالَ: أَوْ يَكُونُ بَيْعَ خِيَارٍ.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے والے اور بیچنے والے کو (بیع توڑ دینے کا) اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔ یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنے دوسرے فریق سے یہ نہ کہہ دے کہ پسند کر لو۔ کبھی یہ بھی کہا کہ یا اختیار کی شرط کے ساتھ بیع ہو۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, "The seller and the buyer have the option of canceling or confirming the deal unless they separate, or one of them says to the other, 'Choose (i.e. decide to cancel or confirm the bargain now)." Perhaps he said, 'Or if it is an optional sale.' " Ibn `Umar, Shuraih, Ash-Shu`bi, Tawus, Ata, and Ibn Abu Mulaika agree upon this judgment.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 322


   صحيح البخاري2113عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح البخاري2112عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن يتبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   صحيح البخاري2107عبد الله بن عمرالمتبايعين بالخيار في بيعهما ما لم يتفرقا أو يكون البيع خيارا
   صحيح البخاري2111عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح البخاري2109عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يقول أحدهما لصاحبه اختر
   صحيح مسلم3853عبد الله بن عمرالبيعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح مسلم3855عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   صحيح مسلم3857عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح مسلم3856عبد الله بن عمرإذا تبايع المتبايعان بالبيع فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار فإذا كان بيعهما عن خيار فقد وجب
   جامع الترمذي1245عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا
   سنن أبي داود3454عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يفترقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4485عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار
   سنن النسائى الصغرى4471عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يفترقا أو يكون خيارا
   سنن النسائى الصغرى4479عبد الله بن عمرالمتبايعان لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4472عبد الله بن عمرالمتبايعان بالخيار ما لم يفترقا إلا أن يكون البيع كان عن خيار فإن كان البيع عن خيار فقد وجب البيع
   سنن النسائى الصغرى4473عبد الله بن عمرإذا تبايع البيعان فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يفترقا أو يكون بيعهما عن خيار فإن كان عن خيار فقد وجب البيع
   سنن النسائى الصغرى4474عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يفترقا أو يقول أحدهما للآخر اختر
   سنن النسائى الصغرى4475عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار حتى يفترقا أو يكون بيع خيار
   سنن النسائى الصغرى4476عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار حتى يفترقا أو يكون بيع خيار
   سنن النسائى الصغرى4470عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يفترقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4478عبد الله بن عمرالمتبايعين بالخيار في بيعهما ما لم يفترقا إلا أن يكون البيع خيارا
   سنن النسائى الصغرى4480عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4481عبد الله بن عمركل بيعين فلا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4482عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4483عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4484عبد الله بن عمركل بيعين فلا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4477عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار حتى يفترقا وقال مرة أخرى ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع فإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   سنن ابن ماجه2181عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يفترقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم488عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار
   بلوغ المرام692عبد الله بن عمر إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   المعجم الصغير للطبراني545عبد الله بن عمر كل بيعين لا بيع بينهما ، حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   مسندالحميدي669عبد الله بن عمرإذا تبايع المتبايعان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يفترقا، أو يكون بيعهما على خيار
   مسندالحميدي670عبد الله بن عمرالبائعان بالخيار ما لم يفترقا، أو يكون بيعهما عن خيار، فإذا كان عن خيار فقد وجب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 488  
´بیع خیار کا بیان`
«. . . 241- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو جدا ہو جانے سے پہلے اپنے ساتھی پر حق اختیار رہتا ہے الا یہ کہ (جدا ہو جانے کے بعد بھی) حق اختیار والا سودا ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 488]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2111، ومسلم 1531/43، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اس حدیث میں جدائی سے مراد جسمانی جدائی یعنی تفرق بالا ابدان ہے۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جب ابن (عمر رضی اللہ عنہ) کو سودا پسند آ جاتا تو بیچنے والے سے (دورجاکر) جدا ہوجاتے تھے۔ [صحيح بخاري 2107، صحيح مسلم 1531، دارالسلام: 3856]
➋ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے خلاف اہل مدینہ کا اجماع ہے لیکن ایسے نام نہاد اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے جس سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیر ہ باہر ہیں۔ نیز دیکھئے [التمهيد 9/14]
➌ اس صحیح حدیث کو رد کرتے ہوۓ محمود حسن دیوبندی (اسیر مالٹا) نے کہا:
«و خالف ابوحنيفته فيه الجمهور و كثيراً من الناس من المتقدمين و المتاخرين صنو ارسائل فى ترديد مذهبه فى هذه المسئلة ورجح مولانا شاه ولي الله دهلوي قدس سره فى رسائل مذهب الشافعي من جهته الأحاديث والنصوص و كذلك قال شيخنا مدظله يترجح مذهبه وقال: الحق والانصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة و نحن مقلدون يجب عليان تقليد امامنا ابي حنيفته والله اعلم» ۔
اور اس (مسئلے) میں ابوحنیفہ نے جمہور اور مقتدمین و متاخرین میں سے بہت سوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اس مسئلے میں ان کے مذہب کی تردید میں رسالے لکھے اور مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ نے رسالوں میں احادیث اور دلائل کی وجہ سے (امام) شافعی کے مذہب کو ترجیح دی اور اسی طرح ہمارے شیخ مدظلہ نے کہا: ان کا مذہب راجح ہے، اور کہا: حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ واللہ اعلم [تقريرترمذي ص36 مطبوعه ایچ ایم سعید کمپنی کراچی] غور کریں کہ تقلید نے ان لوگوں کو حق و انصاف اور دلائل سے کتنا دور کر دیا ہے۔!
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 241   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2181  
´بیچنے اور خریدنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی ایک مجلس میں خرید و فروخت کریں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں، یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار نہ دیدے، پھر اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا پھر بھی ان دونوں نے بیع پکی کر لی تو بیع واجب ہو گئی، اس طرح بیع ہو جانے کے بعد اگر وہ دونوں مجلس سے جدا ہو گئے تب بھی بیع لازم ہو گئی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2181]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سودا طے پا جانےکے بعد جب قیمت ادا کرکے چیز وصول کر لی جائے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے لیکن ممکن ہے خریدنے والا محسوس کرے کہ یہ سودا اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے تھا، اور وہ چیز واپس کرنا چاہیے یا بیچنے والا محسوس کرے کہ مجھے یہ چیز نہیں بیچنی چاہیے تھی اور وہ واپس لینا چاہیے تو اس صورت ميں سودا ختم کرکے مال اور رقم کا دوبارہ تبادلہ کر لینا چاہیے۔

(2)
  بیچے ہوئے مال کو واپس کر لینا بہت ثواب ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث2199)

(3)
  بیع واپس کرنے کا اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک دونوں ایک مجلس میں موجود رہیں۔

(4)
  اگر ان کے درمیان کوئی مدت طے پاجائے تو واپس لینے دینے کا حق اس مدت تک ہوگا، مثلاً:
خریدنے والا کہے:
اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو میں تین دن تک واپس کردوں گا۔
یا بیچنے والا کہے:
اگر میں کل شام تک واپس نہ لوں تو بعد میں تم سے واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مجلس سے الگ ہوجانے کے بعد بھی مذکورہ مدت تک اختیار باقى رہے گا۔

(5)
  اگر انہوں نے مجلس میں بیع واپس نہ کی اور نہ بعد میں واپس کرنے کے لیے کوئی مدت متعین ہوئی تو مجلس برخاست ہوتے ہی دونوں کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2181   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 692  
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو آدمی آپس میں سودا کرنے لگیں تو جب تک وہ اکٹھے رہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے، یا ایک دوسرے کو اختیار دیدے، اگر ایک دوسرے کو اختیار دیدے، پھر اس پر سودا طے ہو جائے تو سودا پختہ ہو گیا اور اگر سودا طے کرنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ الگ ہو جائیں اور دونوں میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا ہو تو بیع پختہ ہو جائے گی۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 692»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب إذا خير أحدهما صاحبه بعد البيع، حديث:2112، ومسلم، البيوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، حديث:1531.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بیوپاری اور سوداگر کو خرید وفروخت کے باقی رکھنے یا توڑنے کا حق دیا گیا ہے۔
2.اختیار یا خیار کے بھی یہی معنی ہیں کہ خریدار اور فروخت کنندہ کو سودا باقی رکھنے یا توڑنے کا حق ہے۔
3.اس کی بہت سی انواع ہیں۔
ان میں سے دو کا بالخصوص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
ایک خیار مجلس جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
دوسری خیار شرط۔
وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک یا دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کو باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا۔
اگر خریدار اسے واپس کرنا چاہے تو فروخت کنندہ کو بغیر لیت ولعل اور حیل وحجت کے واپس لینا ہو گا۔
اس کے علاوہ دو تین صورتیں مزید یہ ہیں: 1.خِیَارِ عَیْب: خریدنے والا کہے کہ اگر اس میں کوئی نقص وعیب ہوا تو میں اسے واپس کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
2.خِیَارِ رُؤیَتْ: خریدار کہے کہ سودا تو طے ہوا مگر میں اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا کہ اسے لینا ہے یا نہیں۔
دیکھنے پر اسے یہ سودا منظور نہ ہوا تو بیع منعقد نہ ہوگی۔
3. خِیَارِ تَعَیُّن: خریدار کہے کہ ان میں سے جو چیز یا جو جانور مجھے پسند ہو گا وہ لے لوں گا۔
بہر حال شریعت نے فریقین کے لیے بے شمار آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں تاکہ کسی طرح جھگڑا اور تنازع نہ ہو۔
خریدنے اور فروخت کرنے میں دونوں کی باہمی رضا مندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 692   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1245  
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی عقد کو فسخ کر نے سے پہلے مجلس عقد سے اگربائع (بیچنے والا) اورمشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طورپر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیارحاصل نہیں ہوگا۔

2؎:
اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا،
یعنی خیارکی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیارباقی رہے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1245   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3454  
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎ مگر جب بیع خیار ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3454]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسے اصطلاحا خیار مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اوراس کا تعلق بیع کی جگہ سے علیحدہ علیحدہ ہوجانے سے ہے نہ کہ بیع کا موضوع بدلنےسے۔
البتہ اگر کم یا زیادہ کسی متعین مدت تک کےلیے اختیار کا فیصلہ کرلیا گیا ہوتو الگ با ت ہے۔
ایسی صورت میں متعینہ مدت ہی معتبر ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3454   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2109  
2109. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں یاان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ دے کہ تجھے اختیار ہے۔ "بعض اوقات راوی نے یہ الفاظ بیان کیے: "یا بیع خیار ہو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2109]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب روایت میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے تو اسے مطلق رکھا جائے گا،کسی مدت کی تعین جائز نہیں،اس سے ان لوگوں کی تائید ہوتی ہے جو خیار کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کرتے۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ خیار کی مدت تین دن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
ان کے نزدیک خیار کی مدت تین دن سے زیادہ ہویا کوئی مدت مقرر ہی نہ کی جائے تو بیع باطل ہوجاتی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیع جائز ہے اور جتنی مدت ٹھہرائی جائے اتنی مدت تک اختیار رہے گا۔
چونکہ اس مسئلے میں فقہائے کرام کا اختلاف تھا،اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جزم ووثوق کے ساتھ عنوان بندی نہیں کی بلکہ استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے۔
بہرحال جب بیع میں خیار کا وقت معین نہ کیا جائے تو بیع لازم ہوجاتی ہے اور اسے نسخ نہیں کیا جاسکتا بلکہ بشرطیکہ اس میں کوئی عیب ظاہر نہ ہوجائے جسے پہلے سے نہ بتایا گیا ہو۔
(فتح الباری: 4/414)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. خيار المجلس (المعاملات)
2. خيار الشرط (المعاملات)
موضوعات 1. مجلسی بیع میں چیز کی واپسی کا اختیار (معاملات)
2. بیع میں شرط کا اختیار (معاملات)
Topics 1. Choice of returning in the meeting of business deal (Matters)
2. Choice of conditioning in Business deal (Matters)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2109 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں یاان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ دے کہ تجھے اختیار ہے۔
"بعض اوقات راوی نے یہ الفاظ بیان کیے:
"یا بیع خیار ہو۔
" حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب روایت میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے تو اسے مطلق رکھا جائے گا،کسی مدت کی تعین جائز نہیں،اس سے ان لوگوں کی تائید ہوتی ہے جو خیار کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کرتے۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ خیار کی مدت تین دن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
ان کے نزدیک خیار کی مدت تین دن سے زیادہ ہویا کوئی مدت مقرر ہی نہ کی جائے تو بیع باطل ہوجاتی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیع جائز ہے اور جتنی مدت ٹھہرائی جائے اتنی مدت تک اختیار رہے گا۔
چونکہ اس مسئلے میں فقہائے کرام کا اختلاف تھا،اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جزم ووثوق کے ساتھ عنوان بندی نہیں کی بلکہ استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے۔
بہرحال جب بیع میں خیار کا وقت معین نہ کیا جائے تو بیع لازم ہوجاتی ہے اور اسے نسخ نہیں کیا جاسکتا بلکہ بشرطیکہ اس میں کوئی عیب ظاہر نہ ہوجائے جسے پہلے سے نہ بتایا گیا ہو۔
(فتح الباری: 4/414)
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، خریدنے والے اور بیچنے والے کو (توڑ دینے کا)
اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔
یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنے دوسرے فریق سے یہ نہ کہہ دے کہ پسند کرلو۔
کبھی یہ بھی کہا کہ یا اختیار کی شرط کے ساتھ بیع ہو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA)
:
Allah's Apostle (ﷺ) said, "The seller and the buyer have the option of cancelling or confirming the deal unless they separate, or one of them says to the other, 'Choose (i.e. decide to cancel or confirm the bargain now)
." Perhaps he said, 'Or if it is an optional sale.' " Ibn Umar (RA)
, Shuraih, Ash-
Shabi, Tawus, Ata, and Ibn Abu Mulaika agree upon this judgment. ________ حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2127٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2109٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1967٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2109٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
2003٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2048٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2109٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2109١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2109 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔
شافعیہ اورحنفیہ کے نزدیک خیار الشرط کی مدت تین دن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
اگر اس سے زائد مدت ٹھہرے یا کوئی مدت معین نہ ہو تو بیع باطل ہو جاتی ہے اور ہمارے امام احمد اور اسحا ق اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ بیع جائز ہے اور جتنی مدت ٹھہرائے اتنی مدت تک اختیار رہے گا اور جو کوئی مدت معین نہ ہو تو ہمیشہ اختیار رہے گا اور اوزاعی اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ خیار الشرط باطل ہوگی اور بیع لازم ہوگی۔
(وحیدی)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2109   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.