الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
85. باب فِي الإِكْسَالِ
85. باب: دخول سے انزال کے بغیر غسل کے حکم کا بیان۔
Chapter: Intercourse Without Ejaculation.
حدیث نمبر: 214
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني عمرو يعني ابن الحارث، عن ابن شهاب، حدثني بعض من ارضي، ان سهل بن سعد الساعدي اخبره، ان ابي بن كعب اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما جعل ذلك رخصة للناس في اول الإسلام لقلة الثياب، ثم امر بالغسل ونهى عن ذلك"، قال ابو داود: يعني الماء من الماء.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي بَعْضُ مَنْ أَرْضَي، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ ذَلِكَ رُخْصَةً لِلنَّاسِ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ لِقِلَّةِ الثِّيَابِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُسْلِ وَنَهَى عَنْ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي الْمَاءَ مِنَ الْمَاءِ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہو گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نهى عن ذلك» یعنی ممانعت سے مراد «الماء من الماء» (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه: الترمذي/كتاب الطهارة / باب: ما جاء أن الماء من الماء/ ح: 111، 110، وابن ماجه/أبواب التيمم/ باب: ما جاء فى وجوب الغسل من التقاء الختانين/ ح: 609 من حديث ابن شهاب الزهري عن سهل بن سعد به، وقال الترمذي: ”حسن صحيح“، وصرح الزهري بالسماع من سهل بن سعد عند ابن خزيمة، ح:226 وغيره، رواه البيهقي: 1/ 165 من حديث أبى داود به، (تحفة الأشراف: 27) (صحيح)»
اگلی سند نیز دیگر اسانید سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ایک مبہم راوی ہیں، علماء کی تصریح کے مطابق یہ مبہم راوی ابوحازم ہیں، نیز زہری خود سہل سے بھی براہ راست روایت کرتے ہیں۔ دیکھئے: حاشیہ ترمذی از علامہ احمد محمد شاکر۔

Ubayy bin Kaab reported: The Messenger of Allah ﷺ made a concession in the early days of Islam on account of the paucity of clothes that one should not take a bath if one has sexual intercourse (and has no seminal emission). But later on her commanded to take a bath in such a case and prohibited its omission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 214


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (448)
وصرح الزھري بالسماع من سھل بن سعد عند ابن خزيمة (226) وغيره

   سنن أبي داود214أبي بن كعبإنما جعل ذلك رخصة للناس في أول الإسلام لقلة الثياب أمر بالغسل ونهى عن ذلك
   سنن أبي داود215أبي بن كعبرخصة رخصها رسول الله في بدء الإسلام أمر بالاغتسال بعد
   سنن ابن ماجه609أبي بن كعبكانت رخصة في أول الإسلام أمرنا بالغسل بعد
   جامع الترمذي111أبي بن كعبإنما كان الماء من الماء في اول الإسلام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 215  
´ابتدائے اسلام میں زوجین کے لیے اجازت`
«. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنّ الْفُتْيَا الَّتِي كَانُوا يَفْتُونَ أَنَّ الْمَاءَ مِنَ الْمَاءِ كَانَتْ رُخْصَةً رَخَّصَهَا رَسُولُ اللَّهِ فِي بَدْءِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالِاغْتِسَالِ بَعْدُ . . .»
. . . سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو یہ فتوی دیا کرتے تھے کہ پانی، پانی سے (لازم آتا) ہے (یعنی منی کے انزال ہونے پر ہی غسل واجب ہوتا ہے) یہ رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں دی تھی پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کرنے کا حکم دیا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 215]
فوائد و مسائل:
➊ تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں زوجین کے لیے اجازت تھی کہ مباشرت کے موقع پر اگر انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں۔ اس کیفیت کو ایک بلیغ انداز میں بیان فرمایا: پانی پانی سے (لازم آتا) ہے۔ یعنی غسل کا پانی منی کا پانی نکلنے ہی پر لازم آتا ہے، مگر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور فرمایا: ختنہ ختنے سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ درج ذیل احادیث میں ذکر آ رہا ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا الفاظ اور احکام اب احتلام کی صورت کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں۔ یعنی اگر خواب میں کچھ دیکھا ہو اور جسم یا کپڑوں پر تری اور اثر نمایاں ہو یا کسی اور صورت میں منی کا اخراج ہو تو غسل واجب ہو گا ورنہ نہیں۔ البتہ بیوی سے ہم بستری کرنے کے بعد ہر صورت میں غسل واجب ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 215   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 110  
´منی نکلنے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان۔`
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صرف منی (نکلنے) پر غسل واجب ہوتا ہے، یہ رخصت ابتدائے اسلام میں تھی، پھر اس سے روک دیا گیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 110]
اردو حاشہ: 1؎:
اورحکم دیا گیا کہ منی خواہ نکلے یا نہ نکلے اگرختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے توغسل واجب ہوجائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 110   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.