الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
61. بَابُ بَيْعِ الْغَرَرِ وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ:
61. باب: دھوکے کی بیع اور حمل کی بیع کا بیان۔
(61) Chapter. Al-Gharar (the sale of what is not present) and Habal-il-Habala (i.e., the sale of what is in the womb of an animal).
حدیث نمبر: 2143
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع حبل الحبلة"، وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية، كان الرجل يبتاع الجزور إلى ان تنتج الناقة، ثم تنتج التي في بطنها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ"، وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْجَزُورَ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ، ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔ اس بیع کا طریقہ جاہلیت میں رائج تھا۔ ایک شخص ایک اونٹ یا اونٹنی خریدتا اور قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرتا کہ ایک اونٹنی جنے پھر اس کے پیٹ کی اونٹنی بڑی ہو کر جنے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle forbade the sale called 'Habal-al-Habala which was a kind of sale practiced in the Pre- Islamic Period of ignorance. One would pay the price of a she-camel which was not born yet would be born by the immediate offspring of an extant she-camel.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 353


   صحيح البخاري3843عبد الله بن عمريتبايعون لحوم الجزور إلى حبل الحبلة قال وحبل الحبلة أن تنتج الناقة ما في بطنها ثم تحمل التي نتجت فنهاهم النبي عن ذلك
   صحيح البخاري2256عبد الله بن عمريتبايعون الجزور إلى حبل الحبلة فنهى النبي عنه
   صحيح البخاري2143عبد الله بن عمربيع حبل الحبلة
   صحيح مسلم3810عبد الله بن عمريتبايعون لحم الجزور إلى حبل الحبلة وحبل الحبلة أن تنتج الناقة ثم تحمل التي نتجت فنهاهم رسول الله عن ذلك
   صحيح مسلم3809عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن أبي داود3380عبد الله بن عمربيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4627عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4628عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4629عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن ابن ماجه2197عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم502عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى ان تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها
   بلوغ المرام662عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة،‏‏‏‏ وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية
   مسندالحميدي706عبد الله بن عمرنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع حبل الحبلة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 502  
´غیر موجود چیز بیچنے کا حکم`
«. . . 240- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانور کے پیٹ میں) حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور یہ سودا تھا جو اہل جاہلیت ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے۔ آدمی اس اونٹ کا سودا کرتا تھا کہ اونٹنی ایک بچی جنے گی پھر اس سے جو اونٹ پیدا ہو گا وہ میرا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 502]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2143، من حديث مالك، و مسلم 1514، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ جو چیز موجود ہی نہیں ہے اس کا بیچنا ممنوع ہے۔
➋ سد ذرائع کے طور پر بعض امور سے منع کیا جا سکتا ہے۔
➌ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ اتفاق اور ہم آہنگی رہے۔
➍ حبل الحبلہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بیع کی میعاد یہ مقرر کر لے کہ جب تک یہ جنے پھر اس کا بچہ بھی جنے۔ یہ میعاد مجہول ہے اس لئے منع ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 240   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2197  
´جانوروں کے پیٹ اور تھن میں جو ہو اس کی بیع یا غوطہٰ خور کے غوطہٰ کی بیع ممنوع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2197]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (بَيْعُ حَبَلِ الْحَبَلَةِ)
کا ایک مطلب یہ ہے کہ جانور کا بچہ پیدائش سے پہلے خریدا اور بیچا جائے، یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں غرر ہے۔
معلوم نہیں وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث، صحیح ہوگا یا عیب دار۔

(2)
  اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز خرید کر ادائیگی کی میعاد کسی جانور کے بچہ دینے تک مقرر کی جائے۔
یہ مجہول مدت ہے، اس لیے یہ بھی منع ہے۔

(3)
  اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ فلاں حاملہ جانور سے پیدا ہونے والا بچہ جب بڑا ہو کر بچہ دے گا، وہ جانور میں بیچتا ہوں، یا کسی دوسری چیز کی رقم کی ادائیگی اس وقت ہوگی۔
اس میں بھی غرر اورمدت نامعلوم ہے۔
معلوم نہیں اس حاملہ جانور سے مذکر پیدا ہوگا یا مؤنث، اور مؤنث ہوا تو اس سے کب بچہ پیدا ہوگا۔

(4)
  ادھار کی ادائیگی کے لیے مدت کا وضح تعین ہونا چاہیے، پھر اگر مقروض آدمی اس وقت ادا نہ کر سکےتو مزید مہلت مانگ لے۔
یا مدت کا تعین کیا ہی نہ جائے، مقروض اپنی سہولت کے مطاق ادا کردے۔
مقروض کو اس طرح سہولت دینا بہت فضیلت والا عمل ہے، تاہم مقروض اس سہولت کی وجہ سے قرض کی ادائیگی سے بے نیاز نہ ہو جائے بلکہ قرض خواہ کے حق میں دعا کرتا رہے اور ادائیگی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہے۔
اس میں تساہل یا کوتاہی نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2197   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 662  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے اور یہ بیع دور جاہلیت میں تھی کہ آدمی اونٹنی اس شرط پر خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دے گا جب اونٹنی بچہ جنے، پھر وہ بچہ جو اونٹنی کے پیٹ میں ہے وہ (ایک آگے بچہ) جنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 662»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الغرر وحبل الحبلة، حديث:2143، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع حبل الحبلة، حديث:1514.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنین کی فروخت ممنوع ہے‘ جبکہ وہ اپنی ماں کے شکم میں ہو۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مادہ کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے‘ اس کا بچہ فروخت کرنا ممنوع ہے‘ یعنی اونٹنی کے حمل کا حمل۔
اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع معدوم اور مجہول دونوں پہلو رکھتی ہے۔
اور اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرح یہ دھوکے کی بیع ہے۔
اور یہ قول بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں: کسی شے کی بیع اس وقت تک کرنا کہ اونٹنی بچہ جنم دے‘ یا اس اونٹنی کا بچہ جوان ہو کر بچہ جنے۔
اس میں نہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع ایسی ہے جس کی مدت نامعلوم ہے۔
2.حدیث میں مذکور ممنوع بیع کی جو تفسیر وَکَانَ بَیْعًا…الخ کے الفاظ کے ساتھ منقول ہے‘ وہ نافع یا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادائیگی ٔ قیمت کی میعاد مقرر کی جاتی تھی‘ اس طرح کہ جو بچہ اس وقت اونٹنی کے پیٹ میں زیر پرورش ہے اس کے جوان ہونے پر اس سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس اونٹ کی قیمت ہوگی۔
اس تفسیر کو امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
وہ اس صورت میں ممانعت کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی کی میعاد غیر متعین ہے‘ اس لیے ایسی بیع بھی ممنوع ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 662   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3380  
´دھوکہ کی بیع منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حبل الحبلة» (بچے کے بچہ) کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3380]
فوائد ومسائل:
(حبل الحبلة) حاملہ کا حمل اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کوئی سودا کیا جاتا تو اس کی ادایئگی کےلئے ایک مجہول لمبی مدت مقرر کی جاتی۔
کہ جب یہ اونٹنی مادہ بچہ جنے گی پھر وہ حاملہ ہوگی۔
تو اس وقت ادایئگی ہوگی۔
ایک مفہوم یہ بھی آتا ہے کہ میں تجھ سے اس حاملہ اونٹنی کے بچے کے بچے کی بیع کرتا ہوں۔
جیسا کہ اگلی ر وایت میں آرہا ہے یہ ناجائز ہے۔
اس میں دھوکا ہے۔
نہ معلوم یہ بچہ جنے گی یا نہیں۔
اور پھر پیدا ہونے والا نر ہوگا یا مادہ اور نہ معلوم وہ کب حاملہ ہو۔
اس حدیث میں اس جاہلی رواج کی بھی تردید اور ممانعت ہے۔
جو ہمارے پنجاب اور سندھ کے بعض خاندانوں میں مروج ہے۔
یہ یہ لوگ رشتے ناتے میں وٹہ سٹہ کرتے ہوئے جب مقابلے میں لڑکی موجود نہ ہو تو شرط کرلیتے ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ ہونے والی لڑکی ہمیں دینا ہوگی۔
اسے وہ لوگ پیٹ دینے یا تھنداساک (آیئندہ پیدا ہونے والا رشتہ دینا) سے تعبیر کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3380   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2143  
2143. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "حبل الحبلة" کی بیع سے منع فرمایا۔ یہ بیع زمانہ جاہلیت میں بایں صورت رائج تھی کہ ایک شخص کوئی اونٹنی اس وعدے پر خریدکرتا کہ جب وہ بچہ جنے گی۔، پھر وہ بڑی ہو کر بچہ جنم دے تب اس کی قیمت ادا کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2143]
حدیث حاشیہ:
اسلام سے پہلے عرب میں یہ دستور بھی تھا کہ حاملہ اونٹنی کے حمل کو بیچ دیا جاتا۔
اس بیع کو دھوکے کی بیع قرار دے کر منع کیا گیا۔
حدیث بالا کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی قرض وغیرہ کی مدت حاملہ اونٹنی کے حمل کے پیدا ہونے پھر اس پر پیدا ہونے والی اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت مقرر کی جاتی تھی، یہ بھی ایک دھوکہ کی بیع تھی، اس لیے اس سے بھی منع کیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2143   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2143  
2143. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "حبل الحبلة" کی بیع سے منع فرمایا۔ یہ بیع زمانہ جاہلیت میں بایں صورت رائج تھی کہ ایک شخص کوئی اونٹنی اس وعدے پر خریدکرتا کہ جب وہ بچہ جنے گی۔، پھر وہ بڑی ہو کر بچہ جنم دے تب اس کی قیمت ادا کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2143]
حدیث حاشیہ:
(1)
دھوکے کی بیع یہ ہے کہ پرندہ ہوا میں اڑرہا ہے یا مچھلی دریا میں تیر رہی ہے یا ہرن جنگل میں بھاگ رہا ہے اسے پکڑنے سے پہلے بیچ ڈالے۔
اسی طرح وہ غلام یا لونڈی جو بھاگ گئے ہوں جنھیں خریدار کے سپرد کرنے کی قدرت نہ ہو انھیں فروخت کرنا بھی دھوکے کی بیع ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے دھوکے کی بیع کے متعلق کوئی صریح حدیث پیش نہیں کی بلکہ حبل الحبله کی ممانعت سے استنباط کیا ہے۔
ممکن ہے کہ انھوں نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جسے امام احمد نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا۔
(مسند أحمد: 114/2)
دھوکے کی بیع میں کئی ایک بیوع شامل ہیں۔
معدوم، مجہول اور مبہم اشیاء کی بیع بھی اس میں شامل ہے۔
(3)
حبل الحبله کی تفسیر میں کئی اقوال مروی ہیں جن میں سے ایک مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اونٹنی کے بچے کےبچے کی بیع کی جائے۔
دونوں تفسیروں کے مطابق یہ بیع باطل ہے کیونکہ پہلی تفسیر کے مطابق قیمت کی ادائیگی کی مدت مجہول ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق یہ معدوم کی بیع ہے۔
یہ دونوں ممنوع ہیں۔
(فتح الباري: 451/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2143   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.