الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
83. بَابُ بَيْعِ الثَّمَرِ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ:
83. باب: درخت پر پھل، سونے اور چاندی کے بدلے بیچنا۔
(83) Chapter. The selling of dates still on trees for gold or silver.
حدیث نمبر: 2190
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال: سمعت مالكا، وساله عبيد الله بن الربيع، احدثك داود، عن ابي سفيان، عن ابي هريرةرضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم" رخص في بيع العرايا في خمسة اوسق، او دون خمسة اوسق؟ قال: نعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكًا، وَسَأَلَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الرَّبِيعِ، أَحَدَّثَكَ دَاوُدُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ؟ قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، ان سے عبیداللہ بن ربیع نے پوچھا کہ کیا آپ سے داؤد نے سفیان سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق یا اس سے کم میں بیع عریہ کی اجازت دے دی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں!

Narrated Abu Huraira: The Prophet allowed the sale of the dates of 'Araya provided they were about five Awsuq (singular: Wasaq which means sixty Sa's) or less (in amount).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 395


   صحيح البخاري2382عبد الرحمن بن صخررخص النبي في بيع العرايا بخرصها من التمر فيما دون خمسة أوسق
   صحيح البخاري2190عبد الرحمن بن صخررخص في بيع العرايا في خمسة أوسق
   صحيح مسلم3892عبد الرحمن بن صخررخص في بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة أوسق
   جامع الترمذي1301عبد الرحمن بن صخربيع العرايا فيما دون خمسة أوسق
   سنن أبي داود3364عبد الرحمن بن صخربيع العرايا فيما دون خمسة أوسق
   سنن النسائى الصغرى4545عبد الرحمن بن صخررخص في العرايا أن تباع بخرصها في خمسة أوسق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم492عبد الرحمن بن صخرارخص فى بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق؛ او فى خمسة اوسق شك داود فى خمسة او دون خمسة
   بلوغ المرام713عبد الرحمن بن صخررخص في بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق او في خمسة اوسق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 492  
´بیع عرایا`
«. . .ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ارخص فى بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق؛ او فى خمسة اوسق شك داود فى خمسة او دون خمسة. . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «عَريهّ» والے کو درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں یا انگوروں کو اندازے سے (اُکّا) بیچنے کی اجازت دی بشرطیکہ یہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم ہوں، پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم میں داود (بن الحصین راوی)کو شک ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 492]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2190، ومسلم 75/541، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ کھجور کا درخت جس کا پھل مالک کسی دوسرے شخص کو بطور تحفہ یا بطور صدقہ عاریتاً کھانے کے لئے دے تو وہ عُریہ کہلاتا ہے جس کی جمع عرایا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ انگور وغیرہ پھلوں میں بھی ہو سکتا ہے۔
➋ محمد بن اسحاق بن یسار المدنی نے فرمایا: عریہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو کھجوروں کے درخت ہبہ کر دے پھر اس شخص پر ان کی دیکھ بھال مشکل ہو تو وہ اندازے سے کھجوریں لے کر انھیں بیچ دے۔ [سنن ابي داؤد: 3366 وسنده صحيح]
➌ بعض علماء کہتے ہیں کہ عُریہ صرف اسی کو بیچنے کی اجازت ہے جس نے کسی دوست یا غریب کو یہ درخت اس سال کے پھل کے لئے تحفتاً دیا ہے یعنی یہ سودا صرف مالک ہی کر سکتا ہے۔
➍ یہ حدیث آنے والی حدیث [158] کے عموم کی تخصیص ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 157   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 713  
´بیع عرایا، درختوں اور (ان کے) پھلوں کی بیع میں رخصت`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں اجازت و رخصت عنایت فرما دی۔ بایں صورت کہ تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض اندازے سے فروخت کر لیا جائے، جبکہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 713»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الثمر علي رؤوس النخل بالذهب أو الفضة، حديث:2190، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الرطب بالتمر إلا في العرايا، حديث:1541.»
تشریح:
1. اس حدیث میں پانچ وسق سے کم یا زیادہ سے زیادہ پانچ وسق تک فروخت کی اجازت ہے‘ مگر یہ راوی کا شک ہے۔
جس راوی کو شک ہے اس کا نام داود بن حصین ہے۔
اس شک کی وجہ سے پانچ وسق سے کم مقدار کی فروخت ہی درست ہوگی۔
ایک وسق میں تقریباً چار من ہوتے ہیں تو پانچ وسق کی مقدار تقریباً بیس من ہوئی۔
اس طرح گویا بیس من سے کم تک کی فروخت کی اجازت ہے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خرص‘ یعنی اندازہ و تخمینہ شرع میں جائز ہے بشرطیکہ تخمینہ لگانے والا اس فن سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو اور کسی کی رو رعایت کیے بغیر ایمان داری سے اندازہ لگاتا ہو‘ ایسی صورت میں ایک آدمی کا تخمینہ بھی درست تسلیم کیا جائے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 713   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3364  
´بیع عریہ کس مقدار تک درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک عرایا کے بیچنے کی رخصت دی ہے (یہ شک داود بن حصین کو ہوا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جابر کی حدیث میں چار وسق تک ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3364]
فوائد ومسائل:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا اس حساب سے ایک وسق کا وزن تقریبا 150 کلو اور پانچ وسق کا وزن تقریبا 750 کلو تقریبا 19 من ہواس دور میں 5 وسق ایک اونٹ کا بوجھ سمجھا جاتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3364   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2190  
2190. عبیداللہ بن ربیع نے امام مالک سے پوچھا: کیا آپ سے داود نے سفیان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع عرایا کی اجازت دی ہے بشرط یہ کہ وہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم ہوں؟انھوں(امام مالک ؒ) نے کہا: ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2190]
حدیث حاشیہ:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
ایک صاع پونے چھ رطل کا۔
جیسا کہ اوپر گزراہے اکثر خیرات اس کے اندر کی جاتی ہے تو آپ نے یہ حد مقرر فرما دی۔
ابوحنيفہ ؒ کا یہ کہنا کہ عرایا کی حدیث منسوخ ہے یا معارض ہے مزابنہ کی حدیث کے، صحیح نہیں۔
کیوں کہ نسخ کے لیے تقدیم تاخیر ثابت کرنا ضروری ہے اور معارضہ جب ہوتا کہ مزابنہ کی نہی کے ساتھ عرایا کا استثناء نہ کیا جاتا۔
جب آنحضرت ﷺ نے مزابنہ سے منع فرماتے وقت عرایا کو مستثنی کردیا تو اب تعارض کہاں رہا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قَالَ بن الْمُنْذِرِ ادَّعَى الْكُوفِيُّونَ أَنَّ بَيْعَ الْعَرَايَا مَنْسُوخٌ بِنَهْيهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ وَهَذَا مَرْدُودٌ لِأَنَّ الَّذِي رَوَى النَّهْيَ عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ هُوَ الَّذِي رَوَى الرُّخْصَةَ فِي الْعَرَايَا فَأَثْبَتَ النَّهْيَ وَالرُّخْصَةَ مَعًا قُلْتُ وَرِوَايَةُ سَالِمٍ الْمَاضِيَةُ فِي الْبَابِ الَّذِي قَبْلَهُ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ الرُّخْصَةَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا وَقَعَ بَعْدَ النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الثَّمر بِالتَّمْرِ وَلَفظه عَن بن عُمَرَ مَرْفُوعًا وَلَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ بِالتَّمْرِ قَالَ وَعَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ وَهَذَا هُوَ الَّذِي يَقْتَضِيهِ لَفْظُ الرُّخْصَةِ فَإِنَّهَا تَكُونُ بَعْدَ مَنْعٍ وَكَذَلِكَ بَقِيَّةُ الْأَحَادِيثِ الَّتِي وَقَعَ فِيهَا اسْتِثْنَاءُ الْعَرَايَا بَعْدَ ذِكْرِ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِيضَاحَ ذَلِكَ۔
(الفتح الباري)
یعنی بقول ابن منذر اہل کوفہ کا یہ دعویٰ کہ بیع عرایا کی اجازت منسوخ ہے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے درخت پر کی کھجوروں کو سوکھی کھجوروں کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
اور اہل کوفہ کا یہ دعویٰ مردو د ہے اس لیے کہ نہی کی روایت کرنے والے روای ہی نے بیع عرایا کی رخصت بھی روایت کی ہے۔
پس انہوں نے نہی اور رخصت ہر دو کو اپنی اپنی جگہ ثابت رکھا ہے اور میں کہتا ہوں کہ سالم کی روایت جو بیع عرایا کی رخصت میں مذکور ہو چکی ہے، وہ بیع الثمر بالتمر کی نہی کے بعد کی ہے اور ان کے لفظ ابن عمر ؓ سے مرفوعاً یہ ہے کہ نہ بیچو (درخت پر کی)
کھجور کو خشک کھجور سے۔
کہا کہ زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے بعد بیع عرایا کی رخصت دے دی، اور یہ رخصت ممانعت کے بعد کی ہے اور اسی طرح بقایا احادیث ہیں جن میں بیع الثمر بالتمر کے بعد بیع عرایا کی رخصت کا مستثنی ہونا مذکور ہے اور میں (ابن حجر)
واضح طور پر پہلے بھی اسے بیان کر چکا ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2190   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2190  
2190. عبیداللہ بن ربیع نے امام مالک سے پوچھا: کیا آپ سے داود نے سفیان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع عرایا کی اجازت دی ہے بشرط یہ کہ وہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم ہوں؟انھوں(امام مالک ؒ) نے کہا: ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2190]
حدیث حاشیہ:
(1)
کھجور جب درخت پر ہوتو اسے خشک کھجور کے عوض خریدنا منع ہے، البتہ اسے درہم ودینار اور دیگر سامان کے عوض خریدنا جائز ہے۔
حدیث میں اگر چہ سونے چاندی کا ذکر ہے لیکن وہ امر واقعہ کے اعتبار سے ہے کیونکہ اس وقت لوگ درہم و دینار کے ذریعے سے معاملات کرتے تھے۔
ممانعت صرف تازہ پھل کی خشک پھل کے عوض ہے، البتہ عرایا کو ایک محدود مقدار میں پھلوں کے عوض خریدا جاسکتا ہے۔
دوسری حدیث میں پانچ وسق یا اس سے کم کی مقدار بیان ہوئی ہے، اس لیے اگر درخت پر لگی کھجوروں کا اندازہ پانچ وسق یا اس سے کم کا ہو تو بیع عرایا جائز ہے اس سے زیادہ کی جائز نہیں، تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کا جواز پانچ سے کم میں محدود کردیا جائے۔
(2)
بعض فقہاء کے نزدیک بیع عرایا منسوخ ہے۔
ان احادیث کے پیش نظر ان کا موقف محل نظر ہے۔
نیز نسخ کے لیے تقدیم وتاخیر کو ثابت کرنا ضروری ہے جبکہ اس سے قبل حدیث میں ممانعت کے بعد رخصت کا واضح ذکر ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2184،2183)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2190   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.