الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
18. بَابُ مَا جَاءَ فِي السِّوَاكِ
18. باب: مسواک کا بیان​۔
حدیث نمبر: 22
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة ". قال ابو عيسى: وقد روى هذا الحديث محمد بن إسحاق، عن محمد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن زيد بن خالد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابي سلمة، عن ابي هريرة , وزيد بن خالد، عن النبي صلى الله عليه وسلم كلاهما عندي صحيح، لانه قد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث، وحديث ابي هريرة إنما صح، لانه قد روي من غير وجه، واما محمد بن إسماعيل فزعم ان حديث ابي سلمة، عن زيد بن خالد اصح. قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي بكر الصديق , وعلي , وعائشة , وابن عباس , وحذيفة , وزيد بن خالد , وانس , وعبد الله بن عمرو , وابن عمر , وام حبيبة , وابي امامة , وابي ايوب , وتمام بن عباس , وعبد الله بن حنظلة , وام سلمة , وواثلة بن الاسقع , وابي موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلَاهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ، وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّمَا صَحَّ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل فَزَعَمَ أَنَّ حَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ , وَعَلِيٍّ , وَعَائِشَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَحُذَيْفَةَ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , وَأَنَسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَابْنِ عُمَرَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَتَمَّامِ بْنِ عَبَّاسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ , وَأُمِّ سَلَمَةَ , وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ , وَأَبِي مُوسَى.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بروایت ابوسلمہ، ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی الله عنہما کی مروی دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کا خیال ہے کہ ابوسلمہ کی زید بن خالد رضی الله عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے ۲؎،
۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، علی، عائشہ، ابن عباس، حذیفہ، زید بن خالد، انس، عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، ام حبیبہ، ابوامامہ، ابوایوب، تمام بن عباس، عبداللہ بن حنظلہ، ام سلمہ، واثلہ بن الاسقع اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 8 (887)، والتمنی 9 (7240)، صحیح مسلم/الطہارة 15 (252)، سنن ابی داود/ الطہارة 25 (46)، سنن النسائی/الطہارة 7 (7)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 7 (287)، (تحفة الأشراف: 15056)، موطا امام مالک/الطہارة 32 (14)، سنن الدارمی/الطہارة 17 (710)، والصلاة 168 (1525)، (تحفة الأشراف: 15056) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت و حرج کو دور رکھنا ہے، اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے، رہا مسواک کا مسنون ہونا تو وہ علی حالہ باقی ہے۔
۲؎: امام بخاری نے اس طریق کو دو وجہوں سے راجح قرار دیا ہے: ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابوسلمہ کا یہ کہنا ہے کہ زید بن خالد مسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (287)

   صحيح البخاري7240عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك
   صحيح البخاري887عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على الناس لأمرتهم بالسواك مع كل صلاة
   صحيح مسلم589عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على المؤمنين لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة
   جامع الترمذي22عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة
   جامع الترمذي167عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم أن يؤخروا العشاء إلى ثلث الليل أو نصفه
   سنن أبي داود46عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على المؤمنين لأمرتهم بتأخير العشاء وبالسواك عند كل صلاة
   سنن النسائى الصغرى7عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة
   سنن النسائى الصغرى535عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بتأخير العشاء وبالسواك عند كل صلاة
   سنن ابن ماجه690عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بتأخير العشاء
   سنن ابن ماجه691عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأخرت صلاة العشاء إلى ثلث الليل أو نصف الليل
   سنن ابن ماجه287عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم53عبد الرحمن بن صخرلولا ان اشق على الناس او على المؤمنين لامرتهم بالسواك
   مسندالحميدي994عبد الرحمن بن صخرلا يصلين أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقه منه شيء
   مسندالحميدي995عبد الرحمن بن صخرلولا أن أشق على المؤمنين لأمرتهم بتأخير العشاء والسواك عند كل صلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 53  
´مسواک کی اہمیت`
«. . . 321- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لولا أن أشق على الناس أو على المؤمنين لأمرتهم بالسواك . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے لوگوں یا مومنوں کی مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ضرور مسواک (کرنے) کا حکم دیتا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 53]

تحقیق
صحيح: [ابن شهاب الزهري عنعن و لحديثه شاهد صحيح عند اَحمد 2/ 250، وبه صح الحديث]

تخریج:
[الموطارواية يحييٰ 1 /66 ح143، ك2 ب32 ح115]، [التمهيد7 /194، الاستذكار: 122]، [٭ واخرجه النسأئي فى الكبري 2/ 198 ح3405، من حديث عبدالرحمن بن القاسم عن مالك قال: حدثني ابن شهاب به وللمرفوع شاهد عند أحمد 2/ 250ح7406، وسنده صحيح، وانظر صحيح البخاري 887، و صحيح مسلم 252، والحديث الآتي: 321]
تفقہ:
➊ مسواک واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے اور فطرت (دین اسلام) میں سے ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 261]
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل واجب (فرض) ہے الا یہ کہ کوئی صحیح دلیل اور قرینۂ صارفہ اسے وجوب سے استحباب وغیرہ کی طرف پھیر دے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بےحد مہربان تھے۔ آپ ہر وقت اپنے امتیوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ نیز دیکھئے [سورة التوبه 128]
➍ مسواک منہ کو پاک کرنے والی اور رب کی رضامندی ہے۔ [سنن النسائي 1/ 10 ح5 وسنده حسن و هو حديث صحيح]
➎ مسواک کو استعمال کر نے سے پہلے دھونا چاہئے۔ [ديكهئے سنن ابي داود: 52 و سنده حسن لذاته و حسنه النودي فى المجموع 1/ 283]
➏ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی مسواک پانی میں بھیگی رہتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 1/ 170ح 1801 و سنده حسن]
➐ ابن عمر رضی اللہ عنہ روزے کی حالت میں مسواک کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ [ابن ابي شيبه 3/ 35 ح 9149 و سنده صحيح] آپ فرماتے: روزے دار کے لیے خشک اور تر (دونوں طرح کی) مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [ابن ابي شيبه 3/ 37 ح 9173، سنده صحيح]
بعض علماء تر مسواک کو مکروہ سمجھتے تھے لیکن راجح یہی ہے کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
➑ امام شعبی (تابعی) نے کہا: مسواک منہ کی صفائی اور آنکھوں کی جلاء (روشنی) ہے۔ [ابن ابي شيبه 1/ 170ح1796، و سنده صحيح]
ہر نماز سے پہلے اور ہر وضو سے پہلے مسواک کا حکم میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ہر نماز سے پہلے سے بھی یہی مراد لیا جائے گا کہ وضو سے پہلے مسواک کی جائے۔ اگر ہر نماز سے پہلے مسواک کر لی جائے تو بھی جائز ہے۔ «والله اعلم»
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 321   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 887  
´جمعہ کے دن مسواک کی فضیلت`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 887]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب سے ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمعہ کے دن مسواک کرنے کی فضیلت کو اجاگر فرما رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اگر امت پر شاق نہ ہوتا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم کرتا، تو اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ جب تمام نمازوں کے لئے مسواک واجب کر دی جاتی تو یقیناً نماز جمعہ میں بھی بالاولیٰ واجب ہو جاتی کیونکہ جمعہ کی نماز میں پانچوں نمازوں سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور بڑا اجتماع ہوا کرتا ہے۔

دوسری حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم سے مسواک کرنے کی خوبی بارہا کہی۔
اس میں مناسبت یہ ہے کہ مسواک میں غفلت اور سستی نہ کرو مسواک کی عادت ڈالو لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی خوبی بار بار واضح فرمائی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمیشہ مسواک کو استعمال کرنا مشکل ہے، لہٰذا ایک دن مسواک کا متعین کرنا مشکل نہیں باقی دنوں میں بہتر دن جمعہ کا ہے اور جمعہ کو روز خوشبو لگانا صاف ستھرے کپڑے پہننا مشروع ہے اور اسی دن مسواک کا بھی استعمال بہترین عمل میں داخل ہے۔

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے استدلال اور مطابقت (ترجمۃ الباب کی) یہ ہے کہ جب مسواک کرنا پنج وقتہ نمازوں میں ثابت ہوا تو جمعہ کے روز جس میں غسل وغیرہ ہے تو مسواک کرنا بالاولیٰ ثابت ہو گا۔ [التوضيح، ج8، ص421]

تنبیہ:
مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ابن حزم رحمہ اللہ اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں کہ مسواک کرنا جمعہ کے روز فرض ہے، اور محدث اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منقول ہے کہ:
«هو واجب لكل صلاة فمن تركه عامداً بطلت صلاته»
مسواک کرنا واجب ہے ہر نماز کے لیے پس جس نے جان کر اسے چھوڑ دیا تو اس کی نماز باطل ہو گی۔ [فتح الباري، ج8، ص123]

◈ لیکن ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس قول کی نسبت ابن راھویہ کی طرف درست نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج8، ص123]
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح سے ہوئی کہ عام نمازوں میں مسواک کرنا مشروع ہے تو جمعہ کے روز بھی بالاولیٰ مشروع ہو گا۔ کیونکہ اس دن نظافت، غسل اور عطر کے استعمال کی خاص ترغیب موجود ہے۔

تیسری حدیث جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت تہجد میں مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے تو اس میں تطبیق یہ ہے کہ رات کی نماز تنہا نماز ہے اور جمعہ کی نماز میں خوشبو کا استعمال کا حکم ہے تو لہٰذا اس نماز میں بطریق اولی مسواک کرنے کا بھی حکم شامل ہو گیا لہٰذا مطابقت اس حدیث سے باب کی ظاہر ہو گئی۔ اس حدیث پر مزید بحث إن شاء اللہ باب «طول القيام فى صلاة الليل» میں آئے گی۔

فائدہ نمبر ➊
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الحكمة فى استحباب السواك عند القيام إلى الصلاة كونها حالاً تقرب إلى الله» [فتح الباري ج2 ص478]
مسواک کرنے کی حکمت نماز میں اس لیے ہے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

◈ ابن دقیق العید مزید فرماتے ہیں کہ:
مسواک کرنے میں بہت زیادہ ستھرائی اور عبادت کا شرف کا اظہار ہوتا ہے۔
ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے کئی ایک اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ آپ نے مذکورہ حدیث پر فقھی تبصرہ کرتے ہوئے 32 مسائل کو اجاگر فرمایا ہے۔ دیکھئے: [شرح الالمام، ج3، ص53 تا 91]

فائدہ نمبر ➋
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو ہر وقت منہ صاف رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیا ہے۔ برش سے دانتوں کی اچھی طرح صفائی ممکن نہیں اگر ہو بھی جائے لیکن اس کے بعد دانتوں پر میل (PLAQUE) کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ مسواک ایک ایسی چیز ہے جو دانتوں کے جملہ امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔
پاکستان میں 1985ء میں دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی مختلف پودوں کی شاخوں پر جدید طبّی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات سے مسواک پیلو کے ضمن میں نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے اس مقصد کے لیے استعمال کی جانے والی شاخوں کا خروحیاتی طور پر جراثیم کے خلاف تقابلی جائزہ لیا گیا ان نباتات کے نام حسب ذیل ہیں۔
① نیم (MELIA AZADIRACHTA LINN)
② کیکر (ACACIA ARABICA WILLD)
③ پھلاہی (ACACIA MODESTA WILLD)
④ مسواک / پیلو (SELVADORA PERSICA LINN)
⑤ کرنج (PONGAMIA GLABRA VENT)
ان تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر افریقی ممالک، جنوبی ایشیا، امریکہ کے گرم علاقے اور شمالی علاقوں میں درج بالا نباتات کی شاخیں اور جڑیں دانتوں اور منہ کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
مسواک یا پیلو کو مجموعی طور پر لعاب دہن سے حاصل کئے گے بیکٹریا کے خلاف موثر پایا گیا اور اس کے مانع جراثیم ((ANTI MICROBIAL) جراثیم کش (GERMICDAL) اور مانع فخج (FUNGICIDAL) اثرات کا میعار بقایہ تمام نبات سے بہتر پایا گیا۔ (MEDICAL AND GENERAL PHYSIOLOGY)

◈ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے۔ ① اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔۔۔ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندر تک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏ [حجة الله البالغة ج1 ص183]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 204   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 887  
´ جمعہ کے دن مسواک کرنا `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/بَابُ السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: 887]

تخريج الحديث:
[142۔ البخاري فى: 11 كتاب الجمعة: 8 باب السواك يوم الجمعة 887، مسلم 252، أبوداود 46، نسائي 533]
فھم الحدیث:
اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت و رحمت کا پتہ چلتا ہے کہ جس کام سے امت مشقت میں پڑ سکتی تھی آپ نے اس کا حکم ہی نہیں فرمایا۔ علاوہ ازیں یہ حدیث دلیل ہے کہ مسواک کرنا واجب نہیں۔ البتہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ضرور ہے جسے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فرمان نبوی کے مطابق مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔ [صحيح: صحيح الترغيب 209، إرواء الغليل 66، أحمد 124/6، حميدي 162]
اور جس روایت میں ہے کہ مسواک کے ساتھ نماز عام نماز سے ستر گنا افضل ہے، اسے اہل علم نے ضعیف کہا: ہے۔ [ضعيف: أحمد 272/6، ابويعلي 4738]
➊ شیخ عبدالرزاق مہدی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [التعليق على شرح فتح القدير 23/1]
➋ شیخ شعیب أرنؤوط نے کہا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند منقطع ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ حدیث امام زہری رحمہ اللہ سے نہیں سنی۔ [مسند أحمد محقق 26340]
➌ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: اس روایت کی کوئی سند بھی صحیح نہیں اور یہ روایت باطل ہے۔ [تلخيص الحبير 68/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 142   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 7  
´روزہ دار کے لیے شام کے وقت مسواک کی رخصت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے لیے باعث مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 7]
7۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ مسواک کرنا فرض ہے نہ جزو وضو، البتہ یہ عمل مؤکد اور مستحب ہے۔
ہر نماز کے وقت کے عموم کے تحت پچھلے پہر کی نمازیں (ظہر و عصر) بھی آ جاتی ہیں، لہٰذا ہر نمازی مسواک کر سکتا ہے، روزے دار ہو یا غیر روزے دار، جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے روزے دار کے لیے پچھلے پہر مسواک کرنے کو اچھا نہیں سمجھا کہ اس سے خلوف (منہ کی وہ بو جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے روزے دار کے منہ سے نکلتی ہے) زائل ہونے کا خطرہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسواک سے میل کچیل اور بدبو دور ہوتی ہے (جواللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے) نہ کہ خلوف کیونکہ اس کا تعلق تو معدے سے ہے۔
➌ بعض اہل علم کا قول ہے کہ ہر نماز کے وقت سے مراد وضو کے وقت مسواک کرنا ہے نہ کہ عین نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت کیونکہ اس صورت میں کلی کیے بغیر منہ کی آلودگی ختم نہ ہو گی۔ لیکن مذکورہ بالا توجیہ ظاہر نص کے خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص التزام سے مسواک کرتا ہے اس کا منہ آلودگی سے عموماً صاف ہی ہوتا ہے، لہٰذا اس مسئلے میں وارد احادیث کے الفاظ مختلف ہیں، بعض میں عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اور بعض میں عِنْدَ کُلِّ وُضُوءٍ اور کچھ کے الفاظ ہیں مَعَ الْوُضُوءِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اس لیے ان روایات کے ظاہر کے پیش نظر اکثر علماء کا یہی موقف ہے کہ عین نماز کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے۔ اس طریقے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے جبکہ کراہت کا موقف ان کے ہاں بے دلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے [السلفية‘ 51/1، طبعة جديدة]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 7   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث287  
´مسواک کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 287]
اردو حاشہ:
(1)
مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلي صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ اس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔

(2)
حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دے دینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔

(3)
رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔
اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔
آپﷺ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرما کر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔

(4)
  شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
 (إِنِّي اُرْسِلْتُ بِحَنِيْفِيَّةٍ سَمْحَةٍ) (مسند احمد: 116/2)
 بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو، کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں۔
یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
  ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ﴾  (البقرة: 85/2)
كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدلہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اورآخرت میں انہیں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیا جائے گا (5)
ہر نماز کے وقت ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔

(6)
اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 287   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 22  
´مسواک کا بیان​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 22]
اردو حاشہ:
1؎:
مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت و حرج کو دور رکھنا ہے،
اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے،
رہا مسواک کا مسنون ہونا تو وہ علی حالہ باقی ہے۔

2؎:
امام بخاری نے اس طریق کو دو وجہوں سے راجح قرار دیا ہے:
ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابو سلمہ کا یہ کہنا ہے کہ زید بن خالد مسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے،
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 22   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.