الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں
The Book of Quarrels
3. بَابُ مَنْ بَاعَ عَلَى الضَّعِيفِ وَنَحْوِهِ:
3. باب: اور اگر کسی نے کسی کم عقل کی کوئی چیز بیچ کر اس کی قیمت اسے دے دی۔
(3) Chapter. If somebody sells a thing for a weak-minded person and pays him the price.
حدیث نمبر: Q2414
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
فدفع ثمنه إليه، وامره بالإصلاح والقيام بشانه، فإن افسد بعد منعه لان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن إضاعة المال، وقال للذي يخدع في البيع: إذا بايعت فقل لا خلابة، ولم ياخذ النبي صلى الله عليه وسلم ماله.فَدَفَعَ ثَمَنَهُ إِلَيْهِ، وَأَمَرَهُ بِالْإِصْلَاحِ وَالْقِيَامِ بِشَأْنِهِ، فَإِنْ أَفْسَدَ بَعْدُ مَنَعَهُ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَقَالَ لِلَّذِي يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ: إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ، وَلَمْ يَأْخُذْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالَهُ.
‏‏‏‏ اور اس نے اپنی اصلاح کرنے اور اپنا خیال رکھنے کے لیے کہا، لیکن اس نے اس کے باوجود مال برباد کر دیا تو اسے اس کے خرچ کرنے سے حاکم روک دے گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے جو خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتا تھا فرمایا تھا کہ جب تو کچھ خرید و فروخت کرے تو کہا کر کہ کوئی دھوکے کا کام نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال اپنے قبضے میں نہ لیا۔

حدیث نمبر: 2414
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، قال: كان رجل يخدع في البيع، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا بايعت، فقل لا خلابة"، فكان يقوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا بَايَعْتَ، فَقُلْ لَا خِلَابَةَ"، فَكَانَ يَقُولُهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک صحابی کوئی چیز خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جب تو خریدا کرے تو یہ کہہ دے کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ پس وہ اسی طرح کہا کرتے تھے۔

Narrated Ibn `Umar: A man was often cheated in buying. The Prophet said to him, "When you buy something, say (to the seller), No cheating." The man used to say so thenceforward .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 597


   صحيح البخاري2407عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح البخاري2414عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح البخاري6964عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح البخاري2117عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة
   صحيح مسلم3860عبد الله بن عمرمن بايعت فقل لا خلابة
   سنن أبي داود3500عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل لا خلابة فكان الرجل إذا بايع يقول لا خلابة
   سنن النسائى الصغرى4489عبد الله بن عمرإذا بعت فقل لا خلابة فكان الرجل إذا باع يقول لا خلابة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم509عبد الله بن عمرإذا بايعت فقل: لا خلابة
   بلوغ المرام694عبد الله بن عمر إذا بايعت فقل لا خلابة
   مسندالحميدي677عبد الله بن عمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 509  
´خرید و فروخت کے وقت دھوکا ہونے کی صورت میں کیا کہے`
«. . . 288- وبه: أن رجلا ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه يخدع فى البيوع، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا بايعت فقل: لا خلابة فكان الرجل إذا بايع يقول: لا خلابة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جس کے ساتھ خرید و فروخت میں دھوکا کیا جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: جب تم کوئی چیز بیچو تو کہو، کوئی دھوکا نہیں ہے، پھر وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو کہتا: کوئی دھوکا نہیں ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 509]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2117، 6964، من حديث مالك، ومسلم 1533، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ سودا کرتے وقت اگر کوئی کہہ دے کہ کوئی دھوکا نہیں ہے اور بعد میں ثابت ہوجائے کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے تو وہ سودا واپس کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
➋ جس شخص کا اس حدیث میں ذکر ہے وہ سیدنا منقذ بن حبان رضی اللہ عنہ تھے۔
➌ اسلام ہر شخص کے لئے خیر خواہی کا نام ہے۔
➍ فریقین کی مرضی سے خرید و فروخت حلال ہے بشرطیکہ کتاب وسنت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو۔
➎ مشہور تابعی سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تم ایسے علاقے میں جاؤ جہاں پورا پورا ماپ تول ہوتا ہو تو اس علاقے میں لمبا عرصہ قیام کرو اور اگر تم ایسے علاقے میں جاؤ جہاں ماپ تول پورا پورا نہیں ہوتا تو وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرو۔ [الموطأ 2/685 ح1430، وسنده صحيح]
➏ امام محمد بن المنکدر (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے تھے: اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے، خریدتے وقت نرمی کرتا ہے، قرض ادا کرتے وقت نرمی کرتا ہے اور قرض وصول کرتے وقت بھی نرمی کرتا ہے۔ [الموطأ 2/685 ح1431، وسنده صحيح]
➐ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا: ایک شخص (کسی سے) ایک جانور کرائے پر لیتا ہے اور پھر اس سے زیادہ کرائے پر کسی کو دے دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [الموطأ 2/686 ح432 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 288   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 694  
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ذکر کیا کہ اسے بیع میں عام طور پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سودا کرتے وقت کہہ دیا کرو کہ کوئی فریب و دھوکہ نہیں ہو گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 694»
تخریج:
«  أخرجه البخاري، البيوع، باب ما يكره من الخداع في البيع، حديث:2117، ومسلم، البيوع، باب من يخدع في البيع، حديث:1533.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غبن فاحش کے معلوم ہونے پر خیار ثابت ہے۔
یہ رائے امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ کی ہے‘ مگر جمہور علماء اس کے قائل نہیں ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ حبان بن منقذ کو بالخصوص یہ اجازت اس لیے دی کہ ان کی عقل اور زبان میں کمزوری واقع ہوگئی تھی جیسا کہ مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
(مسند أحمد:۳ /۲۱۷) صحیح بات یہ ہے کہ لاَ خِلاَبَۃَ کی صدا لگانا بھی اپنی جگہ ایک طرح کی شرط ہے جس سے ثابت ہورہا ہے کہ دھوکے اور فریب کی صورت میں مشتری کے لیے خیار ثابت ہے اور خیار الشرط بھی اسی کو کہتے ہیں۔
2.آپ نے جو الفاظ ان کو تلقین فرمائے ان الفاظ کی برکت سے انھیں بعد میں کبھی دھوکا نہیں ہوتا تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 694   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3500  
´خریدار اگر یہ کہہ دے کہ بیع میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی تو اس کو بیع کے فسخ کا اختیار ہو گا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ خرید و فروخت میں اسے دھوکا دے دیا جاتا ہے (تو وہ کیا کرے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جب تم خرید و فروخت کرو، تو کہہ دیا کرو «لا خلابة» (دھوکا دھڑی کا اعتبار نہ ہو گا) تو وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو «لا خلابة» کہہ دیتا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3500]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس شرط اور صراحت کے ساتھ اگر بعد میں واضح ہو کہ دوسرے فریق نے کوئی دھوکا دیا ہے۔
تو اسے بیع فسخ کرنے کا حق حاصل رہے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3500   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.