الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
The Book of Al-Mazalim
2. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ} :
2. باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ ہود میں یہ فرمانا کہ ”سن لو! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “…No doubt! The curse of Allah is on the Zalimun (polytheists, oppressors, and the wrong-doers) (V.11:18)
حدیث نمبر: 2441
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا همام، قال: اخبرني قتادة، عن صفوان بن محرز المازني، قال:" بينما انا امشي مع ابن عمر رضي الله عنهما، آخذ بيده إذ عرض رجل، فقال: كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في النجوى، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله يدني المؤمن، فيضع عليه كنفه ويستره، فيقول: اتعرف ذنب كذا، اتعرف ذنب كذا، فيقول: نعم، اي رب حتى إذا قرره بذنوبه، وراى في نفسه انه هلك، قال: سترتها عليك في الدنيا، وانا اغفرها لك اليوم، فيعطى كتاب حسناته، واما الكافر والمنافقون، فيقول: الاشهاد هؤلاء الذين كذبوا على ربهم، الا لعنة الله على الظالمين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي قَتَادَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ:" بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، آخِذٌ بِيَدِهِ إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ يُدْنِي الْمُؤْمِنَ، فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَيَسْتُرُهُ، فَيَقُولُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، أَيْ رَبِّ حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ، وَرَأَى فِي نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ، قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، فَيُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُونَ، فَيَقُولُ: الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے قتادہ نے خبر دی، ان سے صفوان بن محرزمازنی نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جا رہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے (قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آ جائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ (ملائکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبردار ہو جاؤ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔

Narrated Safwan bin Muhriz Al-Mazini: While I was walking with Ibn `Umar holding his hand, a man came in front of us and asked, "What have you heard from Allah's Apostle about An-Najwa?" Ibn `Umar said, "I heard Allah's Apostle saying, 'Allah will bring a believer near Him and shelter him with His Screen and ask him: Did you commit such-and-such sins? He will say: Yes, my Lord. Allah will keep on asking him till he will confess all his sins and will think that he is ruined. Allah will say: 'I did screen your sins in the world and I forgive them for you today', and then he will be given the book of his good deeds. Regarding infidels and hypocrites (their evil acts will be exposed publicly) and the witnesses will say: These are the people who lied against their Lord. Behold! The Curse of Allah is upon the wrongdoers." (11.18)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 621


   صحيح البخاري7514عبد الله بن عمرسترت عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاري6070عبد الله بن عمرسترت عليك في الدنيا فأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاري2441عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم فيعطى كتاب حسناته وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد هؤلاء الذين كذبوا على ربهم ألا لعنة الله على الظالمين
   صحيح البخاري4685عبد الله بن عمريدنى المؤمن من ربه
   صحيح مسلم7015عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وإني أغفرها لك اليوم فيعطى صحيفة حسناته وأما الكفار والمنافقون فينادى بهم على رءوس الخلائق هؤلاء الذين كذبوا على الله
   سنن ابن ماجه183عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم ثم يعطى صحيفة حسناته وأما الكافر فينادى على رءوس الأشهاد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث183  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ» (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔
اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مخاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔
جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔

(2)
اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے ﴿وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا﴾ (مریم: 56)
 ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا قرب بخشا۔
اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

(3)
اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 183   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2441  
2441. حضرت صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کاہاتھ تھامے ان کے ساتھ جا رہا تھا، اچانک ایک شخص سامنے سے آکر کہنے لگا: آپ نے"نحوی" یعنی (قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بندے سے) سرگوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بُلالے گا اور اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپا لے گا، پھر فرمائے گا: تجھے اپنا فلاں گناہ معلوم ہے؟تجھے اپنا فلاں گناہ یادہے؟تو وہ کہے گا: جی ہاں، یارب!مجھے معلوم ہے حتیٰ کہ اس سے تمام گناہوں کااقرار کرالے گا۔ اور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گا کہ وہ اب تباہ ہوچکا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھ پر دنیا میں پردہ ڈالا، آج تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر نیکیوں کا ریکارڈ اس کے ساتھ میں دے دیا جائے گا لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2441]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو کتاب الغصب میں امام بخاری ؒ ا س لیے لائے کہ آیت میں جو یہ وارد ہے کہ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے تو ظالموں سے کافر مراد ہیں اور مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہے۔
اس سے ظلم کا بدلہ گو ضرور لیا جائے گا، پر وہ ملعون نہیں ہو سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2441   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2441  
2441. حضرت صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کاہاتھ تھامے ان کے ساتھ جا رہا تھا، اچانک ایک شخص سامنے سے آکر کہنے لگا: آپ نے"نحوی" یعنی (قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بندے سے) سرگوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بُلالے گا اور اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپا لے گا، پھر فرمائے گا: تجھے اپنا فلاں گناہ معلوم ہے؟تجھے اپنا فلاں گناہ یادہے؟تو وہ کہے گا: جی ہاں، یارب!مجھے معلوم ہے حتیٰ کہ اس سے تمام گناہوں کااقرار کرالے گا۔ اور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گا کہ وہ اب تباہ ہوچکا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھ پر دنیا میں پردہ ڈالا، آج تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر نیکیوں کا ریکارڈ اس کے ساتھ میں دے دیا جائے گا لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2441]
حدیث حاشیہ:
(1)
نجٰوی کے معنی سرگوشی کے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے فرمائے گا۔
یہ اس کا خاص فضل و کرم ہو گا کہ وہ درپردہ بندے کو اس کے گناہ بتائے گا اور اس سے ان کا اعتراف کرائے گا، پھر انہیں معاف کر دے گا۔
اس حدیث میں جن گناہوں کا ذکر ہے اس سے مراد حقوق العباد نہیں بلکہ وہ گناہ مراد ہیں جو صرف اللہ اور اس کے بندے کو معلوم ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا، نیز آیت کریمہ میں ظلم پیشہ لوگوں سے مراد کافر اور منافق ہیں، مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہو گا۔
اس سے ظلم کا بدلہ تو ضرور لیا جائے گا لیکن وہ ملعون قرار نہیں پائے گا۔
(2)
مجموعۂ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی ایک قسم تو وہ ہے جو دنیا میں در پردہ تھی، قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں پوشیدہ رکھ کر معاف کر دے گا، پھر کچھ گناہ ایسے ہوں گے جو علانیہ سرزد ہوئے ہوں گے جن کے ضمن میں حقوق العباد بھی ہیں جن پر گرفت ہو سکتی ہے۔
باقی رہے کفارومنافقین ان پر تو سب کے سامنے کھلے عام لعنت ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2441   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.