الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
52. بَابُ : الْيَدِ السُّفْلَى
52. باب: نیچے والے ہاتھ یعنی صدقہ قبول کرنے والے کا بیان۔
Chapter: The Lower Hand
حدیث نمبر: 2534
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو يذكر الصدقة والتعفف عن المسالة:" اليد العليا خير من اليد السفلى، واليد العليا المنفقة، واليد السفلى السائلة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:" الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالْيَدُ السُّفْلَى السَّائِلَةُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اس وقت آپ صدقہ و خیرات اور مانگنے سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے): اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے، اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 18 (1429)، صحیح مسلم/الزکاة 32 (1033)، سنن ابی داود/الزکاة 28 (1648)، (تحفة الأشراف: 8337)، موطا امام مالک/الصدقة 2 (8)، مسند احمد (2/97)، سنن الدارمی/الزکاة22 (1692) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   سنن النسائى الصغرى2534عبد الله بن عمراليد العليا خير من اليد السفلى واليد العليا المنفقة واليد السفلى السائلة
   صحيح البخاري1429عبد الله بن عمراليد العليا خير من اليد السفلى اليد العليا هي المنفقة والسفلى هي السائلة
   صحيح مسلم2385عبد الله بن عمراليد العليا خير من اليد السفلى واليد العليا المنفقة والسفلى السائلة
   سنن أبي داود1648عبد الله بن عمراليد العليا خير من اليد السفلى واليد العليا المنفقة والسفلى السائلة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم478عبد الله بن عمراليد العليا خير من اليد السفلى، واليد العليا المنفقة، والسفلى السائلة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 478  
´سائل کو دینے کو ترغیب`
«. . . 255- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو على المنبر وهو يذكر الصدقة والتعفف عن المسألة: اليد العليا خير من اليد السفلى، واليد العليا المنفقة، والسفلى السائلة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر صدقے اور مانگنے سے اجتناب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 478]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1429، ومسلم 94/1033، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ شرعی عذر کے بغیر مانگنا ممنوع ہے۔
➋ مستحق شخص کی امداد کرنے والا شخص افضل ہے۔
➌ لوگوں کی اصلاح کے لئے منبر پر مسائل بیان کرنا جائز بلکہ بہتر ہے۔
➍ اللہ کے راستے میں صدقات دیتے رہنا اہل ایمان کی نشانی ہے۔
➎ محنت کر کے مال و دولت کمانا تاکہ اس میں سے اللہ کے راستے میں، اپنے آپ پر، اپنے اہل وعیال اور دوست احباب پر خرچ کیا جائے، یہ بہت پسندیدہ کام ہے۔
➏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لايفتح الانسان عليٰ نفسه باب مسالته، الا فتح الله عليه باب فقر، يأخذ الرجل حبله فيعمد إلى الحبل فيحتطب عليٰ ظهره فيأكل به خير له من أن يسأل الناس معطيً أو ممنوعًا۔» جو شخص اپنے آپ پر سوال (لوگوں سے مانگنے) کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس پر فقر (غربت) کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ آدمی اپنی رسی لے کر پہاڑ پر چڑھے پھر اپنی پیٹھ پر لکڑیاں (رکھ کر) لے آئے تو اُس سے (یعنی انھیں بیچ کر) کھائے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، کوئی اسے دے اور کوئی دھتکار دے۔ [مسند أحمد 2/418 ح9421 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 255   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1648  
´سوال سے بچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ منبر پر تھے صدقہ کرنے کا، سوال سے بچنے اور مانگنے کا ذکر کر رہے تھے کہ: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اوپر والا ہاتھ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہاتھ ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث میں ایوب کی نافع سے روایت پر اختلاف کیا گیا ہے ۱؎، عبدالوارث نے کہا: «اليد العليا المتعففة» (اوپر والا ہاتھ وہ ہے جو مانگنے سے بچے)، اور اکثر رواۃ نے حماد بن زیدی سے روایت میں: «اليد العليا المنفقة» نقل کیا ہے (یعنی اوپر والا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے) اور ایک راوی نے حماد سے «المتعففة» روایت کی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1648]
1648. اردو حاشیہ: نیچے والے ہاتھ کو اعلیٰ اور افضل قراردینا بعض صوفیاء کی خود ساختہ بات ہے۔بقول ان کے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ غنی پر اپنے مال کا حق (صدقہ) دینا واجب ہوتا ہے۔اور جب تک وہ دے نہ چکے اور کوئی لے نہ لے وہ اپنے اس حق لازم سے بُری نہیں ہوسکتا۔چونکہ لینے والا اس کا مال لے کر گویا احسان کرتا اور اسے اس کے حق واجب سے بری کرتا ہے۔ اس لئے وہ افضل ہوا مگر بقول علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ یہ بات فطرت عرف اور شرع سب لہاظ سے باطل ہے۔الف)خود رسول اللہ ﷺنے دینے والے ہاتھ کو افضل فرمایا ہے۔جو اس رائے کے باطل ہونے کی صریح دلیل ہے۔(ب) آپ نے اسے نیچے والے ہاتھ کے بالمقابل خیر اور افضل فرمایا ہے۔ اور بلاشبہ دینا افضل ہے۔ نہ کہ لینا۔(ج)عرف ومعنی کے اعتبار سے بھی دینے والے کا ہاتھ سائل کے مقابلے میں افضل ہوا کرتا ہے۔(د)عطا ایک صفت مدح ہے۔جو انسان کے غنا کرم اور احسان کی دلیل ہے۔اس کے بالمقابل لینا ایک صفت نقص وعیب ہے جو فقر وحاجت مندی کا مظہر ہوتی ہے۔لہذا ان لوگوں کا یہ معنی کہ لینے والا ہاتھ افضل ہوتا ہے۔کسی طرح بھی معقول نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1648   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.