الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
9. بَابُ لاَ يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ:
9. باب: اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے۔
(9) Chapter. Do not be a witness for injustice, if asked for that.
حدیث نمبر: 2650
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا ابو حيان التيمي، عن الشعبي، عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما، قال: سالت امي ابي بعض الموهبة لي من ماله، ثم بدا له فوهبها لي، فقالت: لا ارضى حتى تشهد النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ بيدي وانا غلام، فاتى بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن امه بنت رواحة سالتني بعض الموهبة لهذا، قال: الك ولد سواه؟ قال: نعم، قال: فاراه؟ قال:" لا تشهدني على جور". وقال ابو حريز: عن الشعبي، لا اشهد على جور.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِي مِنْ مَالِهِ، ثُمَّ بَدَا لَهُ فَوَهَبَهَا لِي، فَقَالَتْ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَأَنَا غُلَامٌ، فَأَتَى بِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أُمَّهُ بِنْتَ رَوَاحَةَ سَأَلَتْنِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِهَذَا، قَالَ: أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأُرَاهُ؟ قَالَ:" لَا تُشْهِدْنِي عَلَى جَوْرٍ". وَقَالَ أَبُو حَرِيزٍ: عَنِ الشَّعْبِيِّ، لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان تیمی (یحییٰ بن سعید) نے، انہیں شعبی نے، اور ان سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میری ماں نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا (پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیونکہ دوسری بیوی کے بھی اولاد تھی) پھر راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کر دی۔ لیکن ماں نے کہا کہ جب تک آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی۔ چنانچہ والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی نوعمر تھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں، ہیں۔ نعمان رضی اللہ عنہ! نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا تو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا۔ اور ابوحریز نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا۔

Narrated An-Nu`man bin Bashir: My mother asked my father to present me a gift from his property; and he gave it to me after some hesitation. My mother said that she would not be satisfied unless the Prophet was made a witness to it. I being a young boy, my father held me by the hand and took me to the Prophet . He said to the Prophet, "His mother, bint Rawaha, requested me to give this boy a gift." The Prophet said, "Do you have other sons besides him?" He said, "Yes." The Prophet said, "Do not make me a witness for injustice." Narrated Ash-Shu`bi that the Prophet said, "I will not become a witness for injustice."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 818


   صحيح البخاري2650نعمان بن بشيرألك ولد سواه قال نعم قال فأراه قال لا تشهدني على جور
   صحيح البخاري2587نعمان بن بشيرأعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم
   صحيح البخاري2586نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثله قال لا قال فارجعه
   صحيح مسلم4178نعمان بن بشيرأكل بنيك نحلت قال لا قال فاردده
   صحيح مسلم4185نعمان بن بشيرأكل بنيك قد نحلت مثل ما نحلت النعمان قال لا قال فأشهد على هذا غيري ثم قال أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   صحيح مسلم4181نعمان بن بشيرأفعلت هذا بولدك كلهم قال لا قال اتقوا الله واعدلوا في أولادكم
   صحيح مسلم4186نعمان بن بشيرأكل ولدك أعطيته ما أعطيت هذا فقال لا فكره رسول الله أن يشهد له
   صحيح مسلم4182نعمان بن بشيرألك ولد سوى هذا قال نعم فقال أكلهم وهبت له مثل هذا قال لا قال فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   صحيح مسلم4177نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال رسول الله فارجعه
   صحيح مسلم4183نعمان بن بشيرألك بنون سواه قال نعم قال فكلهم أعطيت مثل هذ
   صحيح مسلم4184نعمان بن بشيرلأبيه لا تشهدني على جور
   صحيح مسلم4180نعمان بن بشيركل إخوته أعطيته كما أعطيت هذا قال لا قال فرده
   جامع الترمذي1367نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل ما نحلت هذا قال لا قال فاردده
   سنن أبي داود3542نعمان بن بشيركلهم أعطيت مثل ما أعطيت النعمان قال لا هذا جور وقال بعضهم هذا تلجئة فأشهد على هذا غيري
   سنن أبي داود3544نعمان بن بشيراعدلوا بين أولادكم اعدلوا بين أبنائكم
   سنن النسائى الصغرى3715نعمان بن بشيرألك ولد غيره قال نعم وصف بيده بكفه أجمع كذا ألا سويت بينهم
   سنن النسائى الصغرى3702نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت قال لا قال فاردده
   سنن النسائى الصغرى3703نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته قال لا قال رسول الله فارجعه
   سنن النسائى الصغرى3704نعمان بن بشيرأكل بنيك نحلت قال لا قال فارجعه
   سنن النسائى الصغرى3706نعمان بن بشيرأباه نحله نحلا فقالت له أمه أشهد النبي على ما نحلت ابني فأتى النبي فذكر ذلك له فكره النبي أن يشهد له
   سنن النسائى الصغرى3710نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل ما نحلته قال لا قال فلا أشهد على شيء أليس يسرك أن يكونوا إليك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   سنن النسائى الصغرى3709نعمان بن بشيركل بنيك نحلت مثل الذي نحلت النعمان
   سنن النسائى الصغرى3711نعمان بن بشيرألك ولد سوى هذا قال نعم فقال رسول الله أفكلهم وهبت لهم مثل الذي وهبت لابنك هذا قال لا قال رسول الله فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   سنن النسائى الصغرى3712نعمان بن بشيرألك ابن غير هذا قال نعم قال فوهبت له مثل ما وهبت لهذا قال لا قال فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   سنن النسائى الصغرى3717نعمان بن بشيراعدلوا بين أبنائكم
   سنن ابن ماجه2375نعمان بن بشيركل بنيك نحلت مثل الذي نحلت النعمان قال لا قال فأشهد على هذا غيري أليس يسرك أن يكونوا لك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   سنن ابن ماجه2376نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته قال لا قال فاردده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم283نعمان بن بشيراكل ولدك نحلته مثل هذا؟
   بلوغ المرام788نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل هذا ؟
   مسندالحميدي948نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل هذا؟
   مسندالحميدي951نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل هذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 283  
´ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل`
«. . . عن النعمان بن بشير انه قال: إن اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اكل ولدك نحلته مثل هذا؟ فقال: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارجعه. . . .»
. . . سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ابا انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام اپنی مرضی سے تحفہ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح غلام تحفے میں دئیے ہیں؟ تو انہوں (نعمان بن بشیر کے والد رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس (غلام) کو واپس لے لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 283]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2586، ومسلم 1623/9، من حديث مالك به .]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص بیماری سے پہلے اپنی اولاد کو کوئی چیز برابر برابر انصاف کے ساتھ بطور تحفہ ہبہ کرے تو جائز ہے۔ بیماری کی حالت میں کیا گیا ہبہ وصیت ہوتا ہے۔ صحیح احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
«والوصية للوارث باطلة» اور وارث کے لئے وصیت باطل ہے۔ [التمهيد 225/7]
➋ ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل ہے۔ اگر بعض اولاد کو دوسروں کی نسبت زیادہ تحفہ دیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے بشرطیکہ دوسری اولاد راضی ہو اورضرر نہ پایا جائے لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ برابر برابر ہی ہو۔
➌ ایک آدمی تحفہ دینے میں اپنی بعض اولاد کو بعض پر فضیلت دینا چاہتا تھا تو قاضی شریح رحمہ اللہ نے اسے ظلم قرار دیا اور گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/11، 222/11 ح 30989 وسنده صحيح، سعيد بن حيان تيمي ثقته]
➍ اس حدیث سے اشارتاً اور دوسری حدیث سے صراحتاً ثابت ہے کہ ہبہ واپس کرنا جائز نہیں ہے سوائے والد کے، وہ اپنی اولاد سے ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 3539 وسنده صحيح، سنن الترمذي 1299، وقال: حسن صحيح، وصححه ابن الجارود: 994 وابن حبان، الاحسان:5101 5123 والحاكم 46/2 والذهبي]
● بعض علماء کے نزدیک والدہ کا بھی یہی حکم ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 33   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2376  
´اپنی اولاد کو عطیہ دینے اور ہبہ کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسے ہی دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب اس کو واپس لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2376]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اولاد سے برابراسلوک کرنا چاہيے۔
روز مرہ کی ضروریات میں برابری یہ ہے کہ ہر ایک کواس کی ضرورت کےمطابق دیا جائے، مثلاً:
جس بچے کولباس کی ضرورت ہو اسےلباس مہیا کیا جائے۔
جسے علاج کی ضرورت ہو اس کاعلاج کرایا جائے۔
اس کے علاوہ عطیات میں برابر ضروری ہے۔

(2)
وراثت میں لڑکے اورلڑکی کےحصے میں فرق ہے لیکن عطیے میں یہ فرق نہیں۔

(3)
خریدوفروخت کی طرح قیمتی چیز ہبہ کرتے وقت بھی گواہ بنا لینا مناسب ہے۔

(4)
اولاد سے برابر حسن سلوک کا یہ فائدہ ہے کہ سب بچوں کےدل میں والدین کی محبت برابر ہو گی لہٰذا وہ بھی برابر احترام اورخدمت کرنے کی کوشش کریں گے۔

(5)
شرعی حکم بیان کرکے اس کی حکمت بھی بیان کردینے کا یہ فائدہ ہے کہ سائل مطمئن ہوجاتا ہےاورخوشی سےاس پرعمل کرتا ہے۔

(6)
والدین اپنی اولاد کوبہہ کی ہوئی چیز واپس لےسکتے ہیں۔

(7)
اگر لاعلمی میں کوئی ایسا کام ہو جائے جوشرعاً ممنوع ہوتو اس کی ہرممکن تلافی کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2376   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 788  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنا ذاتی غلام اپنے اس بیٹے کو ہبہ کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح (غلام) ہبہ کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اسے واپس کر لو اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ میرے والد صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میرے ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا تو نے ایسا اپنی ساری اولاد کے ساتھ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو چنانچہ میرے والد نے وہ ہبہ واپس کر لیا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر میرے سوا کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تیری ساری اولاد تیرے ساتھ یکساں بھلائی کا سلوک کرے؟ وہ بولا کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ایسا مت کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 788»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب الإشهاد في الهبة، حديث:2587، ومسلم، الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة،حديث:1623.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ اولاد کو‘ خواہ مذکر ہو یا مؤنث‘ عطیہ دینے میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔
امام احمد‘ ثوری اور اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ جب برابری نہ ہو تو ہبہ باطل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا کہ غلام کو واپس لے لو اسی کی تائید کرتا ہے۔
مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ برابری مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 788   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1367  
´عطیہ دینے اور اولاد کے درمیان برابری کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: تو اسے واپس لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1367]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اولاد کو ہبہ کر نے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے،
موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث (میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا،
اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے،
)
اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا،
امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے،
یہ لوگ شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1367   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3542  
´باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3542]
فوائد ومسائل:

والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔
اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔
تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔
جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔
علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اور دعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔
لیکن والدین مالی لحاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔
اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔


اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور اس طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔
بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔


ظلم کا گواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
(وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) (المائدة: 2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پر تعاون مت کرو

داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔


اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔
(علامہ البانی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3542   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2650  
2650. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری والدہ نے میرے باپ سے میرے لیے کچھ مال ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ والد نے کچھ سوچ و بچار کے بعد اسے میرے لیے کچھ مال دے دیا۔ پھر والدہ نے کہا: جب تک نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ نہ کرلو میں راضی نہیں، چنانچہ میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا کیونکہ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ اور مجھے نبی ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا: اس لڑکے کی ماں بنت رواحہ نے اس کے لیے مجھ سے ہبہ کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ تمھاری اور اولاد بھی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں!حضرت نعمان ؓ کہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔ ابو حریز کی شعبی سے بیان کردہ روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2650]
حدیث حاشیہ:
گواہ پر اگر یہ ظاہر ہے کہ یہ ظلم ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے ورنہ وہ بھی اس گناہ میں شریک ہوجائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2650   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2650  
2650. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری والدہ نے میرے باپ سے میرے لیے کچھ مال ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ والد نے کچھ سوچ و بچار کے بعد اسے میرے لیے کچھ مال دے دیا۔ پھر والدہ نے کہا: جب تک نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ نہ کرلو میں راضی نہیں، چنانچہ میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا کیونکہ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ اور مجھے نبی ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا: اس لڑکے کی ماں بنت رواحہ نے اس کے لیے مجھ سے ہبہ کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ تمھاری اور اولاد بھی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں!حضرت نعمان ؓ کہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔ ابو حریز کی شعبی سے بیان کردہ روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2650]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا حق مارتا ہے، پھر وہ اپنی زیادتی پر کسی کی تائید بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، کچھ احباب اس مقصد کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں۔
ایسا کرنا خود ایک زیادتی اور جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ظالم کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے بصورت دیگر وہ بھی اس گناہ میں شریک ہو جائے گا۔
(2)
ہبہ کے معاملے میں تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔
ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس کی مذکورہ حدیث سے ممانعت ثابت ہے۔
ابو حریز کی روایت کو امام ابن حبان ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح ابن حبان(ابن بلبان)
: 11/506)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2650   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.