الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
9. بَابُ لاَ يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ:
9. باب: اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے۔
(9) Chapter. Do not be a witness for injustice, if asked for that.
حدیث نمبر: 2651
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا ابو جمرة، قال: سمعت زهدم بن مضرب، قال: سمعت عمران بن حصين رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" خيركم قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم. قال عمران: لا ادري، اذكر النبي صلى الله عليه وسلم بعد قرنين او ثلاثة، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن بعدكم قوما يخونون ولا يؤتمنون، ويشهدون ولا يستشهدون، وينذرون ولا يفون، ويظهر فيهم السمن".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ. قَالَ عِمْرَانُ: لَا أَدْرِي، أَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلَا يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحمزہ نے بیان کیا کہ میں نے زہدم بن مضرب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ میں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے۔ (تبع تابعین) عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زمانوں کا (اپنے بعد) ذکر فرمایا یا تین کا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو چور ہوں گے، جن میں دیانت کا نام نہ ہو گا۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے۔ مٹاپا ان میں عام ہو گا۔

Narrated Zahdam bin Mudrab: I heard `Imran bin Husain saying, "The Prophet said, 'The best people are those living in my generation, then those coming after them, and then those coming after (the second generation)." `Imran said "I do not know whether the Prophet mentioned two or three generations after your present generation. The Prophet added, 'There will be some people after you, who will be dishonest and will not be trustworthy and will give witness (evidences) without being asked to give witness, and will vow but will not fulfill their vows, and fatness will appear among them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 819


   صحيح البخاري6428عمران بن الحصينخيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم بعدهم قوم يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن
   صحيح البخاري3650عمران بن الحصينخير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم بعدكم قوما يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن
   صحيح البخاري6695عمران بن الحصينخيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم ينذرون ولا يفون ويخونون ولا يؤتمنون ويشهدون ولا يستشهدون ويظهر فيهم السمن
   صحيح البخاري2651عمران بن الحصينخيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم بعدكم قوما يخونون ولا يؤتمنون ويشهدون ولا يستشهدون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن
   صحيح مسلم6475عمران بن الحصينخيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
   جامع الترمذي2222عمران بن الحصينخير أمتي القرن الذي بعثت فيهم ثم الذين يلونهم ينشأ أقوام يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون ويفشو فيهم السمن
   جامع الترمذي2221عمران بن الحصينخير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يأتي من بعدهم قوم يتسمنون ويحبون السمن يعطون الشهادة قبل أن يسألوها
   جامع الترمذي2302عمران بن الحصينخير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم من بعدهم يتسمنون ويحبون السمن يعطون الشهادة قبل أن يسألوها
   سنن أبي داود4657عمران بن الحصينخير أمتي القرن الذين بعثت فيهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يظهر قوم يشهدون ولا يستشهدون وينذرون ولا يوفون ويخونون ولا يؤتمنون ويفشو فيهم السمن
   سنن النسائى الصغرى3840عمران بن الحصينخيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ذكر قوما يخونون ولا يؤتمنون ويشهدون ولا يستشهدون وينذرون ولا يوفون ويظهر فيهم السمن
   بلوغ المرام1202عمران بن الحصين إن خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يكون قوم يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يوفون ويظهر فيهم السمن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1202  
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا زمانہ تمہارے تمام زمانوں سے بہتر ہے۔ پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے اور ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خائن ہوں گے، امین نہیں ہوں گے۔ نذر مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر و نمایاں ہو گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1202»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب لايشهد علي شهادة جور إذا أشهد، حديث:2651، ومسلم، فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة....، حديث:2535.»
تشریح:
1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔
تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔
حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔
2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔
3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔
لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1202   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2221  
´خیر کے تین عہد اور زمانے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ یہ لوگ دین وایمان کی فکر سے خالی ہوں گے،
کس کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا،
اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے،
اس لیے موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2221   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4657  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4657]
فوائد ومسائل:

اس صحیح حدیث میں صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کے ادوار کے متعلق اجمالی اور مجموعی طور پر بھلائی کی خبر دی گئی ہے۔


ان کے بعد وقار میں کمی ہوگی۔
دینداری میں ضعف آجائے گا اور آخرت کی فکر کم ہوجائے گی۔


اطباء کے قول کے مطابق آدمی کے جسم میں موٹاپا عام طور پر خوش خوراکی کے علاوہ بے فکری اور بے خوفی کی بناء پر آتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4657   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2651  
2651. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دورمیں ہیں، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے۔ حضرت عمران کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد کے دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور ان پر اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ وہ از خود گواہی دینے کی پیشکش کریں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ نذریں مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2651]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نہ گواہی میں ان کو باک ہوگا نہ قسم کھانے میں، جلدی کے مارے کبھی گواہی پہلے ادا کریں گے پھر قسم کھائیں گے۔
کبھی قسم پہلے کھالیں گے پھر گواہی دیں گے۔
حدیث کے جملہ ویشھدون ولا یستشھدون پر حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَبَرَهَا وَلَبَنَهَا وَوَلَدَهَا وَهِيَ الْمِنْحَةُ وَالْمَنِيحَةُ انْتَهَى وَقَالَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ الْمَنِيحَةُ بِالنُّونِ وَالْمُهْمَلَةِ وَزْنُ عَظِيمَةٍ هِيَ فِي الْأَصْلِ الْعَطِيَّةُ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ الْمَنِيحَةُ عِنْدَ الْعَرَبِ عَلَى وَجْهَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنْ يُعْطِيَ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ صِلَةً فَتَكُونَ لَهُ وَالْآخَرُ أَنْ يُعْطِيَهُ نَاقَةً أَوْ شَاةً يَنْتَفِعُ بِحَلْبِهَا وَوَبَرِهَا زَمَنًا ثُمَّ يَرُدَّهَا وَقَالَ الْقَزَّازُ قِيلَ لَا تَكُونُ الْمَنِيحَةُ إِلَّا نَاقَةً أَوْ شَاةً وَالْأَوَّلُ أَعْرَفُ انْتَهَى و ذهب آخرونَ إلیٰ الجمع بینهما الخ (فتح)
یعنی ویشهدون ولا یستشهدون سے زید بن خالد کی حدیث مرفوع معارض ہے، جسے امام مسلم نے روایت کی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں؟ وہ وہ لوگ ہوں گے کہ وہ طلبی سے پہلے ہی خود گواہی دے دیں۔
ہردواحادیث کی ترجیح میں علماءکا اختلاف ہے۔
ابن عبدالبر نے حدیث میں زید بن خالد (مسلم)
کو ترجیح دی ہے کیوں کہ یہ اہل مدینہ کی روایت ہے۔
اور حدیث مذکور اہل عراق کی روایت سے ہے۔
پس اہل عراق پر اہل مدینہ کو ترجیح حاصل ہے۔
انہوں نے یہاں تک مبالغہ کیا کہ حدیث عمران مذکورہ کو کہہ دیا کہ اس کی کوئی اصل نہیں (حالانکہ ان کا ایسا کہنا بھی صحیح نہیں ہے)
دوسرے علماءنے حدیث عمران کو ترجیح دی ہے۔
اس لیے کہ اس پر ہر دو اماموں امام بخاری و امام مسلم کا اتفاق ہے۔
اور حدیث زید بن خالد کو صرف امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
تیسرا گروہ ان علماءکا ہے جو ان ہر دو احادیث میں تطبیق دینے کا قائل ہے۔
پہلی تطبیق یہ دی گئی ہے کہ حدیث زید میں ایسے شخص کی گواہی مراد ہے جسے کسی انسان کا حق معلوم ہے اور وہ انسان خود اس سے لاعلم ہے، پس وہ پہلے ہی جاکر اس صاحب حق کے حق میں گواہی دے کر اس کا حق ثابت کردیتا ہے۔
یا یہ کہ اس شہادت کا کوئی اور عالم زندہ نہ ہو پر وہ اس شہادت کے مستحقین ورثہ کو خود مطلع کردے اور گواہی دے کر ان کو معلوم کرادے۔
اس جواب کو اکثر علماءنے پسند کیا ہے۔
اور بھی کئی توجیہات کی گئی ہیں جو فتح الباری میں مذکور ہیں۔
پس بہتر یہی ہے کہ ایسے تعارضات کو مناسب تطبیق سے اٹھایا جائے نہ کہ کسی صحیح حدیث کا انکار کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2651   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2651  
2651. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دورمیں ہیں، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے۔ حضرت عمران کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد کے دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور ان پر اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ وہ از خود گواہی دینے کی پیشکش کریں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ نذریں مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2651]
حدیث حاشیہ:
(1)
مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والی نسل دین سے درجہ بہ درجہ دور ہوتی چلی جائے گی، چنانچہ دور حاضر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دور اول سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
اس ظلم و ستم کے دور میں کوئی معقول شخص لوگوں کی بدکرداری کی وجہ سے کسی کو گواہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہو گا لیکن بدکردار لوگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے دوسروں کے معاملات میں ازخود دخل دیں گے۔
ایسے لوگوں پر موٹاپا آ جائے گا کیونکہ دولت کی ریل پیل ہو گی اور چربی کے نیچے ان کا ایمان اور ضمیر دب جائے گا۔
(2)
ان لوگوں سے گواہی اس لیے طلب نہیں کی جائے گی کہ وہ اسے صحیح طریقے پر ادا کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔
اس بنا پر ان کی گواہی ظلم کی گواہی ہو گی، نیز ان کا مقصد دولت اکٹھی کرنا ہو گا، خواہ وہ سچی گواہی سے حاصل ہو یا جھوٹی گواہی سے۔
جب سچی جھوٹی گواہی سے بے پروائی برتنے پر مذکورہ مذمت ہے تو جھوٹی گواہی تو انتہائی مذموم ہو گی۔
اگر کسی کی گواہی سے مظلوم کی مدد ہوتی ہو تو ایسی گواہی مطالبے کے بغیر دینا ضروری ہے۔
حدیث میں ایسی گواہی کی فضیلت آئی ہے۔
واضح رہے کہ طبعی موٹاپا قابل مذمت نہیں، البتہ حرام خوری کے نتیجے میں جو موٹاپا ظاہر ہو گا مذکورہ حدیث میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2651   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.