الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
18. بَابُ بُلُوغِ الصِّبْيَانِ وَشَهَادَتِهِمْ:
18. باب: بچوں کا بالغ ہونا اور ان کی شہادت کا بیان۔
(18) Chapter. The boys attaining the age of puberty and their validity of their witness.
حدیث نمبر: Q2664
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله تعالى: وإذا بلغ الاطفال منكم الحلم فليستاذنوا سورة النور آية 59، وقال مغيرة: احتلمت وانا ابن ثنتي عشرة سنة، وبلوغ النساء في الحيض لقوله عز وجل: واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إلى قوله ان يضعن حملهن سورة الطلاق آية 4، وقال الحسن بن صالح: ادركت جارة لنا جدة بنت إحدى وعشرين سنة.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا سورة النور آية 59، وَقَالَ مُغِيرَةُ: احْتَلَمْتُ وَأَنَا ابْنُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وَبُلُوغُ النِّسَاءِ فِي الْحَيْضِ لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِلَى قَوْلِهِ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنّ سورة الطلاق آية 4، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ: أَدْرَكْتُ جَارَةً لَنَا جَدَّةً بِنْتَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ سَنَةً.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ جب تمہارے بچے احتلام کی عمر کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں (گھروں میں داخل ہوتے وقت) اجازت لینی چاہئے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں احتلام کی عمر کو پہنچا تو میں بارہ سال کا تھا اور لڑکیوں کا بلوغ حیض سے معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ «وإذا بلغ الأطفال منكم الحلم فليستأذنوا‏» عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد «أن يضعن حملهن‏» تک۔ حسن بن صالح نے کہا کہ میں نے اپنی ایک پڑوسن کو دیکھا کہ وہ اکیس سال کی عمر میں دادی بن چکی تھیں۔

حدیث نمبر: 2664
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، قال: حدثني عبيد الله، قال: حدثني نافع، قال: حدثني ابن عمر رضي الله عنهما،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عرضه يوم احد وهو ابن اربع عشرة سنة، فلم يجزني، ثم عرضني يوم الخندق وانا ابن خمس عشرة سنة، فاجازني، قال نافع: فقدمت على عمر بن عبد العزيز وهو خليفة، فحدثته هذا الحديث، فقال: إن هذا لحد بين الصغير والكبير، وكتب إلى عماله ان يفرضوا لمن بلغ خمس عشرة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْنِي، ثُمَّ عَرَضَنِي يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَنِي، قَالَ نَافِعٌ: فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ خَلِيفَةٌ، فَحَدَّثْتُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَحَدٌّ بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، وَكَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ أَنْ يَفْرِضُوا لِمَنْ بَلَغَ خَمْسَ عَشْرَةَ".
ہم سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (جنگ پر جانے کے لیے) پیش ہوئے تو انہیں اجازت نہیں ملی، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے تو اجازت مل گئی۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ نافع نے بیان کیا کہ جب میں عمر بن عبدالعزیز کے یہاں ان کی خلافت کے زمانے میں گیا تو میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان (پندرہ سال ہی کی) حد ہے۔ پھر انہوں نے اپنے حاکموں کو لکھا کہ جس بچے کی عمر پندرہ سال کی ہو جائے (اس کا فوجی وظیفہ) بیت المال سے مقرر کر دیں۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle called me to present myself in front of him or the eve of the battle of Uhud, while I was fourteen years of age at that time, and he did not allow me to take part in that battle, but he called me in front of him on the eve of the battle of the Trench when I was fifteen years old, and he allowed me (to join the battle)." Nafi` said, "I went to `Umar bin `Abdul `Aziz who was Caliph at that time and related the above narration to him, He said, "This age (fifteen) is the limit between childhood and manhood," and wrote to his governors to give salaries to those who reached the age of fifteen.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 832


   صحيح البخاري4097عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   صحيح البخاري2664عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني ثم عرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني قال نافع فقدمت على عمر بن عبد العزيز وهو خليفة فحدثته هذا الحديث فقال إن هذا لحد بين الصغير والكبير وكتب إلى عماله أن يفرضوا لمن بلغ خمس عشرة
   صحيح مسلم4837عبد الله بن عمرعرضني رسول الله يوم أحد في القتال وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني
   جامع الترمذي1711عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله في جيش وأنا ابن أربع عشرة فلم يقبلني ثم عرضت عليه من قابل في جيش وأنا ابن خمس عشرة فقبلني
   جامع الترمذي1361عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله في جيش وأنا ابن أربع عشرة فلم يقبلني فعرضت عليه من قابل في جيش وأنا ابن خمس عشرة فقبلني
   سنن أبي داود2957عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن أبي داود4406عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن النسائى الصغرى3461عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن ابن ماجه2543عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله يوم أحد وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني
   بلوغ المرام731عبد الله بن عمرعرضت على النبي يوم احد وانا ابن اربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2543  
´جس پر حد واجب نہیں ہے اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (غزوہ میں شریک ہونے کی) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2543]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ پندرہ سال کی عمر بلوغت کی عمر ہے لہٰذااس عمر کےبچے کو بالغ شمار کرنا چاہیے۔

(2)
عام حالات میں بلوغت کی دوسری علامت پراعتماد کیا جاتا ہے مثلا:
زیر ناف بال آ جانا یا احتلام ہونا، لڑکیوں کا مہانہ نظام شروع ہونا۔
لیکن اگر کسی بچے یابچی میں مناسب عمرمیں یہ علامتیں ظاہرنہ ہوتوپندرہ سال عمر مکمل ہونے پرانھیں بالغ قرار دیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2543   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 731  
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے احد کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہیں سمجھا۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 731»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔
2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔
گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔
3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔
پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔
5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 731   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1711  
´حد بلوغت کا ذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1711]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بلوغت کی حدکو پہنچ جاتا ہے،
اسی طرح سے زیرناف بال نکل آنا اوراحتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے،
اور لڑکی کو حیض آجائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1711   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2957  
´لڑائی میں کس عمر کے مرد کا حصہ لگایا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر (۱۴) سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھر وہ غزوہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2957]
فوائد ومسائل:

بچہ پندرہ سال کی عمر میں بالغ شمار ہوتا ہے۔
اور شرعی امور کا مکلف ہوجاتا ہے۔
لہذا اسے جنگ وقتال میں بھی شریک کیا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے اسے جنگ میں لے جانا درست نہیں۔


اور جب جنگ میں شریک ہوگا۔
تو غنیمت میں سے باقاعدہ حصہ پائے گا۔


پندرہ سال یا علامات بلوغت سے پہلے اگر کسی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر شرعی حد لاگو نہیں ہوگی۔
تعزیر وتادیب ہوگی۔
اسی طرح اس کی دی ہوئی طلاق بھی نافذ العمل نہیں ہوگی۔
فیصلے میں اس کے ولی کی شمولیت ضروری ہوگی اور اسے اپنے مال سے باقاعدہ اور آزادانہ تصرف کا اختیار بھی اس کے بعد حاصل ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2957   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2664  
2664. حضرت ابن عمر ؓ سےروایت ہے کہ وہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ پھر میں خندق کے دن پیش ہواتو میری عمر پندرہ سال تھی تو آپ نے مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس آیا جبکہ آپ خلیفہ تھے تو میں نے آپ سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے فرمایا: یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے، انھوں نے اپنے حکام کولکھا کہ جولوگ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں ان کے نام دیوان میں لکھ لیا کریں اور ان کے وظیفے مقرر کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2664]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پندرہ سال کی عمر ہونے پر بچے پر شرعی احکام جاری ہوجاتے ہیں اور اس عمر میں وہ گواہی کے قابل ہوسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2664   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2664  
2664. حضرت ابن عمر ؓ سےروایت ہے کہ وہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ پھر میں خندق کے دن پیش ہواتو میری عمر پندرہ سال تھی تو آپ نے مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس آیا جبکہ آپ خلیفہ تھے تو میں نے آپ سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے فرمایا: یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے، انھوں نے اپنے حکام کولکھا کہ جولوگ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں ان کے نام دیوان میں لکھ لیا کریں اور ان کے وظیفے مقرر کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2664]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق جب بچے کی عمر پندرہ برس ہو جائے تو اس پر بالغوں کے احکام جاری ہو جاتے ہیں۔
اس پر عبادات، حدود اور دیگر احکام شریعت بھی اسی عمر میں لازم ہوں گے۔
اس عمر میں وہ جنگ میں شریک ہو سکے گا اور مال غنیمت کا حق دار ہو گا۔
اگر وہ حربی کافر ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔
اس عمر میں اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔
اگر اس عمر سے پہلے احتلام شروع ہو جائے تو بھی بلوغ کے احکام نافذ ہوں گے۔
(2)
احتلام سے مراد اچھلنے والے پانی کا اترنا ہے، خواہ جماع سے ہو یا حالت نیند میں۔
عورتوں کے لیے حیض کی آمد ان کے بالغ ہونے کی علامت ہے۔
اس میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
صحت اور علاقائی اثرات کے اعتبار سے عمر مختلف ہو سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2664   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.