الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
5. بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ:
5. باب: اگر ظلم کی بات پر صلح کریں تو وہ صلح لغو ہے۔
(5) CHAPTER If some people are (re)conciled on illegal basis, their (re)conciliation is rejected.
حدیث نمبر: 2696
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا ابن ابي ذئب، حدثنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابي هريرة، وزيد بن خالد الجهني رضي الله عنهما، قالا: جاء اعرابي، فقال" يا رسول الله، اقض بيننا بكتاب الله، فقام خصمه، فقال: صدق، اقض بيننا بكتاب الله، فقال الاعرابي: إن ابني كان عسيفا على هذا فزنى بامراته، فقالوا لي: على ابنك الرجم، ففديت ابني منه بمائة من الغنم ووليدة، ثم سالت اهل العلم، فقالوا: إنما على ابنك جلد مائة وتغريب عام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لاقضين بينكما بكتاب الله، اما الوليدة والغنم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، واما انت يا انيس لرجل فاغد على امراة هذا فارجمها، فغدا عليها انيس فرجمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ" يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَقَالُوا لِي: عَلَى ابْنِكَ الرَّجْمُ، فَفَدَيْتُ ابْنِي مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَقَالُوا: إِنَّمَا عَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ لِرَجُلٍ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَارْجُمْهَا، فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئیے۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیں۔ دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ قوم نے کہا تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا اور انیس تم (یہ قبیلہ اسلم کے صحابی تھے) اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کر دو (اگر وہ زنا کا اقرار کر لے) چنانچہ انیس گئے، اور (چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کر لیا تھا اس لیے) اسے رجم کر دیا۔

Narrated Abu Huraira and Zaid bin Khalid Al-Juhani: A bedouin came and said, "O Allah's Apostle! Judge between us according to Allah's Laws." His opponent got up and said, "He is right. Judge between us according to Allah's Laws." The bedouin said, "My son was a laborer working for this man, and he committed illegal sexual intercourse with his wife. The people told me that my son should be stoned to death; so, in lieu of that, I paid a ransom of one hundred sheep and a slave girl to save my son. Then I asked the learned scholars who said, "Your son has to be lashed one-hundred lashes and has to be exiled for one year." The Prophet said, "No doubt I will judge between you according to Allah's Laws. The slave-girl and the sheep are to go back to you, and your son will get a hundred lashes and one year exile." He then addressed somebody, "O Unais! go to the wife of this (man) and stone her to death" So, Unais went and stoned her to death.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 860


   صحيح البخاري6633لأقضين بينكما بكتاب الله أما غنمك وجاريتك فرد عليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيس الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت رجمها
   صحيح البخاري6836لأقضين بينكمابكتاب الله أما الغنم والوليدة فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام وأما أنت يا أنيس فاغد على امرأة هذا فارجمها
   صحيح البخاري6828لأقضين بينكما بكتاب الله جل ذكره المائة شاة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام
   صحيح البخاري6843لأقضين بينكما بكتاب الله أما غنمك وجاريتك فرد إليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت فارجمها فاعترفت فرجمها
   صحيح البخاري7279لأقضين بينكما بكتاب الله
   صحيح البخاري6860لأقضين بينكما بكتاب الله المائة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام و يا أنيس اغد على امرأة هذا فسلها فإن اعترفت فارجمها
   صحيح البخاري2696لأقضين بينكما بكتاب الله أما الوليدة والغنم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام وأما أنت يا أنيس لرجل فاغد على امرأة هذا فارجمها فغدا عليها أنيس فرجمها
   صحيح البخاري2725لأقضين بينكما بكتاب الله الوليدة والغنم رد وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام اغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها قال فغدا عليها فاعترفت فأمر بها رسول الله فرجمت
   صحيح البخاري7194لأقضين بينكما بكتاب الله أما الوليدة والغنم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام وأما أنت يا أنيس لرجل فاغد على امرأة هذا فارجمها
   صحيح مسلم4435لأقضين بينكما بكتاب الله الوليدة والغنم رد وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام واغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها
   جامع الترمذي1433لأقضين بينكما بكتاب الله المائة شاة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام واغد يا أنيس على امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها
   سنن أبي داود4445لأقضين بينكما بكتاب الله أما غنمك وجاريتك فرد إليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت رجمها فاعترفت فرجمها
   سنن النسائى الصغرى0أما المائة شاة والخادم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام اغد يا أنيس على امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها فغدا عليها فاعترفت فرجمها
   سنن النسائى الصغرى5412أما غنمك وجاريتك فرد إليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيسا أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت فارجمها فاعترفت فرجمها
   سنن ابن ماجه2549لأقضين بينكما بكتاب الله المائة الشاة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام واغد يا أنيس على امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم20اما والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله. اما غنمك وجاريتك فرد إليك
   مسندالحميدي830قل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 20  
´حدیث بھی کتاب اللہ ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله. اما غنمك وجاريتك فرد إليك . . .»
. . . رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا، تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 20]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6633, 6634، من حديث ما لك به ورواه مسلم 1697/25, 1698 من حديث الزهري به]

تفقه:
➊ شادی شدہ زانی کی سزا رجم سنگسار کرنا ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ ح: 41، البخاري 6749، ومسلم 1457]
➋ رجم کا صریحاً ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا سے معلوم ہوا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے لہٰذا رجم کا منکر گویا کتاب الله کا منکر ہے۔
➌ تمام اختلافات کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق کرنا چاہئے۔ امام سفیان بن عینیہ مکی رحمہ الله فرماتے تھے:
«إن رسول الله صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ هو الميزان الأكبر، فعليه تعرض الأشياء، على خلقه وسيرته وهديه فما وافقها فهو الحق وما خالفها فهو الباطل»
بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میزان اکبر ہیں۔ پس ہر چیز کو آپ پر پیش کیا جائے گا۔ آپ کے اخلاق پر، آپ کی سیرت پر اور آپ کے طریقے پر، پس جو کچھ اس کے مطابق ہے تو وہی حق ہے اور جو کچھ اس کے خلاف ہے تو وہی باطل ہے۔ [الجامع لاخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب 79/1 ح 8 وسنده حسن]
➍ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ایک سال جلا وطنی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دونوں نے زنا کرنے والے (غیر شادی شدہ) کو کوڑے بھی لگائے اور جلا وطن بھی کیا۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح، والجامع للترمذي 1438، وقال: غريب وسنده صحيح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک (زانی) آدمی کو جلا وطن کیا۔ [سنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح]
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«البكران يجلدان وينفيان و الثيبان يرجمان»
غیر شادی شدہ زانیوں کو کوڑے لگائے جاتے ہیں اور جلا وطن کیا جاتا ہے اور شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا جا تا ہے۔ [اسنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح]
➎ حافظ ابن عبد البر فرماتے تھے:
«وأما أهل البدع فأكثرهم ينكر الرجم ويدفعه ولا يقول به فى شي من الزناة ثيباً ولا غير ثيب»
اہل بدعت کی اکثریت رجم کا انکار کرتی ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتی۔ یہ لوگ (اہل بدعت) ہر قسم کے زانیوں کے بارے میں سنگسار کے قائل نہیں ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ [التمهيد 83/9]
◄ معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کے بارے میں رجم (سنگسار) کی سزا کا انکار بدعت ہے۔
➏ بعض علماء فتنے کے خوف کی وجہ سے زنا کرنے والی عورت کو جلا وطن کرنے کے خلاف ہیں۔ دیکھئے: [التمهيد 883/9]
➐ اقامت حد کے لئے مرتکب زنا کا چار مرتبہ اعتراف ضروری نہیں بلکہ اس کا ایک دفعہ کا اقرار بھی کافی ہے۔
➑ خبر واحد حجت ہے۔
➒ قاضی کا فیصلہ احکام میں نافذ ہوتا ہے۔
➓ کتاب و سنت کے خلاف ہر فیصلہ باطل اور مردود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 54   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2549  
´زنا کی حد کا بیان۔`
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور بولا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، اللہ کی کتاب کے مطابق آپ ہمارا فیصلہ کر دیجئیے، اس کا فریق (مقابل) جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، بولا: آپ ہمارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق فرمائیے لیکن مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو اس نے بیان کیا کہ میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا، میں نے اس کی جانب سے سو بکریاں اور ایک نوکر فدیہ میں دے دیا ہے، پھر میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2549]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید اورحدیث شریف دونوں ہیں کیونکہ یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اس ليے ہم نے کتاب اللہ کا ترجمہ اللہ کا قانون کیا ہے۔

(2)
قتل وغیرہ کے مقدمات میں فریقین میں صلح ہو سکتی ہے خواہ ہدیت دینے کی شرط پر صلح ہو یا ویسے معاف کر دیا جائے۔
لیکن زنا کا مقدمہ قابل مصالحت نہیں۔

(3)
غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی ہے۔

(4)
شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگسارکرنا ہے۔

(5)
زنا کا جرم جس طرح چشم دید گواہ کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے اس طرح اقرارجرم سے بھی ثابت ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2549   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1433  
´شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دو آدمی آئے، ان میں سے ایک کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر) مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے، اور مجھے مدعا بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، (چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑکا اس کے پاس مزدور تھا، چنانچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1433]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس لڑکے کا کام صرف اپنے مالک کے کاموں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ مالک کی اجازت سے اس کی بیوی کے کاموں میں بھی معاون تھا،
چنانچہ اس کے ساتھ جو یہ حادثہ پیش آیا اس کا سبب یہی تھا۔
اس لیے تنہائی میں عورت کے پاس غیر محرم مرد کا دخول منع ہے۔

2؎:
کیوں کہ یہ غیر شادی شدہ ہے۔

3؎:
کیوں کہ یہ شادی شدہ ہے۔

4؎:
یہ انیس بن ضحاک اسلمی ہیں۔

5؎:
عورت چونکہ شادی شدہ تھی اس لیے اسے پتھر مارمار کر ہلاک کردیا گیا،
اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا اس لیے اس کے لیے ایک سال کی جلاوطنی اور سوکوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1433   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4445  
´قبیلہ جہینہ کی ایک عورت کا ذکر جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کرنے کا حکم دیا۔`
ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے مابین اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ فرما دیجئیے، اور دوسرے نے جو ان دونوں میں زیادہ سمجھ دار تھا کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ فرمائیے، لیکن پہلے مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: اچھا کہو اس نے کہنا شروع کیا: میرا بیٹا اس کے یہاں «عسیف» یعنی مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4445]
فوائد ومسائل:
1) قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ مقدمے کے فریقین میں سے کسی سے بھی مقدمہ سننے کی ابتدا کر سکتا ہے۔

2) جب کسی ادنی درجے کے مفتی نےفتویٰ دیا ہو تو اس سے بڑھ کر اعلی صاحب علم سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں ہے اور پہلے کا فتوی دینا بھی کوئی عیب نہیں.
3) رسول اللہﷺ کےسب فیصلے اور فرامین کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ ہی کا حصہ ہے، بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہوں۔

4) ہر ایسی صلح یا بیع جو غیر شرعی اصولوں پر ہوئی ہو ٹوٹ جاتی ہےاور اس سلسلے میں لیا گیا تاوان بھی واپس کر نا ہوتا ہے۔

5) غیر شادی شدہ زانی پر سوکوڑے ایک سال شہر بدری ہے۔

6) شادی شدہ زانی پر صرف رجم ہے کوڑے نہیں۔

7) زنا کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان فرقت نہیں آجاتی۔

8) حاکم یا قاضی کا نائب حدود کی تنقیذ کرسکتا ہے۔
(خطابی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4445   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2696  
2696. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے!اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔ پھر ایک آدمی سے فرمایا: اے انیس! اس شخص کی بیوی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2696]
حدیث حاشیہ:
گویا بیوی کے خاوند سے سوبکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔
باب کا مطلب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تیری بکریاں اور لونڈی تجھ کو واپس ملیں گی، کیوں کہ یہ ناجائز اور خلاف شرع صلح تھی۔
ابن دقیق العید ؒ نے کہا، اس حدیث سے یہ نکلا کہ معاوضہ ناجائز کے بدل جو چیز لی جائے اس کا پھیردینا واجب ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا۔
روایت میں اہل علم سے مراد وہ صحابہ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں فتویٰ دیاکرتے تھے۔
جیسے خلفائے اربعہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنهم)
یہ بھی معلوم ہوا کہ جو مسئلہ معلوم نہ ہو اہل علم سے اس کی تحقیق کرلینا ضروری ہے اور یہ تحقیق کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہئے نہ کہ محض تقلید کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھائی جائیں۔
آیت ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)
کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2696   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2696  
2696. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے!اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔ پھر ایک آدمی سے فرمایا: اے انیس! اس شخص کی بیوی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2696]
حدیث حاشیہ:
(1)
بدکاری کرنے والے لڑکے کے باپ نے عورت کے خاوند سے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کر لی۔
چونکہ یہ صلح ناجائز اور خلاف شریعت تھی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا گیا اور بکریاں اور لونڈی اسے واپس کی گئیں۔
مزدور پر شرعی حد لگنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
شریعت کی نظر میں یہ صلح ظلم پر مبنی تھی، اس لیے عمل میں نہیں لائی گئی۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے جس آدمی کو عورت پر حد جاری کرنے کے لیے روانہ کیا وہ اسی عورت کے قبیلے سے تھا۔
اگر کسی اور کو روانہ کیا جاتا تو شاید اہل قبیلہ اس فیصلے کو نہ مانتے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل و احکام میں اہل علم سے رابطہ کرنا ضروری ہے اور تحقیق بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2696   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.