الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
9. بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} :
9. باب: اللہ تعالیٰ کے (سورۃ نساء میں) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہو گی۔
(9) Chapter. The explanation of the Statement of Allah: “… After payment of legacies that they may have bequeathed or debts..." (V.4:12)
حدیث نمبر: Q2750
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ويذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى بالدين قبل الوصية، وقوله عز وجل: إن الله يامركم ان تؤدوا الامانات إلى اهلها سورة النساء آية 58فاداء الامانة احق من تطوع الوصية، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا صدقة إلا عن ظهر غنى، وقال ابن عباس: لا يوصي العبد إلا بإذن اهله، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" العبد راع في مال سيده".وَيُذْكَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا سورة النساء آية 58فَأَدَاءُ الْأَمَانَةِ أَحَقُّ مِنْ تَطَوُّعِ الْوَصِيَّةِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا يُوصِي الْعَبْدُ إِلَّا بِإِذْنِ أَهْلِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعَبْدُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ".
اور منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو وصیت پر مقدم کرنے کا حکم دیا اور (اس سورت میں) اور اللہ کا فرمان «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها‏» بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔ تو امانت (قرض) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آدمی مالدار رہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔

حدیث نمبر: 2750
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم قال لي:" يا حكيم، إن هذا المال خضر حلو، فمن اخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى". قال حكيم، فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا ارزا احدا بعدك شيئا حتى افارق الدنيا، فكان ابو بكر يدعو حكيما ليعطيه العطاء، فيابى ان يقبل منه شيئا، ثم إن عمر دعاه ليعطيه، فيابى ان يقبله، فقال: يا معشر المسلمين، إني اعرض عليه حقه الذي قسم الله له من هذا الفيء، فيابى ان ياخذه، فلم يرزا حكيم احدا من الناس بعد النبي صلى الله عليه وسلم حتى توفي رحمه الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أن حكيم بن حزام رضي الله عنه، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ لِي:" يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى". قَالَ حَكِيمٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ الْعَطَاءَ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر سے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) نے بیان کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا ‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا ‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیا کا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہو گی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم نے عرض کیا یا رسول اللہ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لوں گا مرنے تک پھر (حکیم کا یہ حال رہا) کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لیے ان کو بلاتے ‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لیے لیکن انہوں نے انکار کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا۔ غرض حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی (اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا) یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Hakim bin Hizam said, "I asked Allah's Apostle for something, and he gave me, and I asked him again and he gave me and said, 'O Hakim! This wealth is green and sweet (i.e. as tempting as fruits), and whoever takes it without greed then he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it and he is like one who eats and never gets satisfied. The upper (i.e. giving) hand is better than the lower (i.e. taking) hand." Hakim added, "I said, O Allah's Apostle! By Him Who has sent you with the Truth I will never demand anything from anybody after you till I die." Afterwards Abu Bakr used to call Hakim to give him something but he refused to accept anything from him. Then `Umar called him to give him (something) but he refused. Then `Umar said, "O Muslims! I offered to him (i.e. Hakim) his share which Allah has ordained for him from this booty and he refuses to take it." Thus Hakim did not ask anybody for anything after the Prophet, till he died--may Allah bestow His mercy upon him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 13


   صحيح البخاري3143حكيم بن حزامالمال خضر حلو من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح البخاري2750حكيم بن حزامالمال خضر حلو من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح البخاري6441حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح البخاري1472حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح مسلم2387حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2604حكيم بن حزامالمال حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2603حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف النفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2602حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2532حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2750  
2750. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا فرمادیا۔ آخر کار آپ نے فرمایا: اے حکیم! دنیا کایہ مال (دیکھنے میں) خوشن اور (ذائقے میں) شیری ہے لیکن جو اس کو دل کی سخاوت اور سیر چشمی سے لے تو اسکے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو کوئی اسے طمع اور لالچ سے لے، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جو اسے کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لوں گا حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2750]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔
وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔
اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔
یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2750   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.