الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
Shares of Inheritance (Kitab Al-Faraid)
4. باب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الصُّلْبِ
4. باب: صلبی (حقیقی) اولاد کی میراث کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Inheritance For Descendants.
حدیث نمبر: 2890
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عامر بن زرارة، حدثنا علي بن مسهر، عن الاعمش، عن ابي قيس الاودي، عن هزيل بن شرحبيل الاودي، قال: جاء رجل إلى ابي موسى الاشعري، وسلمان بن ربيعة فسالهما، عن ابنة وابنة ابن، واخت لاب وام، فقالا لابنته النصف، وللاخت من الاب، والام النصف، ولم يورثا ابنة الابن شيئا، وات ابن مسعود فإنه سيتابعنا فاتاه الرجل فساله واخبره بقولهما، فقال لقد ضللت إذا وما انا ولكني ساقضي فيها بقضاء من المهتدين النبي صلى الله عليه وسلم لابنته النصف، ولابنة الابن سهم تكملة الثلثين، وما بقي فللاخت من الاب والام.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الأَوْدِيِّ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ الْأَوْدِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ فَسَأَلَهُمَا، عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ، وأخت لأب وأم، فقالا لابنته النصف، وللأخت من الأب، والأم النصف، ولم يورثا ابنة الابن شيئا، وأت ابن مسعود فإنه سيتابعنا فأتاه الرجل فسأله وأخبره بقولهما، فقال لقد ضللت إذا وما أَنَا وَلَكِنِّي سَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَاءِ مِنَ الْمُهْتَدِينَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنَتِهِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ سَهْمٌ تَكْمِلَةُ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ.
ہزیل بن شرحبیل اودی کہتے ہیں ایک شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن (یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پوتی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پوچھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتائی تو انہوں نے کہا: تب تو میں بھٹکا ہوا ہوں گا اور راہ یاب لوگوں میں سے نہ ہوں گا، لیکن میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور وہ یہ کہ بیٹی کا آدھا ہو گا اور پوتی کا چھٹا حصہ ہو گا دو تہائی پورا کرنے کے لیے (یعنی جب ایک بیٹی نے آدھا پایا تو چھٹا حصہ پوتی کو دے کر دو تہائی پورا کر دیں گے) اور جو باقی رہے گا وہ سگی بہن کا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الفرائض 8 (6736)، سنن الترمذی/الفرائض 4 (2093)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 2 (2721)، (تحفة الأشراف: 9594)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/389، 428، 440، 463)، سنن الدارمی/الفرائض 7 (2932) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Huzail bin Shurahbil al-Awadi: A man came to Abu Musa al-Ashari and Salman bin Rabiah, and asked about a case where there were a daughter, a son's daughter and full sister. They replied: The daughter gets half and the full gets half. The son's daughter gets nothing. Go to Ibn Masud and you will find that he agrees with me. So the man came to him and informed him about their opinion. He said: I would then be in error and not be one of those who are rightly guided. But I decide concerning the matter as the Messenger of Allah ﷺ did: The daughter gets half, and the son's daughter gets a share which complete thirds (i. e. gets a sixth), and what remain to the full sister. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 18 , Number 2884


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6736)

   صحيح البخاري6742عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس وما بقي فللأخت
   جامع الترمذي2093عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وللأخت ما بقي
   سنن أبي داود2890عبد الله بن مسعودلابنته النصف ولابنة الابن سهم تكملة الثلثين وما بقي فللأخت من الأب والأم
   سنن ابن ماجه2721عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللأخت
   المعجم الصغير للطبراني1150عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس وما بقي فللأخت من الأب والأم
   بلوغ المرام807عبد الله بن مسعود للابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقى فللأخت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2721  
´(میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان۔`
ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کر لو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2721]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اجتہادی مسائل میں اختلاف رائے ہوجاتا تھا لیکن وہ اس کی بنیاد پر باہمی مخالفت اور دشمنی کا رویہ نہیں اپناتے تھے۔

(2)
اجتہادی رائے کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی نص قابل عمل ہے۔
اجتہاد کی اہمیت صرف اسی وقت تک ہے جب عالم کو پیش آمدہ مسئلے میں قرآن وحدیث کی نص معلوم نہ ہو۔

(3)
دونوں صحابۂ کرام ؓ کی رائے کی بنیاد غالباً اس اصول پر تھی کہ قریب کی موجودگی میں دور کا وارث محروم ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو محروم قراردیا۔
اور بیٹی سے بچا ہوا حصہ بہن کو دلوایا۔

(4)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنی رائے کی بنیاد ارشاد نبوی پر رکھی اور وہ اصول بیان فرمایا جودوسرے صحابۂ کرام ؓ کو معلوم نہ تھا۔

(5)
اگر وارث صرف دوبیٹیاں ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہے۔
بیٹیوں کی عدم موجودگی میں پوتیوں کا یہی حصہ ہے۔
جس طرح ایک بیٹی کا حصہ نصف ہے، اسی طرح بیٹی کی عدم موجودگی میں ایک پوتی کا حصہ نصف ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں ایک بیٹی اور ایک پوتی کی صورت میں بیٹی کا حصہ نصف ہے، اور بیٹی اورپوتی کا مجموعی حصہ دوتہائی ہے، لہٰذا دو تہائی میں سے نصف بیٹی کو دے کر باقی چھٹا حصہ پوتی کو ملتا ہے۔

(6)
اس صورت میں بیٹی اور پوتی کو برابر حصہ نہیں ملتا کیونکہ ان کا درجہ، یعنی میت سے تعلق برابر نہیں۔

(7)
بیٹی، بیٹیوں یا پوتی، پوتیوں کی موجودگی میں بہن عصبہ ہے۔

(8)
  تقلید سراسر گمراہی ہے، خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے امام یا صحابی ہی کی کیوں نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2721   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2093  
´بیٹی کے ساتھ پوتی کی وراثت کا بیان۔`
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا: بیٹی کو آدھی میراث اور حقیقی بہن کو باقی حصہ ملے گا، انہوں نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، وہ بھی ہماری طرح جواب دیں گے، وہ آدمی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آیا، ان سے مسئلہ بیان کیا اور ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ نے جو کہا تھا اسے بھی بتایا، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: اگر میں بھی ویسا ہی جواب دوں تب ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2093]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
کل ترکہ کے (12) حصے فرض کریں گے جن میں سے:
مرنے والے کی بیٹی کے لیے کل ترکہ کا آدھا =6 حصے،
پوتی کے لیے چھٹا حصہ =2حصے اور مرنے والے کی بہن کے لیے باقی ترکہ =4 حصے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2093   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2890  
´صلبی (حقیقی) اولاد کی میراث کا بیان۔`
ہزیل بن شرحبیل اودی کہتے ہیں ایک شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن (یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پوتی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پوچھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2890]
فوائد ومسائل:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جوا ب آیت میراث میں مذکور ہے۔
(فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ۔
)
(النساء:11) اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں۔
اور دوسے زیادہ ہوں۔
تو انہیں ترکہ سے دو تہائی ملے گا۔
لہذا ایک لڑکی کو نصف دینے کے بعد پوتی کو صرف چھٹا حصہ ملے گا۔
یوں دونوں مل کر دو لڑکیوں کی جگہ پر کردیں گی۔


صلبی اولاد سے مراد بیٹا بیٹی پوتا اور پوتی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2890   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.