الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
The Book of The Obligations of Khumus
15. بَابُ وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْخُمُسَ لِنَوَائِبِ الْمُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَضَاعِهِ فِيهِمْ فَتَحَلَّلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ:
15. باب: اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے ہے وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑ دو۔
(15) Chapter. The proof that the Khumus is to be used for the needs of the Muslims, is that when the people of the tribe of Hawazin appealed to the Prophet (p.b.u.h) (to give them back what he had gained from them as war booty) mentioning the fact that he had been nursed by one of their women, he ( (p.b.u.h)) asked the Muslims to give up their shares of the booty to them.
حدیث نمبر: 3137
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي، حدثنا سفيان، حدثنا محمد بن المنكدر، سمع جابرا رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو قد جاءني مال البحرين لقد اعطيتك هكذا وهكذا وهكذا، فلم يجئ حتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم فلما جاء مال البحرين امر ابو بكر مناديا فنادى من كان له عند رسول الله صلى الله عليه وسلم دين او عدة فلياتنا فاتيته، فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لي: كذا وكذا فحثا لي ثلاثا وجعل سفيان يحثو بكفيه جميعا، ثم قال: لنا هكذا، قال: لنا ابن المنكدر، وقال: مرة فاتيت ابا بكر فسالت فلم يعطني، ثم اتيته فلم يعطني، ثم اتيته الثالثة، فقلت: سالتك فلم تعطني، ثم سالتك فلم تعطني، ثم سالتك فلم تعطني، فإما ان تعطيني، وإما ان تبخل عني، قال: قلت: تبخل عني ما منعتك من مرة إلا، وانا اريد ان اعطيك"، قال: سفيان، وحدثنا عمرو، عن محمد بن علي، عن جابر فحثا لي حثية، وقال: عدها فوجدتها خمس مائة، قال: فخذ مثلها مرتين، وقال: يعني ابن المنكدر واي داء ادوا من البخل".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ قَدْ جَاءَنِي مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَلَمْ يَجِئْ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَر أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا فَحَثَا لِي ثَلَاثًا وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: لَنَا هَكَذَا، قَالَ: لَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَقَالَ: مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَسَأَلْتُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَقُلْتُ: سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي، قَالَ: قُلْتَ: تَبْخَلُ عَنِّي مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ"، قَالَ: سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ فَحَثَا لِي حَثْيَةً، وَقَالَ: عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، قَالَ: فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ، وَقَالَ: يَعْنِي ابْنَ الْمُنْكَدِرِ وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح (تین لپ) دوں گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے۔ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے (لپ بھرنے کی) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے (سابقہ سند کے ساتھ) بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آپ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا۔ اب یا آپ مجھے دیجئیے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے۔، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ سو کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا (کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے۔

Narrated Jabir: Allah's Apostle said (to me), "If the property of Bahrain had come to us, I would have given you so much and so much." But the Bahrain property did not come till the Prophet had died. When the Bahrain property came. Abu Bakr ordered somebody to announce, "Any person who has money claim on Allah's Apostle or whom Allah's Apostle had promised something, should come to us." So, I went to him and said, "Allah's Apostle had promised to give me so much an so much." Abu Bakr scooped up money with both hands thrice for me." (The sub-narrator Sufyan illustrated this action by scooping up with both hands and said, "Ibn Munkadir, another sub-narrator, used to illustrate it in this way.") Narrated Jabir: Once I went to Abu Bakr and asked for the money but he did not give me, and I went to him again, but he did not give me, so I went to him for the third time and said, "I asked you, but you did not give me; then I asked you (for the second time) and you did not give me; then I asked you (for the third time) but you did not give me. You should either give me or allow yourself to be considered a miser regarding my case." Abu Bakr said, "You tell me that I am a miser with regard to you. But really, whenever I rejected your request, I had the inclination to give you." (In another narration Jabir added:) So, Abu Bakr scooped up money with both hands for me and asked me to count it. I found out that It was five hundred. Abu Bakr told me to take twice that amount.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 365



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3137  
3137. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات تک وہ مال نہ آیا۔ بعد ازاں جب وہاں سے مال آیا تو حضرت ابو بکرؓ نے منادی کوحکم دیا کہ وہ اعلان کردے: جس شخص کا رسول اللہ ﷺ پر قرض ہو یا آپ نے کسی سے وعدہ کیا ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے مال ادا کرٰیں گے۔ میں نے عرض کیا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے تین لپ بھر کردیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرکے لپ بھرے پھر فرمایا کہ اس طرح دیا۔ ابن منکدر اپنی سند کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آیا اور ان سے طلب کیا تو آپ نے دیا۔ پھر آکر سوال کیا تو انھوں نے پھر کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3137]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر ؓ کا پہلی بار میں نہ دینا کسی مصلحت سے تھا تاکہ جابر ؓ کو معلوم ہوجائے اس کا دینا کچھ ان پر بطور قرض کے لازم نہیں ہے بلکہ بطور تبرع کے دینا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3137   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3137  
3137. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات تک وہ مال نہ آیا۔ بعد ازاں جب وہاں سے مال آیا تو حضرت ابو بکرؓ نے منادی کوحکم دیا کہ وہ اعلان کردے: جس شخص کا رسول اللہ ﷺ پر قرض ہو یا آپ نے کسی سے وعدہ کیا ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے مال ادا کرٰیں گے۔ میں نے عرض کیا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے تین لپ بھر کردیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرکے لپ بھرے پھر فرمایا کہ اس طرح دیا۔ ابن منکدر اپنی سند کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آیا اور ان سے طلب کیا تو آپ نے دیا۔ پھر آکر سوال کیا تو انھوں نے پھر کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3137]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓنے تین مرتبہ فرمایا:
بخل سے زیادہ سنگین بیماری اور کون سی ہو سکتی ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4383)
حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت جابر ؓ کا مطالبہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر فوری طور پر پورا نہ کیا۔
آپ اس وقت کسی اہم کام میں مصروف تھے۔
لوگوں کا ہجوم تھا اندیشہ تھا کہ لوگ دیکھا دیکھی اس طرح کے مطالبے کرنے لگیں گے۔
حضرت جابر ؓ میں مانگنے کی حرص کا سد باب مقصود تھا۔
(فتح الباري: 6/291)

صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بحرین سے جزیے کا مال آتا تھا۔
(صحیح البخاري، الجزیة، حدیث: 3158)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جزیے کا بھی وہی مصرف ہے جو مال خمس کا ہے۔
امام اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کا مجاز ہے۔
(فتح الباري: 291/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3137   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.