الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
34. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ
34. باب: سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3216
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، عن عطاء، قال: قالت عائشة: " ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احل له النساء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُحِلَّ لَهُ النِّسَاءُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 2 (3206، 3207) (تحفة الأشراف: 7379)، وسنن الدارمی/النکاح 44 (2287) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کر دی گئیں تھیں، یہ استنباط عائشہ رضی الله عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے، «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» (اے ہمارے حبیب و خلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو، (گو اس کو باری نہ بھی ہو) (الأحزاب: 51)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

   صحيح البخاري5113عائشة بنت عبد اللهتستحي المرأة أن تهب نفسها للرجل فلما نزلت ترجي من تشاء منهن
   صحيح البخاري4788عائشة بنت عبد اللهأغار على اللاتي وهبن أنفسهن لرسول الله وأقول أتهب المرأة نفسها فلما أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك
   صحيح مسلم3631عائشة بنت عبد اللهأغار على اللاتي وهبن أنفسهن لرسول الله وأقول وتهب المرأة نفسها فلما أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت
   صحيح مسلم3632عائشة بنت عبد اللهأما تستحيي امرأة تهب نفسها لرجل حتى أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء
   جامع الترمذي3216عائشة بنت عبد اللهما مات رسول الله حتى أحل له النساء
   سنن النسائى الصغرى3207عائشة بنت عبد اللهما توفي رسول الله حتى أحل الله له أن يتزوج من النساء ما شاء
   سنن النسائى الصغرى3201عائشة بنت عبد اللهأغار على اللاتي وهبن أنفسهن للنبي فأقول أوتهب الحرة نفسها فأنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء
   سنن النسائى الصغرى3206عائشة بنت عبد اللهما مات رسول الله حتى أحل له النساء
   سنن ابن ماجه2000عائشة بنت عبد اللهأما تستحي المرأة أن تهب نفسها للنبي حتى أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2000  
´جس عورت نے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کیا عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ وہ اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے؟! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» جس کو تو چاہے اپنی عورتوں میں سے اپنے سے جدا کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے (سورة الأحزاب: 51) تب میں نے کہا: آپ کا رب آپ کی خواہش پر حکم نازل کرنے میں جلدی کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2000]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلامی معاشرے میں یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی کہ عورت اپنے نکاح کے لیے خود کسی مرد سے درخواست کرے بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ درخواست عورت کے سرپرست کے ذریعے سے کی جائے۔
رسول اللہﷺ کی امتیازی شان اس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عجیب محسوس ہوئی کہ عورتیں خود ہی آکر کہہ دیتی ہیں کہ اللہ کے رسول ہم سے نکاح کرلیں۔

(2)
نبئ اکرمﷺ امت کے تمام افراد کے سرپرست تھے بلکہ نبی ﷺ کا حق سرپرستوں سے بھی زیادہ تھا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلنَّبِيُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنَ أَنْفُسِهِمْ﴾  (الأحزاب: 6)
نبی مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے والے ہیں۔

(3)
  رسول اللہﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے یہ خصوصی رعایت تھی کہ آپ پرازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان باری کی پابندی کرنا فرض نہیں تھا۔
اس کے باوجود نبیﷺ نے بیویوں میں انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش فرمایا حتی کہ زندگی کے آخری ایام میں، جب مرض کی شدت اس قدر تھی کہ ایک ام المومنین کے گھرسے دوسری کے گھر میں چل کر جانا مشکل تھا، تب بھی آپ باری باری ان کے ہاں تشریف لے جاتے رہے حتی کہ امہات المومنین نے خود ہی عرض کیا کہ آپ جس گھر میں پسند فرمائیں آرام کریں۔
تب نبیﷺ دومردوں کے سہارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔
اور انہی کے حجرۂ مبارک میں دفن ہوئے۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب مرض النبیﷺ ووفاته، حدیث: 4442)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2000   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3216  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3216]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرمﷺکے لیے حلال کر دی گئیں تھیں،
یہ استنباط عائشہ رضی اللہ عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے،
﴿تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء﴾ (الأحزاب: 51) (اے ہمارے حبیب وخلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اُس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو،
(گو اس کو باری نہ بھی ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3216   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.