(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عمر بن ابي سلمة، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصلي في بيت ام سلمة مشتملا في ثوب واحد ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وجابر , وسلمة بن الاكوع , وانس , وعمرو بن ابي اسيد , وعبادة بن الصامت , وابي سعيد , وكيسان , وابن عباس، وعائشة، وام هانئ وعمار بن ياسر , وطلق بن علي , وعبادة بن الصامت الانصاري، قال ابو عيسى: حديث عمر بن ابي سلمة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم من التابعين، وغيرهم قالوا: لا باس بالصلاة في الثوب الواحد، وقد قال بعض اهل العلم: يصلي الرجل في ثوبين.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ مُشْتَمِلًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَجَابِرٍ , وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , وَأَنَسٍ , وَعَمْرِو بْنِ أَبِي أَسِيدٍ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَكَيْسَانَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَغَيْرِهِمْ قَالُوا: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي الرَّجُلُ فِي ثَوْبَيْنِ.
عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر بن ابی سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، سلمہ بن الاکوع، انس، عمرو بن ابی اسید، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، کیسان، ابن عباس، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، اور عبادہ بن صامت انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین وغیرہم سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ آدمی دو کپڑوں میں نماز پڑھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 4 (356)، صحیح مسلم/الصلاة 52 (517)، سنن ابی داود/ الصلاة 78 (628)، سنن النسائی/القبلة 14 (765)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 69 (1049)، (تحفة الأشراف: 10684)، وکذا (10682)، موطا امام مالک/الجماعة9 (29)، مسند احمد (4/26، 27) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: شیخین کی روایت میں «واضعاً طرفيه على عاتقيه» کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے، اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے، ورنہ نماز نہیں ہو گی، اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا، ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جا سکتا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 765
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔` عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 765]
765 ۔ اردو حاشیہ: ➊ عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے بیٹے تھے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی۔ ➋ ایک کپڑے میں نماز مجبوری کی حالت میں پڑھی جائے۔ اگر وہ چھوٹا ہو تو اسے ناف سے گھٹنوں تک باندھ لیا جائے اور اگر کچھ بڑا ہو تو بغلوں کے نیچے سے گزار کر دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیں۔ اگر کھلنے کا اندیشہ ہو تو گردن کے پیچھے گرہ دیں لیں ورنہ کھلا چھوڑ لیں۔ اس طرح پیٹ اور کمر بھی چھپ جائیں گے۔ حدیث میں اسی طرح کا ذکر ہے اور اگر دو کپڑے ہوں تو پھر دو ہی میں نماز پڑھیں۔ ایک کو ازار اور دوسرے کو ردا یا قمیص بنائیں۔ ➌ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے، ایسی صورت میں یقیناًً سرننگا رہتا ہے، اس لیے ننگے سر نماز کے ہو جانے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب غربت و ناداری عام تھی جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔ اب آسانی کی حالت میں ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کو عادت بنا لینا، اسے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا، نہ اس کے لیے جواز کا فتویٰ ہی ڈھونڈے گا۔ اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے کہ اس کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن اسے عادت اور شعار بنا لینا قطعاً پسندیدہ نہیں، نہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام اور اسلافِ عظام کے طرزِ عمل ہی سے مطابقت رکھتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 765
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 339
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔` عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 339]
اردو حاشہ: 1؎: شیخین کی روایت میں ((وَاضِعاً طَرَفَيْهِ عَلى عَاتِقَيْهِ)) کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے، اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے، ورنہ نماز نہیں ہو گی، اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا، ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جاسکتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 339