الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: لباس کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Dress
1. بَابُ : لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
1. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان۔
حدیث نمبر: 3555
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , عن ابيه , عن سهل بن سعد الساعدي ," ان امراة جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ببردة , قال: وما البردة؟ قال: الشملة , قالت: يا رسول الله , نسجت هذه بيدي لاكسوكها، فاخذها رسول الله صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها , فخرج علينا فيها , وإنها لإزاره فجاء فلان بن فلان رجل سماه يومئذ , فقال: يا رسول الله , ما احسن هذه البردة اكسنيها , قال:" نعم" , فلما دخل طواها وارسل بها إليه , فقال له القوم: والله ما احسنت كسيها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها , ثم سالته إياها وقد علمت انه لا يرد سائلا , فقال: إني والله ما سالته إياها لالبسها , ولكن سالته إياها لتكون كفني , فقال سهل: فكانت كفنه يوم مات.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ," أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ , قَالَ: وَمَا الْبُرْدَةُ؟ قَالَ: الشَّمْلَةُ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي لِأَكْسُوَكَهَا، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا , فَخَرَجَ عَلَيْنَا فِيهَا , وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ فَجَاءَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَحْسَنَ هَذِهِ الْبُرْدَةَ اكْسُنِيهَا , قَالَ:" نَعَمْ" , فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاهَا وَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسَنْتَ كُسِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا , ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَّاهَا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا , فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِأَلْبَسَهَا , وَلَكِنْ سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِتَكُونَ كَفَنِي , فَقَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ يَوْمَ مَاتَ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں «بردہ» (چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا «بردہ» کیا چیز ہے؟ ان کے شیخ نے کہا: «بردہ» شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا: اللہ کے رسول! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ چادر کتنی اچھی ہے، یہ آپ مجھے پہنا دیجئیے، فرمایا: ٹھیک ہے، پھر جب آپ اندر گئے تو اسے (اتار کر) تہ کیا، اور اس کے پاس بھجوا دی، لوگوں نے اس سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے اچھا نہیں کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے اس لیے پہنائی تھی کہ آپ کو اس کی حاجت تھی، پھر بھی تم نے اسے آپ سے مانگ لیا، حالانکہ تمہیں معلوم تھا کہ آپ کسی سائل کو نامراد واپس نہیں کرتے تو اس شخص نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں نے آپ سے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا ہے بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو، سہل کہتے ہیں: جب وہ مرے تو یہی چادر ان کا کفن تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 28 (1277)، البیوع 31 (2093)، اللباس 18 (5810)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ 43 (5323)، (تحفة الأشراف: 4721)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/333) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: دوسری روایت میں اس شخص کا نام عبدالرحمن بن عوف مذکور ہے جو بزرگ صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري5810سهل بن سعدجلس ما شاء الله في المجلس ثم رجع فطواها ثم أرسل بها إليه فقال له القوم ما أحسنت سألتها إياه وقد عرفت أنه لا يرد سائلا فقال الرجل والله ما سألتها إلا لتكون كفني يوم أموت قال سهل فكانت كفنه
   صحيح البخاري6036سهل بن سعدأتدرون ما البردة فقال القوم هي الشملة فقال سهل هي شملة منسوجة فيها حاشيتها فقالت يا رسول الله أكسوك هذه فأخذها النبي محتاجا إليها فلبسها فرآها عليه رجل من الصحابة فقال يا رسول الله ما أحسن هذه فاكسنيها فقال نعم فلما قام النبي لامه أصحابه قالوا ما أحسنت حي
   صحيح البخاري2093سهل بن سعدأتدرون ما البردة فقيل له نعم هي الشملة منسوج في حاشيتها قالت يا رسول الله إني نسجت هذه بيدي أكسوكها فأخذها النبي محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها إزاره فقال رجل من القوم يا رسول الله اكسنيها فقال نعم فجلس النبي في المجلس ثم رجع فطواها ثم أرسل بها إليه فقال ل
   صحيح البخاري1277سهل بن سعدأخذها النبي محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها إزاره فحسنها فلان فقال اكسنيها ما أحسنها قال القوم ما أحسنت لبسها النبي محتاجا إليها ثم سألته وعلمت أنه لا يرد قال إني والله ما سألته لألبسه إنما سألته لتكون كفني
   سنن النسائى الصغرى5323سهل بن سعدتدرون ما البردة قالوا نعم هذه الشملة منسوج في حاشيتها فقالت يا رسول الله إني نسجت هذه بيدي أكسوكها فأخذها رسول الله محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها لإزاره
   سنن ابن ماجه3555سهل بن سعدنسجت هذه بيدي لأكسوكها فأخذها رسول الله محتاجا إليها فخرج علينا فيها وإنها لإزاره فجاء فلان بن فلان رجل سماه يومئذ فقال يا رسول الله ما أحسن هذه البردة اكسنيها قال نعم فلما دخل طواها وأرسل بها إليه فقال له القوم والله ما أحسنت كسيها النبي محتاجا إليها ثم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3555  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں «بردہ» (چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا «بردہ» کیا چیز ہے؟ ان کے شیخ نے کہا: «بردہ» شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا: اللہ کے رسول! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3555]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تحفہ دینا اور تحفہ قبول کرنا اچھے اخلاق میں شامل ہے۔

(2)
عورتیں دستکاری کے کام کر کے گھر کی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ پردے کے تقاضے کما حقہ پورے ہو سکیں۔

(3)
کوئی چیز اگر کوئی شخص مانگ لے تو سخاوت کا تقاضہ ہے کہ اسے دے دی جائے اگر چہ خود کو ضرورت ہو۔

(4)
  رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے مس ہونے والی چیزحصول برکت کے لئے اپنے پاس رکھنا یا استعمال کرنا درست ہے۔
یہ صرف اس صورت میں ہے جب یہ یقینی طور پر ثابت ہو کہ اس کا تعلق نبی ﷺ کی ذات سے رہ چکا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط اور گرامی نامے بھیجے تھے ان کے علاوہ اب دنیا میں ایسی کسی چیز کا قطعاَََ َکوئی وجود نہیں ہے۔
یہ جو عوام الناس میں موئے مبارک وغیرہ قسم کی اشیاء مشہور کر دی گئی ہیں بالکل بے اصلی اور بے بنیاد باتیں ہیں۔
ایسی تمام اشیاء کے متعلق دعویٰ با لکل بلا دلیل ہے۔
جناب رسول کریم ﷺ سے متعلق کوئی بھی چیز ازقسم:
عصا، عمامہ، موئے مبارک اور نعلین وغیرہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں کہیں موجود نہیں۔
یہ سب من گھڑت اور خود ساختہ قصے کہانیاں ہیں۔
واللہ اءعلم۔

(5)
سلف صالحین نے کسی صحابی یا تابعی سے منسوب چیز کو بطور تبرک محفوظ نہیں رکھا۔
جو چیزیں بعض صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہیں ان میں سے اکثر کی ان حضرات کی طرف نسبت درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3555   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.