الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
23. بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
23. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان۔
(23) Chapter. The description of the Prophet (p.b.u.h).
حدیث نمبر: 3565
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن حماد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، ان انسا رضي الله عنه حدثهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان لا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء، فإنه كان يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ".
ہم سے عبدالاعلی بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا استسقاء کے سوا اور کسی دعا میں (زیادہ اونچا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اس دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا اونچا ہاتھ اٹھاتے کہ بغل مبارک کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔

Narrated Anas: Allah's Apostle did not use to raise his hands in his invocations except in the Istisqa (i.e. invoking Allah for the rain) in which he used to raise his hands so high that one could see the whiteness of his armpits. (Note: It may be that Anas did not see the prophet (as) raising his hands but it has been narrated that the Prophet (as) used to raise his hands for invocations other than Istisqa. See Hadith No. 612 Vol. 5. and Hadith No. 807 & 808 Vol 2.)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 766


   صحيح البخاري1019أنس بن مالكاللهم على ظهور الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   صحيح البخاري6093أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا مرتين أو ثلاثا فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا يمطر ما حوالينا ولا يمطر منها شيء يريهم الله كرامة نبيه وإجابة دعوته
   صحيح البخاري6342أنس بن مالكادع الله أن يسقينا فتغيمت السماء ومطرنا حتى ما كاد الرجل يصل إلى منزله فلم تزل تمطر إلى الجمعة المقبلة فقام ذلك الرجل أو غيره فقال ادع الله أن يصرفه عنا فقد غرقنا فقال اللهم حوالي
   صحيح البخاري932أنس بن مالكيخطب يوم الجمعة إذ قام رجل فقال يا رسول الله هلك الكراع وهلك الشاء فادع الله أن يسقينا فمد يديه ودعا
   صحيح البخاري1031أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء يرفع حتى يرى بياض إبطيه
   صحيح البخاري1013أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والجبال و
   صحيح البخاري1015أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا قال فلقد رأيت السحاب يتق
   صحيح البخاري1016أنس بن مالكاللهم على الآكام والظراب والأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   صحيح البخاري1014أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر
   صحيح البخاري1018أنس بن مالكدعا الله يستسقي ولم يذكر أنه حول رداءه ولا استقبل القبلة
   صحيح البخاري3565أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء رفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   صحيح البخاري1021أنس بن مالكاللهم اسقنا مرتين وايم الله ما نرى في السماء قزعة من سحاب فنشأت سحابة وأمطرت ونزل عن المنبر فصلى فلما انصرف لم تزل تمطر إلى الجمعة التي تليها فلما قام النبي يخطب صاحوا إليه تهدمت البيوت وانقطعت السبل فادع الله يحبسها عنا فتبسم النبي صلى
   صحيح البخاري1033أنس بن مالكثار سحاب أمثال الجبال ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته قال فمطرنا يومنا ذلك وفي الغد ومن بعد الغد والذي يليه إلى الجمعة الأخرى فقام ذلك الأعرابي أو رجل غيره فقال يا رسول الله تهدم البناء وغرق المال فادع الله لنا فرفع رسول الله صلى الله
   صحيح البخاري3582أنس بن مالكهلكت الكراع هلكت الشاء فادع الله يسقينا فمد يديه ودعا قال أنس وإن السماء لمثل الزجاجة فهاجت ريح أنشأت سحابا ثم اجتمع ثم أرسلت السماء عزاليها فخرجنا نخوض الماء حتى أتينا منازلنا فلم نزل نمطر إلى الجمعة الأخرى فقام إليه ذلك الرجل أو غيره فقال يا رسول الله
   صحيح البخاري1017أنس بن مالكاللهم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   صحيح مسلم2075أنس بن مالكاستسقى فأشار بظهر كفيه إلى السماء
   صحيح مسلم2076أنس بن مالكيرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء حتى يرى بياض إبطيه
   صحيح مسلم2078أنس بن مالكاللهم أغثنا اللهم أغثنا اللهم أغثنا
   سنن أبي داود1171أنس بن مالكيستسقي هكذا يعني ومد يديه وجعل بطونهما مما يلي الأرض رأيت بياض إبطيه
   سنن أبي داود1170أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   سنن أبي داود1174أنس بن مالكأصاب أهل المدينة قحط على عهد رسول الله فبينما هو يخطبنا يوم جمعة إذ قام رجل فقال يا رسول الله هلك الكراع هلك الشاء فادع الله أن يسقينا فمد يديه ودعا
   سنن النسائى الصغرى1514أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   سنن النسائى الصغرى1516أنس بن مالكاللهم اسقنا فوالله ما نزل رسول الله صلى الله عليه
   سنن النسائى الصغرى1518أنس بن مالكاللهم اسقنا اللهم اسقنا قال وايم الله ما نرى في السماء قزعة من سحاب قال فأنشأت سحابة فانتشرت ثم إنها أمطرت ونزل رسول الله فصلى وانصرف الناس فلم تزل تمطر إلى يوم الجمعة الأخرى فلما قام رسول الله يخطب صاحوا إليه فقا
   سنن النسائى الصغرى1517أنس بن مالكاللهم اسقنا
   سنن النسائى الصغرى1505أنس بن مالكاللهم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   سنن النسائى الصغرى1749أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء
   سنن النسائى الصغرى1529أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا
   سنن النسائى الصغرى1519أنس بن مالكاللهم أغثنا اللهم أغثنا
   سنن ابن ماجه1180أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا عند الاستسقاء يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   بلوغ المرام408أنس بن مالك اللهم أغثنا اللهم أغثنا
   المعجم الصغير للطبراني336أنس بن مالك اللهم اسقنا ، فقال أبو لبابة بن عبد المنذر : يا رسول الله ، إن التمر فى المرابد ، فقال : اللهم اسقنا حتى يقوم أبو لبابة عريانا ، فيسد ثعلب مربده بإزاره ، وما يرى فى السماء سحاب فأمطرت ، فاجتمعوا إلى أبى لبابة ، فقالوا : إنها لن تقلع حتى تقوم عريانا ، فتسد ثعلب مربدك ، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ففعل ، فأصحت السماء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1170  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1170]
1170۔ اردو حاشیہ:
دعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، ان میں ایک استسقاء کا موقع ہے بلکہ اس موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھانے میں مبالغے سے کام لیا یعنی خوب ہاتھ اٹھائے جیسا کہ اگلی روایت میں صراحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1170   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1171  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1171]
1171۔ اردو حاشیہ:
استسقاء میں الٹے ہاتھوں سے دعا کرنا نیک فال کے طور پر ہے اور مستحب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1174  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! گھوڑے مر گئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہو گئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (نماز پڑھ کر) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا: اے اللہ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما۔‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1174]
1174۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ میں استسقاء کی دعا کرنا بالکل بجا اور سنت ہے۔
➋ استسقاء یا دیگر اجتماعی امور کے لئے اثنائے خطبہ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث: 1029]
➌ انسان ازحد کمزور پیدا کیا گیا ہے، نہ خشکی و گرمی برداشت کر سکتا ہے، نہ بارش و پانی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1174   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1180  
´دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اٹھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھ (مبالغہ کے ساتھ) نہیں اٹھاتے تھے، البتہ آپ استسقاء میں اپنے ہاتھ اتنا اوپر اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1180]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اُٹھائے جایئں لیکن سنن بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قنوت میں ہاتھ اُٹھانا مذکور ہے۔ (السنن الکبريٰ للبہیقي: 211/2)
بعض دیگراحادیث میں اور مواقع پر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا وارد ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، الجھاد، باب المداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر واباحة الغنائم، حدیث: 1763، وصحیح البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتین۔
۔
۔
، حدیث: 1751)

اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کی دعا میں ہاتھ زیادہ بلند کرتے تھے۔
جب کہ دوسری اوقات میں اس طرح ہاتھ بلند نہیں کیے۔
بلکہ کم بلند کئے۔

(2)
دعائے قنوت وتر میں نبی کریمﷺ نے ہاتھ اُٹھائے یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صراحت نہیں ہے البتہ دعائے قنوت نازلہ میں (جو رکوع کے بعد آپ نے مانگی ہے)
آپ ﷺ کا ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔
اس لئے اس پر قیاس کرتے ہوئے دعا قنوت میں وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔
علاوہ ازیں بعض صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سےدعائے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے ک اثبوت ملتا ہے۔
اس لئے ہاتھ اُٹھا کردعائے قنوت پڑھنا بہتر ہے گوجواز بغیر ہاتھ اُٹھائے بھی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1180   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 408  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، وہ بولا یا رسول اللہ! اموال (مویشی) ہلاک ہو گئے اور آمدورفت کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اللہ کے حضور دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دعا فرمائی۔ «‏‏‏‏اللهم أغثنا اللهم أغثنا» ‏‏‏‏ یا الٰہی! بارش سے ہماری فریاد رسی فرما۔ یا الٰہی! باران رحمت سے ہماری فریاد رسی فرما۔ ساری حدیث بیان فرمائی۔ اس میں بارش کے بند کروانے کی دعا کا بھی ذکر ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 408»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب الاستسقاء في المسجد الجامع، حديث:1013، ومسلم، صلاة الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، حديث:897.»
تشریح:
1. اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم السلام بلکہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر چیز اللہ رب العالمین سے براہ راست طلب فرماتے تھے۔
بیچ میں کسی کو واسطہ یا ذریعہ بنانا صحیح نہیں سمجھتے تھے‘ ورنہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوالانبیاء یا ابوالبشر یا کسی دوسرے اولوالعزم پیغمبر کا واسطہ دے کر بارش طلب فرماتے۔
2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازخود نہیں بلکہ اللہ کے حضور استدعا کرتے ہیں کہ وہ بارش برسا کر لوگوں کو قحط سالی سے نجات دے۔
3.یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مَاکَانَ وَمَا یَکُونُکا علم بھی نہیں رکھتے تھے‘ ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ قحط سالی کی وجہ سے بیرون شہر لوگوں کا کیا حال ہے۔
اس آدمی کے بتانے پر معلوم ہوا۔
4.وہ آدمی کون تھا‘ اس میں اختلاف ہے۔
کسی نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے‘ حالانکہ وہ اس وقت دائرۂ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔
انداز گفتگو اور طرزکلام سے محسوس ہوتا ہے کہ سائل یقینا کوئی مسلمان تھا ورنہ آج کل کے نام نہاد مسلمانوں کی طرح آپ کو مشکل کشا سمجھ کر آپ ہی سے درخواست کرتا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں قحط سالی کی مصیبت سے نجات دلا۔
بعض نے کہا: اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے بارش کے لیے صرف دعا ہی فرمائی ہے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے غالباً اسی سے استدلال کیا ہے کہ استسقا کے لیے صرف دعا کرنا سنت ہے۔
مگر دوسری احادیث سے نماز استسقا پڑھنا بھی ثابت ہے۔
5. اس سلسلے کی تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے چھ طرح مختلف اوقات میں دعا کی ہے: ٭ ایک دفعہ تو آپ لوگوں کو عیدگاہ میں لے گئے‘ نماز پڑھائی‘ خطبہ بھی دیا اور دعا بھی فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ صلاۃ الاستسقاء‘ حدیث:۱۱۷۳) ٭ ایک دفعہ خطبۂجمعہ کے دوران ہی میں منبر پر کھڑے کھڑے صرف دعا فرمائی۔
(صحیح البخاري‘ الاستسقاء‘ حدیث: ۱۰۱۴) ٭ ایک مرتبہ آپ نے باقاعدہ منبر منگوایا‘ اس پر بیٹھ کر مختصر خطبہ ارشاد فرمایا‘ دعا کی‘ پھر دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔
(سنن ابن ماجہ‘ حدیث:۱۲۷۰) ٭ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے دعا کی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۹) ٭ ایک دفعہ مسجد سے باہر نکل کر زوراء کے قریب احجار الزیت مقام میں جا کر دعا فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۸) ٭ اور ایک دفعہ کسی جنگ کے دوران میں بارش کے لیے دعا فرمائی۔
ہر دفعہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتخریج شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط: ۱ / ۴۳۹. ۴۴۴)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 408   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3565  
3565. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں (مبالغہ کے ساتھ) ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ نماز استسقاء میں اس حد تک اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی جاسکتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3565]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے لانے کی غرض یہاں یہ ہے کہ آپ کی بغلیں بالکل سفید اور صاف تھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3565   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3565  
3565. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں (مبالغہ کے ساتھ) ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ نماز استسقاء میں اس حد تک اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی جاسکتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3565]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معطر اور نورانی بغلوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ آپ کی بغلیں بالکل صاف اور سفید تھیں،بلکہ بدن کے دوسرے حصے کی طرح عطر بیز اور خوشبودار تھیں جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کی خوشبو سے بڑھ کر میں نے کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کا پسینہ کستوری سے بھی زیادہ خوشبودار تھا۔
(سنن الدارمي: 31/1)
جبکہ عام انسان کی بغلوں سے گندی اور بدبودار ہواآتی ہے کیونکہ انھیں کسی طرف سے ہوا نہیں لگتی۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں دوسرے جسم کی طرح بالکل صاف ہوتی تھیں بلکہ ان کے پسینے سے خوشبو آتی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3565   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.