الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
رضاعت کے احکام و مسائل
The Book of Suckling
4. باب تَحْرِيمِ الرَّبِيبَةِ وَأُخْتِ الْمَرْأَةِ:
4. باب: ربیبہ (بیوی کی بیٹی) اور بیوی کی بہن کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3588
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن رمح بن المهاجر ، اخبرنا الليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، ان محمد بن شهاب ، كتب يذكر، ان عروة ، حدثه، ان زينب بنت ابي سلمة ، حدثته، ان ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حدثتها، انها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، انكح اختي عزة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتحبين ذلك "، فقالت: نعم يا رسول الله، لست لك بمخلية، واحب من شركني في خير اختي، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فإن ذلك لا يحل لي "، قالت: فقلت: يا رسول الله، فإنا نتحدث انك تريد ان تنكح درة بنت ابي سلمة، قال: " بنت ابي سلمة "، قالت: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو انها لم تكن ربيبتي في حجري ما حلت لي، إنها ابنة اخي من الرضاعة، ارضعتني وابا سلمة ثويبة، فلا تعرضن علي بناتكن، ولا اخواتكن ".وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ شِهَابٍ ، كَتَبَ يَذْكُرُ، أَنَّ عُرْوَةَ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ ، حَدَّثَتْهُ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَتْهَا، أَنَّهَا قَالَت لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْكِحْ أُخْتِي عَزَّةَ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتُحِبِّينَ ذَلِكِ "، فقَالَت: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ، وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، فقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ ذَلِكِ لَا يَحِلُّ لِي "، قَالَت: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: " بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ "، قَالَت: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حِجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ، وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ ".
یزید بن ابوحبیب سے روایت ہے کہ محمد بن شہاب (زہری) نے (ان کی طرف) یہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عروہ نے انہیں حدیث سنائی، زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، اے اللہ کے رسول! میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم یہ پسند کرو گی؟" انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! میں اکیلی آپ کی بیوی تو ہوں نہیں، اور (مجھے) سب سے زیادہ محبوب، جو خیر میں میرے ساتھ شریک ہو، میری بہن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔" انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم سے یہ بات کی جاتی ہے کہ آپ درہ بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے پوچھا: "کیا ابوسلمہ کی بیٹی سے؟" انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ میری گود کی پروردہ (ربیبہ) نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی، وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور اس کے والد ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا، اس لیے تم مجھے اپنی بیٹیوں اور بہنوں (کے ساتھ نکاح) کی پیش کش نہ کیا کرو
حضرت زینب بنت ابی سلمہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ میری ہمشیرہ عزہ سے نکاح کر لیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو اس کو پسند کرتی ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس اکیلی تو نہیں ہوں، اور مجھے یہ بات انتہائی پسند ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کے شرف و بھلائی میں، میری بہن شریک ہو جائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے نکاح تو میرے لیے روا نہیں ہے۔ تو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپس میں گفتگو کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ کی بیٹی دُرہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوسلمہ کی بیٹی؟ میں نے عرض کی، جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ میری سرپرستی میں پرورش نہ پائے ہوتی۔ تو پھر بھی میرے لیے جائز نہ تھی۔ کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیوی ہے، مجھے اور ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا، اس لیے مجھ پر اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو پیش نہ کیا کرو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1449

   صحيح البخاري5372رملة بنت صخربنت أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5101رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5107رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5106رملة بنت صخرلو لم تكن ربيبتي ما حلت لي أرضعتني وأباها ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5123رملة بنت صخرأباها أخي من الرضاعة
   صحيح مسلم3588رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح مسلم3586رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأباها ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن النسائى الصغرى3289رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن النسائى الصغرى3288رملة بنت صخرأباها أخي من الرضاعة
   سنن النسائى الصغرى3287رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن النسائى الصغرى3286رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن ابن ماجه1939رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأباها ثويبة لا تعرضن علي أخواتكن ولا بناتكن
   مسندالحميدي309رملة بنت صخرفأفعل ماذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5372  
´آزاد اور لونڈی دونوں انا ہو سکتی ہیں یعنی دودھ پلا سکتی ہیں`
«. . . أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْكِحْ أُخْتِي بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: وَتُحِبِّينَ ذَلِكِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَارَكَنِي فِي الْخَيْرِ أُخْتِي، فَقَالَ: إِنَّ ذَلِكِ لَا يَحِلُّ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ . . .»
. . . ابوسلمہ کی صاحبزادی زینب نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بہن (عزہ بنت ابی سفیان) بنت ابی سفیان سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تم اسے پسند بھی کرو گی (کہ تمہاری بہن تمہاری سوکن بن جائے)؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، اس سے خالی تو میں اب بھی نہیں ہوں اور میں پسند کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو بھی بھلائی میں اپنے ساتھ شریک کر لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ یہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔ (دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! واللہ اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ام سلمہ کی بیٹی۔ جب میں نے عرض کیا، جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میری پرورش میں نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی وہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ پس تم میرے لیے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ: 5372]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5372کا باب: «بَابُ الْمَرَاضِعِ مِنَ الْمَوَالِيَاتِ وَغَيْرِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آزاد اور لونڈی دونوں دایہ کے ذریعے دودھ پلانے کا جواز قائم فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں لونڈی دایہ کے بارے میں واضح الفاظ موجود نہیں ہیں۔

ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«يشير بقوله: المواليات وغيرهن إلى أن حرمة الرضاع تنتشر، كانت المرضعة حرة أصلية، مولاة، او امه لأن ثويبة كانت مولاة أبى لهب .» [المتوري: ص 307]
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے، «المواليات وغيرهن» کے ذریعے کہ رضاعت کی حرمت منتشر ہے، چاہے دودھ پلانے والی «حره» ہو یا «أمة» کیوں کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھیں۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ثم حكم المواليات مستفاد من الحديث الذى أورده البخاري فى الباب، وأراد البخاري با يراد رواية عروة هنا، إيضاح ان ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 293/4]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وأراد بذكره هنا إيضاح أن ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة .» [فتح الباري لابن حجر: 441/10]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہاں اس کے ذکر سے اس امر کا ایضا ہے کہ ثوبیہ مولاۃ تھیں، اسی بات کی طرف علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اشارہ فرما رہے ہیں پس ایک نکتہ کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 123   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1939  
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کو پسند کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں آپ کے پاس اکیلی نہیں ہوں (کہ سوکن کا ہونا پسند نہ کروں) خیر میں میرے ساتھ شریک ہونے کی سب سے زیادہ حقدار میری بہن ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے لیے حلال نہیں ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں باتیں ہو رہی تھیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنا چاہت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1939]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔

(2)
سوتیلی بیٹی سے نکاح جائز نہیں۔

(3)
رضاعی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سے بھی اسی طرح نکاح حرام ہے جس طرح سگی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح حرام ہے۔

(4)
رضاعت کے رشتوں کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمی سے ایسی عورت سے نکاح نہ ہو جائے جس سے جائز نہیں۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے فرمایا:
اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی پیشکش نہ کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ام المومنین کی بہن سے نبی ﷺ اس لیے نکاح نہیں کر سکتے تھے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔
اور کسی بھی ام المومنین کی بیٹی جو نبی ﷺ کی ربیبہ (سوتیلی بیٹی)
تھی اس سے آپ کا نکاح جائز نہیں تھا۔

(6)
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ پیشکش غالباً اس لیے کر دی کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شریعت کے بعض احکام امت سے مختلف تھے، مثلاً:
آپ کا چار سے زیادہ خواتین کو بیک وقت نکاح میں رکھنا۔
انہوں نے سوچا ہوگا کہ شاید یہ رشتے بھی جو عام مومنوں کے لیے ممنوع ہیں نبی ﷺ کے لیے جائز ہوں گے۔
آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان مسائل میں آپ کے لیے الگ احکام نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1939   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.