الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
25. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الْخِفَافِ:
25. باب: موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا (جائز ہے)۔
(25) Chapter. To offer Salat (prayer) wearing Khuff (leather socks).
حدیث نمبر: 387
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت إبراهيم يحدث، عن همام بن الحارث، قال:" رايت جرير بن عبد الله بال، ثم توضا ومسح على خفيه، ثم قام فصلى فسئل، فقال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم صنع مثل هذا"، قال إبراهيم: فكان يعجبهم لان جريرا كان من آخر من اسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ:" رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فَسُئِلَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا"، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: فَكَانَ يُعْجِبُهُمْ لِأَنَّ جَرِيرًا كَانَ مِنْ آخِرِ مَنْ أَسْلَمَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے اعمش کے واسطہ سے، اس نے کہا کہ میں نے ابراہیم نخعی سے سنا۔ وہ ہمام بن حارث سے روایت کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز پڑھی۔ آپ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی نے کہا کہ یہ حدیث لوگوں کی نظر میں بہت پسندیدہ تھی کیونکہ جریر رضی اللہ عنہ آخر میں اسلام لائے تھے۔

Narrated Ibrahim: Hammam bin Al-Harith said, "I saw Jarir bin `Abdullah urinating. Then he performed ablution and passed his (wet) hands over his Khuffs (socks made from thick fabric or leather), stood up and prayed. He was asked about it. He replied that he had seen the Prophet doing the same." They approved of this narration as Jarir was one of those who embraced Islam very late.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 384


   صحيح البخاري387جرير بن عبد اللهبال ثم توضأ ومسح على خفيه
   صحيح مسلم622جرير بن عبد اللهبال ثم توضأ ومسح على خفيه
   جامع الترمذي93جرير بن عبد اللهتوضأ ومسح على خفيه
   جامع الترمذي611جرير بن عبد اللهتوضأ فمسح على خفيه
   جامع الترمذي94جرير بن عبد اللهتوضأ ومسح على خفيه
   سنن أبي داود154جرير بن عبد اللهرأيت رسول الله يمسح قالوا إنما كان ذلك قبل نزول المائدة قال ما أسلمت إلا بعد نزول المائدة
   سنن النسائى الصغرى775جرير بن عبد اللهبال ثم دعا بماء فتوضأ ومسح على خفيه
   سنن النسائى الصغرى118جرير بن عبد اللهتوضأ ومسح على خفيه
   سنن ابن ماجه359جرير بن عبد اللهدخل الغيضة فقضى حاجته فأتاه جرير بإداوة من ماء فاستنجى منها ومسح يده بالتراب
   سنن ابن ماجه543جرير بن عبد اللهتوضأ ومسح على خفيه
   مسندالحميدي815جرير بن عبد اللهرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على خفيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 154  
´موزوں پر مسح`
«. . . أَنَّ جَرِيرً بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَقَالَ:" مَا يَمْنَعُنِي أَنْ أَمْسَحَ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ؟ . . .»
. . . ابوزرعہ بن عمرو بن جریر کہتے ہیں کہ جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا تو دونوں موزوں پر مسح کیا اور کہا کہ مجھے مسح کرنے سے کیا چیز روک سکتی ہے جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (موزوں پر) مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 154]
فوائد و مسائل:
➊ حضرت جریر رضی اللہ عنہ سن دس ہجری کے شروع میں مسلمان ہوئے ہیں اور آیت وضو «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ» سورۂ مائدہ کی چھٹی آیت ہے۔ اس میں سر کے مسح کا ذکر ہے موزوں کا نہیں بلکہ پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہے۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ میں اس سورت کے نزول کے بعد اسلام لایا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے اور موزوں پر مسح کرتے خود دیکھا ہے۔ لہٰذا یہ عمل بلاشبہ صحیح، جائز اور مسنون ہے۔ منسوخ سمجھنا درست نہیں۔ شیعہ اور خوارج کے علاوہ اور کوئی اس کا منکر نہیں ہے۔
➋ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ اصول اٹل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسر اور مبین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: «وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ» اور ہم نے تمہاری طرف یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو جو ان کی طرف نازل کیا گيا ہے بالوضاحت بیان کر دیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 154   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 387  
´ موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا (جائز ہے) `
«. . . عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فَسُئِلَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا . . .»
. . . ہمام بن حارث سے روایت کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز پڑھی۔ آپ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/بَابُ الصَّلاَةِ فِي الْخِفَافِ: 387]

تخريج الحديث:
[155 البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 25 باب الصلاة فى الخفاف 387، مسلم 272، أبوداود 154، ترمذي 93]
لغوی توضیح:
«بَالَ» پیشاب کیا۔
«خُفَّيْه» اپنے موزوں (پر)، اس کی واحد «خُفّ» ہے۔
فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزوں پر مسح جائز ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کے اثبات میں متواتر احادیث موجود ہیں۔ [الصحيحة تحت الحديث: 2940، نظم الفرائد 254/1]
علاوہ ازیں ایک صحیح روایت میں جرابوں اور جوتوں پر مسح کے جواز کا بھی ذکر ہے۔ [صحيح: صحيح أبوداود 147، 148، إرواء الغليل 101، ترمذي 99، ابن ماجه 559]
لیکن مسح کے لئے یہ شرط ہے کہ موزے یا جرابیں وضو کی حالت میں پہنی ہوں۔ [شرح مسلم للنووي 173/2]
جیسا کہ آئندہ احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ مسح کی مدت مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن اور راتیں ہے۔ [مسلم: كتاب الطهارة 676، ابن ماجه 552]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 155   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 118  
´موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا: کیا آپ مسح کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسح کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 118]
118۔ اردو حاشیہ:
➊ موزوں پر مسح کرنااہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ شیعہ حضرات ہر حال میں ننگے پاؤں پر مسح کے قائل ہیں اور خوارج ہر حال میں پاؤں دھونے ہی کے قائل ہیں۔ اہل سنت چند شروط کے ساتھ موزوں پر مسح کے قائل و فاعل ہیں اور یہی درست ہے۔
➋ بعض حضرات جو مسح کے قائل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ موزوں کے مسح کی روایات سورۂ مائدہ کے نزول سے قبل کی ہیں کیونکہ سورۂ مائدہ میں وضو اور خصوصاً پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موزوں پر مسح کے جواز کے راوی سیدنا جریررضی اللہ عنہ بھی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس (40) دن قبل مسلمان ہوئے۔ ان کا آپ کو مسح کرتے دیکھنا قطعی دلیل ہے کہ موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ اس سے مسلک اہل سنت کی زبردست تائید ہوتی ہے، نیز یہ قرآنی حکم کے منافی بھی نہیں بلکہ قرآن مجید کے الفاظ ﴿وامسحوا برء وسکم وارجلکم﴾ [المآئدة: 6: 5]
میں أرجلکم کی ایک قرأت مجرور کی بھی ہے۔ اور علماء اس میں یہ تطبیق دیتے ہیں کہ اگر اسے مجرور پڑھا جائے تو اس کا مطلب موزوں پر مسح کرنا ہو گا۔ قرآن مجید اور سب احادیث کو ملانے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاؤں ننگے ہوں تو دھوئے جائیں اگر جرابوں اور موزوں میں ہوں تو ان پر مسح کیا جائے۔ اس طرح آیت وضو اور احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ شیعہ اور خوارج کی بات ماننے سے بہت سی صحیح روایات کا انکار کرنا پڑتا ہے اور یہ گمراہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 118   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 775  
´موزوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ہمام کہتے ہیں کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پیشاب کیا پھر پانی منگایا، اور وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 775]
775 ۔ اردو حاشیہ: موزوں میں نماز پڑھنا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 775   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث543  
´موزوں پر مسح کا بیان۔`
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے پوچھا گیا: کیا آپ ایسا کرتے ہیں؟ کہا: میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں: لوگ جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث پسند کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا، (کیونکہ سورۃ المائدہ میں پیر کے دھونے کا حکم تھا) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 543]
اردو حاشہ:
(1)
یہاں سورہ مائدہ کی طرف جو اشارہ دیا گیا ہے اس سے مراد سورہ مائدہ کی آیت نمبر6 ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔

(2)
اگر حضرت جریر رضی اللہ عنہ سورہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے مسلمان ہوئے ہوتے اور رسول اللہ ﷺکا موزوں پر مسح کرنا بیان فرماتے تو شبہ ہو سکتا تھا کہ مسح کا حکم مذکورہ بالا آیت سے منسوخ ہو گیا۔
 لیکن حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو ثابت ہوا کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ 10ھ میں اسلام لائے تھے۔

(3)
موزوں پر مسح کرنے کی روایات 80 صحابہ سے مروی ہیں جن میں حضرات عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔

(4)
موزوں پر مسح کو منسوخ قراردینے والی روایات اور قصے ناقابل اعتبار اور ناقابل احتجاج ہیں دیکھیے: (حاشہ وحید الزمان خان حدیث: 543)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 543   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 93  
´موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے کہا گیا: کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کام سے کون سی چیز روک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو جریر رضی الله عنہ کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیونکہ ان کا اسلام سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد کا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 93]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے،
موزوں پر مسح کی احادیث تقریباً اسی(80) صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں،
علامہ ابن عبدالبر نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے،
امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح علی خفین (موزوں پرمسح) کی احادیث تواتر تک پہنچی ہیں اور جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں مجھے ان کے کفرکا اندیشہ ہے،
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ مسح علی خفین کی حدیث کے راوی جریر رضی اللہ عنہ آیت مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے،
اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اورمخصص ہیں،
یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں،
رہا موزے پر مسح کا طریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے بھگو کر ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیاجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 93   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:387  
387. ہمام بن حارث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے ایک دفعہ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا تو اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز ادا کی، ان سے اس کی بابت پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی ؒ کہتے ہیں کہ اہل علم حضرات کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ آخر میں اسلام لائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:387]
حدیث حاشیہ:

شیعہ حضرات کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ موزے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے۔
گرمی اور سردی سے پاؤں کی حفاظت کا یہ دوسرا طریقہ ہے کہ زمین اور پاؤں کے درمیان موزوں کو حائل کردیا جائے۔
سورہ مائدہ میں آیت وضو کے نزول کے بعد بعض صحابہ کو شبہ ہو گیا تھا کہ شاید اب مسح کی اجازت منسوخ ہو چکی ہےاور پاؤں ہر حالت میں دھونے پڑیں گے۔
جب حضرت جریر ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ مسح کا حکم تو نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں۔
بعض روایات میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام لائے۔
(فتح الباري: 641/1)
اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات نے جو آیت مائدہ کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ پاؤں پر ہر حالت میں مسح کرنا چاہیے۔
یہ سراسر غلط ہے۔
اسی طرح خوارج کا تشدد بھی درست نہیں. 2۔
محمد بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جب حضرت جریر ؓ کو موزوں پر مسح کر کے ان میں نماز پڑھتے دیکھا۔
نیز سوال کرنے پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا مشاہدہ بیان کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مشاہدہ نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ انھوں نے فرمایا:
میں تو مسلمان ہی نزول سورہ مائدہ کے بعد ہوا ہوں۔
(جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 94)
اس حدیث پر امام ترمذی ؒ بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں:
اس حدیث نے خوب وضاحت کردی ہے، کیونکہ جو لوگ موزوں پر مسح کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موزوں پر مسح کی رخصت نزول سورہ مائدہ سے پہلے تھی، لیکن حضرت جریر ؓ کے عمل سے وضاحت ہو گئی کہ سورہ مائدہ میں وضو کے وقت پاؤں دھونے کا جو ذکر ہے، اس سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حکم آخر وقت تک باقی رہا۔
نوٹ:
حدیث مغیرہ بن شعبہ ؓ سے متعلقہ دیگر فوائد گزشتہ حدیث: 182۔
میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 387   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.