الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
48. بَابُ التَّارِيخِ مِنْ أَيْنَ أَرَّخُوا التَّارِيخَ:
48. باب: اسلامی تاریخ کب سے شروع ہوئی؟
(48) Chapter. At-Tarikh (Date-definition of time). When did the Muslim calendar start?
حدیث نمبر: 3934
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز، عن ابيه، عن سهل بن سعد، قال:" ما عدوا من مبعث النبي صلى الله عليه وسلم ولا من وفاته ما عدوا إلا من مقدمه المدينة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" مَا عَدُّوا مِنْ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا مِنْ وَفَاتِهِ مَا عَدُّوا إِلَّا مِنْ مَقْدَمِهِ الْمَدِينَةَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابوحازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ تاریخ کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے سال سے ہوا اور نہ آپ کی وفات کے سال سے بلکہ اس کا شمار مدینہ کی ہجرت کے سال سے ہوا۔

Narrated Sahl bin Sa`d: The Prophet's companions did not take as a starting date for the Muslim calendar, the day, the Prophet had been sent as an Apostle or the day of his death, but the day of his arrival at Medina.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 271


   صحيح البخاري3934سهل بن سعدما عدوا من مبعث النبي ولا من وفاته ما عدوا إلا من مقدمه المدينة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3934  
3934. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگوں نے تاریخ کا شمار نبی ﷺ کی بعثت سے نہیں کیا اور نہ آپ کی وفات ہی سے شمار کیا ہے بلکہ آپ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے تاریخ کا شمار کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3934]
حدیث حاشیہ:
ابن جوزی ؒ نے کہا جب دنیا میں آبادی زیادہ ہوگئی تو حضرت آدم کے وقت سے تاریخ کا شمار ہونے لگا اب آدم سے لے کر طوفان نوح تک ایک تاریخ ہے اور طوفان نوح سے حضرت ابراہیم ؑ کے آگ میں ڈالے جانے تک دوسری اور اس وقت سے حضرت یوسف ؑ تک تیسری۔
وہاں سے حضرت موسیٰ ؑ کی مصر سے روانہ ہونے تک چوتھی۔
وہاں سے حضرت داؤد ؑ تک پانچویں۔
وہاں سے حضرت سلیمان ؑ تک چھٹی اور وہاں سے حضرت عیسیٰ ؑ تک ساتویں ہے اور مسلمانوں کی تاریخ آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے شروع ہوتی ہے گو ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی مگر سال کا آغاز محرم سے رکھا۔
یہودی بیت المقدس کی ویرانی سے اور نصاریٰ حضرت مسیح ؑ کے اٹھ جانے سے تاریخ کا حساب کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3934   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3934  
3934. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگوں نے تاریخ کا شمار نبی ﷺ کی بعثت سے نہیں کیا اور نہ آپ کی وفات ہی سے شمار کیا ہے بلکہ آپ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے تاریخ کا شمار کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3934]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت کے چار سال بعد تاریخ کا آغاز کیا جب انھیں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے خط لکھا تھا کہ آپ کے خطوط ہمارے پاس آتے ہیں ان پر تاریخ نہیں ہوتی۔
آپ تاریخ لکھا کریں تاکہ واقعات کا حساب لگانے میں سہولت رہے اس لیے حضرت عمر ؓ نے تاریخ کا آغاز کیا۔
جب آپ نے تاریخ شروع کرنے کا ارادہ فرمایا۔
تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیا۔
کسی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے تاریخ کا آغاز کریں۔
کسی نے بعثت سے شروع کرنے کا مشورہ دیا اور کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے تاریخ چلانے کے لیے کہا۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا:
آپ ہجرت سے تاریخ کی ابتدا کریں کیونکہ ہجرت ہی حق و باطل کے درمیان امتیاز کرتی ہے۔
چنانچہ ان کے مشورے پر اتفاق کر لیا گیا اور سال کا پہلا مہینہ محرم سے شروع ہوا اگرچہ آپ کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری ماہ ربیع الاول میں ہوئی تھی لیکن سال کا آغاز محرم سے کیا کیونکہ آپ کی تیاری محرم میں شروع ہوچکی تھی جبکہ حج کے موقع ر بیعت عقبہ ثانیہ ہو چکی تھی، نیز یہ مہینہ حاجیوں کی واپسی کا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ ہجرت کے سولہویں یا سترھویں سال طے پایا۔
(فتح الباري: 336/7)

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ مقرر کرنے کی چار صورتیں تھیں یوم پیدائش یوم بعثت یوم وفات اور ہجرت یوم پیدائش اور یوم بعثت میں تو کافی اختلاف ہے یوم وفات حسرت و افسوس کا دن ہے، اس سے رسول اللہ ﷺ کی جدائی کی یاد تازہ ہوتی تھی۔
اس لیے ہجرت سے اسلامی سال کی ابتدا کی گئی اور درج ذیل آیت کریمہ سے اس کا استنباط کیا گیا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ مسجد جس کی پہلے دن سے تقوی پر بنیاد رکھی گئی تھی۔
(التوبة: 108/9)
مسجد کی بنیاد اس دن رکھی گئی جس دن رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینے میں داخل ہوئے۔

واضح رہے کہ عرب کے ہاں تاریخ قمری سال کے حساب سے ہے شمسی سال کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
اس حساب میں رات پہلے آتی ہےاور دن بعد میں ہوتا ہے کیونکہ چاند پہلے رات کو ظاہر کرتا ہے اس کے بعد دن کا آغاز ہوتا ہےبہرحال اہل اسلام نے اپنی تاریخ کا آغاز یکم محرم سے کیا اور اسے قرآنی آیت (مِن اَوَّلِ يَوم)
سے استنباط کیا کیونکہ اس وقت اسلامی ترقی کا آغاز ہوا اور امن سلامتی سے انھیں تبلیغ اسلام کا موقع ملا نیز مسجد قباء کی بنیاد رکھی گئی۔

یہودیوں نے بیت المقدس کی ویرانی اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے اٹھ جانے سے اپنی اپنی تاریخ کا آغاز کیا نیز یکم محرم سن ہجری کا آغاز ہے تکمیل نہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ آج یکم محرم 1429۔
کا آغاز ہے 1229 کی تکمیل نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3934   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.