الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
The Book of Agriculture
حدیث نمبر: 3959
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا الحسين بن محمد، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق، عن ابي عبيدة بن محمد، عن الوليد بن ابي الوليد، عن عروة بن الزبير، قال: قال زيد بن ثابت: يغفر الله لرافع بن خديج، انا والله اعلم بالحديث منه، إنما كانا رجلين اقتتلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن كان هذا شانكم فلا تكروا المزارع". فسمع قوله:" لا تكروا المزارع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَا وَاللَّهِ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، إِنَّمَا كَانَا رَجُلَيْنِ اقْتَتَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنُكُمْ فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ". فَسَمِعَ قَوْلَهُ:" لَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرمائے۔ اللہ کی قسم! میں یہ حدیث ان سے زیادہ جانتا ہوں، دو آدمی جھگڑ پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا یہ حال ہے تو تم کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، تو رافع نے آپ کا صرف یہ قول سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 31 (3390)، سنن ابن ماجہ/ الرہون 10(2461)، (تحفة الأشراف: 3730)، مسند احمد (5/182، 187) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابو عبیدة‘‘ لین الحدیث ہیں اور ’’الولید بن ابی الولید‘‘ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن النسائى الصغرى3959زيد بن ثابتإن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع
   سنن أبي داود3390زيد بن ثابتلا تكروا المزارع
   سنن ابن ماجه2461زيد بن ثابتإن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3390  
´زمین کا ٹھیکا`
«. . . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنَكُمْ، فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ: 3390]

فقہ الحدیث
↰ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے تھے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کے کرائے والی حدیث میں ممانعت کو مطلق سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز ہے، اسی لیے ان سے حدیث سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ٹھیکے کو ترک کر دیا تھا، لیکن ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث کی ممانعت کو ظلم و زیادتی والی صورتوں کے ساتھ خاص سمجھتے تھے، نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کو وہ بھی جائز سمجھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی یہ حدیث مطلق نہیں اور ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز نہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 39   
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2327  
´سونا اور چاندی کے عوض زمین کا ٹھیکے`
«. . . ومما يصاب الارض ويسلم ذلك، فنهينا واما الذهب والورق فلم يكن يومئذ . . .»
. . . بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ: 2327]

◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔»
اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔ [شرح السنة للبغوي: 263/8]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين: كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين»
سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية: 163]

◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و قال ابن المنذر: قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل»
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا)۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داود: 186/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم» ۔
زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد: 193/9]

◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق»
اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔ [احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: ص 380]
↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3959  
´(بٹائی کی دستاویز)`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرمائے۔ اللہ کی قسم! میں یہ حدیث ان سے زیادہ جانتا ہوں، دو آدمی جھگڑ پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا یہ حال ہے تو تم کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، تو رافع نے آپ کا صرف یہ قول سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3959]
اردو حاشہ:
(1) گویا اس دور کی مروجہ بٹائی کو روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تنازعات کا باعث تھی۔ اور آپ جھگڑے کو سخت ناپسند فرماتے تھے‘ لہٰدا اگر بٹائی کی ایسی صورت ہو جو تنازع اور جھگڑے کا سبب نہ بنے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آج کل بٹائی کا رواج ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔
(2) امام نسائی رحمہ اللہ نے بٹائی کے بارے میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت کو مختلف اسانید کے ساتھ تفصیل سے نقل فرمایا ہے تاکہ تمام جزئیات معلوم ہوجائیں۔ ان تمام روایات کو پڑھنے سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو کتاب المزارعۃ کے شروع میں ہے‘ نیز احادیث: 3892‘ 3893‘ 3898‘ 3904‘ 3921‘ 3925‘ 3933 اور 3943 میں متفرق طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مختصر احادیث غلط فہمی کا موجب بنتی ہیں مگر یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ فتویٰ کی بنیاد کوئی ایک آدھ روایت نہیں بن سکتی بلکہ اس مسئلے سے متعلق تمام وارد شدہ احادیث کو ملا کر نتیجہ نکالا جائے اور پھر اس کی روشنی میں مختلف روایات کو حل کیا جائے۔
(3) سابقہ تفصیلی روایات سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت جو اس باب میں مدار ہے‘ سخت اضطراب کی حامل ہے۔ سند کے لحاظ سے بھی اور متن کے لحاظ سے بھی لیکن تطبیق ممکن ہے‘ لہٰذا روایت اصلاً صحیح ہے۔ اضطراب اس وقت روایت کی صحت کے خلاف ہوتا ہے جب اس کا حل ممکن نہ ہو۔ مذکورہ بالا دستاویز اس صورت میں ہے جب بیج اور اخراجات مالک زمین کے ذمے طے کرلیے گئے ہوں اور پیداوار میں 1:3 کی نسبت طے کرلی گئی ہو لیکن ضروری نہیں کہ ہر بٹائی میں ایسے ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیج اور اخراجات دونوں کے ذمے ہوں اور حصہ نصف نصف ہو جیسے کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔ یا بیج اور اخراجات سب مزارع کے ذمے ہوں اور ا سکا حصہ پیداور میں مالک زمین سے زیادہ ہو۔ غرض وہ جن شرائط پر بھی اتفاق کرلیں‘ وہی معتبر ہوگی بشرطیکہ ان میں کسی ایک فریق پر ظلم یا دباؤ نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3959   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3390  
´مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے قسم اللہ کی میں اس حدیث کو ان سے زیادہ جانتا ہوں (واقعہ یہ ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کے دو آدمی آئے، پھر وہ دونوں جھگڑ بیٹھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو۔‏‏‏‏ مسدد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے آپ کی اتنی ہی بات سنی کہ زمین بٹائی پر نہ دیا کرو (موقع و محل اور انداز گفتگو پر دھیان نہیں دیا)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3390]
فوائد ومسائل:
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاملے میں اخفا الجھائو۔
یا دھوکے اور ضرر کی کیفیت تنازع پیدا کرتی ہے۔
اس لئے اس سے بچنے کےلئے مزارعت میں معاملہ کھلا شفاف اور واضح اور شریعت کی شرائط کے مطابق ہونا چاہیے۔
یا پھر سرے سے یہ معاملہ کیا ہی نہ جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3390   
حدیث نمبر: 3959M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال ابو عبد الرحمن: كتابة مزارعة على ان البذر والنفقة على صاحب الارض وللمزارع ربع ما يخرج الله عز وجل منها، هذا كتاب كتبه فلان بن فلان بن فلان في صحة منه، وجواز امر لفلان بن فلان إنك دفعت إلي جميع ارضك التي بموضع كذا في مدينة كذا مزارعة وهي الارض التي تعرف بكذا وتجمعها حدود اربعة يحيط بها كلها واحد تلك الحدود باسره لزيق كذا، والثاني والثالث والرابع دفعت إلي جميع ارضك هذه المحدودة في هذا الكتاب بحدودها المحيطة بها وجميع حقوقها وشربها وانهارها وسواقيها ارضا بيضاء فارغة لا شيء فيها من غرس، ولا زرع سنة تامة اولها مستهل شهر كذا من سنة كذا وآخرها انسلاخ شهر كذا من سنة كذا على ان ازرع جميع هذه الارض المحدودة في هذا الكتاب الموصوف موضعها فيه هذه السنة المؤقتة فيها من اولها إلى آخرها كل ما اردت وبدا لي ان ازرع فيها من حنطة، وشعير، وسماسم، وارز، واقطان، ورطاب، وباقلا، وحمص، ولوبيا، وعدس، ومقاثي، ومباطيخ، وجزر، وشلجم، وفجل، وبصل، وثوم، وبقول، ورياحين، وغير ذلك من جميع الغلات شتاء وصيفا ببزورك، وبذرك وجميعه عليك دوني على ان اتولى ذلك بيدي وبمن اردت من اعواني واجرائي وبقري وادواتي وإلى زراعة ذلك وعمارته والعمل بما فيه نماؤه ومصلحته وكراب ارضه وتنقية حشيشها، وسقي ما يحتاج إلى سقيه مما زرع، وتسميد ما يحتاج إلى تسميده، وحفر سواقيه وانهاره واجتناء ما يجتنى منه والقيام بحصاد ما يحصد منه وجمعه ودياسة ما يداس منه وتذريته بنفقتك على ذلك كله دوني واعمل فيه كله بيدي واعواني دونك على ان لك من جميع ما يخرج الله عز وجل من ذلك كله في هذه المدة الموصوفة في هذا الكتاب من اولها إلى آخرها فلك ثلاثة ارباعه بحظ ارضك وشربك وبذرك ونفقاتك ولي الربع الباقي من جميع ذلك بزراعتي وعملي وقيامي على ذلك بيدي واعواني ودفعت إلي جميع ارضك هذه المحدودة في هذا الكتاب بجميع حقوقها ومرافقها، وقبضت ذلك كله منك يوم كذا من شهر كذا من سنة كذا فصار جميع ذلك في يدي لك لا ملك لي في شيء منه ولا دعوى ولا طلبة إلا هذه المزارعة الموصوفة في هذا الكتاب في هذه السنة المسماة فيه، فإذا انقضت فذلك كله مردود إليك وإلى يدك ولك ان تخرجني بعد انقضائها منها وتخرجها من يدي ويد كل من صارت له فيها يد بسببي اقر فلان وفلان، وكتب هذا الكتاب نسختين.
قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كِتَابَةُ مُزَارَعَةٍ عَلَى أَنَّ الْبَذْرَ وَالنَّفَقَةَ عَلَى صَاحِبِ الْأَرْضِ وَلِلْمُزَارِعِ رُبُعُ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهَا، هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلَانُ بْنُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفُلَانِ بْنِ فُلَانٍ إِنَّكَ دَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ الَّتِي بِمَوْضِعِ كَذَا فِي مَدِينَةِ كَذَا مُزَارَعَةً وَهِيَ الْأَرْضُ الَّتِي تُعْرَفُ بِكَذَا وَتَجْمَعُهَا حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ يُحِيطُ بِهَا كُلِّهَا وَأَحَدُ تِلْكَ الْحُدُودِ بِأَسْرِهِ لَزِيقُ كَذَا، وَالثَّانِي وَالثَّالِثُ وَالرَّابِعُ دَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ هَذِهِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِحُدُودِهَا الْمُحِيطَةِ بِهَا وَجَمِيعِ حُقُوقِهَا وَشِرْبِهَا وَأَنْهَارِهَا وَسَوَاقِيهَا أَرْضًا بَيْضَاءَ فَارِغَةً لَا شَيْءَ فِيهَا مِنْ غَرْسٍ، وَلَا زَرْعٍ سَنَةً تَامَّةً أَوَّلُهَا مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا وَآخِرُهَا انْسِلَاخُ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَلَى أَنْ أَزْرَعَ جَمِيعَ هَذِهِ الْأَرْضِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ الْمَوْصُوفُ مَوْضِعُهَا فِيهِ هَذِهِ السَّنَةَ الْمُؤَقَّتَةَ فِيهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا كُلَّ مَا أَرَدْتُ وَبَدَا لِي أَنْ أَزْرَعَ فِيهَا مِنْ حِنْطَةٍ، وَشَعِيرٍ، وَسَمَاسِمَ، وَأُرْزٍ، وَأَقْطَانٍ، وَرِطَابٍ، وَبَاقِلَّا، وَحِمَّصٍ، وَلُوبْيَا، وَعَدَسٍ، وَمَقَاثِي، وَمَبَاطِيخَ، وَجَزَرٍ، وَشَلْجَمٍ، وَفُجْلٍ، وَبَصَلٍ، وَثُومٍ، وَبُقُولٍ، وَرَيَاحِينَ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ الْغَلَّاتِ شِتَاءً وَصَيْفًا بِبُزُورِكَ، وَبَذْرِكَ وَجَمِيعُهُ عَلَيْكَ دُونِي عَلَى أَنْ أَتَوَلَّى ذَلِكَ بِيَدِي وَبِمَنْ أَرَدْتُ مِنْ أَعْوَانِي وَأُجَرَائِي وَبَقَرِي وَأَدَوَاتِي وَإِلَى زِرَاعَةِ ذَلِكَ وَعِمَارَتِهِ وَالْعَمَلِ بِمَا فِيهِ نَمَاؤُهُ وَمَصْلَحَتُهُ وَكِرَابُ أَرْضِهِ وَتَنْقِيَةُ حَشِيشِهَا، وَسَقْيِ مَا يُحْتَاجُ إِلَى سَقْيِهِ مِمَّا زُرِعَ، وَتَسْمِيدِ مَا يُحْتَاجُ إِلَى تَسْمِيدِهِ، وَحَفْرِ سَوَاقِيهِ وَأَنْهَارِهِ وَاجْتِنَاءِ مَا يُجْتَنَى مِنْهُ وَالْقِيَامِ بِحَصَادِ مَا يُحْصَدُ مِنْهُ وَجَمْعِهِ وَدِيَاسَةِ مَا يُدَاسُ مِنْهُ وَتَذْرِيَتِهِ بِنَفَقَتِكَ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ دُونِي وَأَعْمَلَ فِيهِ كُلِّهِ بِيَدِي وَأَعْوَانِي دُونَكَ عَلَى أَنَّ لَكَ مِنْ جَمِيعِ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَلَكَ ثَلَاثَةُ أَرْبَاعِهِ بِحَظِّ أَرْضِكَ وَشِرْبِكَ وَبَذْرِكَ وَنَفَقَاتِكَ وَلِي الرُّبُعُ الْبَاقِي مِنْ جَمِيعِ ذَلِكَ بِزِرَاعَتِي وَعَمَلِي وَقِيَامِي عَلَى ذَلِكَ بِيَدِي وَأَعْوَانِي وَدَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ هَذِهِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِجَمِيعِ حُقُوقِهَا وَمَرَافِقِهَا، وَقَبَضْتُ ذَلِكَ كُلَّهُ مِنْكَ يَوْمَ كَذَا مِنْ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا فَصَارَ جَمِيعُ ذَلِكَ فِي يَدِي لَكَ لَا مِلْكَ لِي فِي شَيْءٍ مِنْهُ وَلَا دَعْوَى وَلَا طَلِبَةَ إِلَّا هَذِهِ الْمُزَارَعَةَ الْمَوْصُوفَةَ فِي هَذَا الْكِتَابِ فِي هَذِهِ السَّنَةِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ، فَإِذَا انْقَضَتْ فَذَلِكَ كُلُّهُ مَرْدُودٌ إِلَيْكَ وَإِلَى يَدِكَ وَلَكَ أَنْ تُخْرِجَنِي بَعْدَ انْقِضَائِهَا مِنْهَا وَتُخْرِجَهَا مِنْ يَدِي وَيَدِ كُلِّ مَنْ صَارَتْ لَهُ فِيهَا يَدٌ بِسَبَبِي أَقَرَّ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَكُتِبَ هَذَا الْكِتَابُ نُسْخَتَيْنِ.
ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: بٹائی کے معاملات کو (اس طرح) لکھنا چاہیئے کہ بیج اور اس کا خرچ زمین کے مالک پر ہو گا اور کھیتی کرنے والے کے لیے کھیتی میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پیداوار کا چوتھائی حصہ ہو گا ۱؎۔ یہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے فلاں بن فلاں کے لیے لکھی ہے، صحت و تندرستی کی حالت میں لکھا اور اس حال میں جب اس کے احکام نافذ ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنی ساری زمین جو فلاں مقام پر فلاں علاقے میں ہے مجھے بٹائی پر دی، اور یہ وہ زمین ہے جس کی پہچان یہ ہے: اس کی چوحدی یہ ہے کہ ان میں سے ایک فلاں مقام سے لگی ہوئی ہے، اسی طرح پھر دوسری، تیسری اور چوتھی حد بیان کرے۔ اس کتاب میں مذکور تمام حدود والی اپنی پوری زمین آپ نے مجھے دے دی۔ اور اس کے سارے حقوق، اس کا پانی، اس کی نہریں، اور نالیاں دے دیں، ایک ایسی زمین جو ہر چیز سے خالی ہے، نہ اس میں کھیتی ہے، نہ کوئی پودا، پورے ایک سال کے لیے جو فلاں سال، فلاں مہینے کی ابتداء سے شروع ہو گا، اور اس معاہدے کا اختتام فلاں سن کے فلاں مہینے کے خاتمے تک ہو گا۔ اس شرط پر کہ یہ پوری زمین جس کی حدیں اس معاہدہ میں بیان کی گئی ہیں اور جو فلاں مقام میں ہے اسے میں نے معینہ سال کے لیے شروع سے آخر تک کھیتی کے لیے لی، اور اس میں جب چاہوں اور جو چاہوں میں کھیتی کروں۔ گیہوں، جو، تل، چاول، روئی، کھجوریں، ساگ، چنا، لوبیا، مسور، کھیرا ککڑی، خربوزہ، گاجر، شلجم، مولی، پیاز، لہسن، یا ساگ یا بیل پھول وغیرہ، یعنی گرمی و سردی کے سارے غلے، اس طرح کہ بیج آپ کا ہو گا اور اس کی ساری محنت میری ہو گی، میرے ہاتھ کی یا اس کی جسے میں چاہوں اپنے دوستوں، مزدوروں اور بیل و ہل وغیرہ میں سے، میں اس میں کھیتی کروں گا، اسے آباد کروں گا اور ایسا کام کروں گا کہ اس سے نشو و نما ہو، وہ درست رہے، زمین میں ہل جوتوں گا، اس کی گھاس صاف کروں گا۔ اگی ہوئی کھیتی میں جسے پانی کی ضرورت ہو گی اس کی سینچائی کروں گا، اور جہاں کھاد کی ضرورت ہو گی کھاد ڈالوں گا، اس کی نالیاں اور نہریں کھودوں گا اور جو پھل توڑنا ضروری ہو گا اسے توڑوں گا۔ اور جس کھیتی کا کاٹنا ضروری ہو گا کاٹوں گا اور اکٹھا کروں گا اور جس فصل کی کٹائی ضروری ہو گی اسے کٹواؤں گا اور اس پر جو کچھ خرچ ہو گا وہ آپ کے ذمے ہو گا، نہ کہ میرے، اور یہ سب کام میں اپنے ہاتھ سے کروں گا یا اپنے مدد گاروں کے ذریعے نہ کہ آپ کی مدد سے، اس شرط پر کہ اس عہد نامے میں اس کے شروع سے لے کر آخر تک جو مدت ذکر کی گئی ہے اس پوری مدت میں جو اللہ تعالیٰ اس کھیت میں سے اگائے گا آپ کے لیے تین چوتھائی حصہ ہو گا، اس لیے کہ زمین آپ کی تھی، بیج آپ کا تھا اور خرچہ بھی آپ نے کیا تھا، اور میرے لیے اس پورے میں سے باقی چوتھائی حصہ ہو گا اس لیے کہ میں نے کھیتی کی، کام کیا اور اپنے ہاتھ سے اور اپنے کے مدد گاروں کے ہاتھ سے اسے سر کیا، اور آپ نے وہ پوری زمین جس کی حدود اس عہد نامے میں بیان کی گئی ہیں میرے حوالے کی، اس کے تمام حقوق اور لوازمات کے ساتھ اور میں نے یہ زمین آپ سے اپنے قبضے میں لی، فلاں سال کے فلاں ماہ کے فلاں دن سے۔ تو یہ پوری کی پوری میرے ہاتھ میں ہے جو آپ کی ہے، میری اس میں نہ کوئی ملکیت ہے اور نہ ہی کوئی دعویٰ اور نہ ہی کوئی مطالبہ، سوائے اس فصل اور پیداوار کے جو اس معینہ سال میں اس عہد نامے میں ذکر کی گئی ہے، اور جب مدت پوری ہو گی تو یہ پوری زمین آپ کو لوٹا دی جائے گی، وہ آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور مدت گزرنے کے بعد آپ کو اختیار ہو گا کہ آپ مجھے اس میں سے نکال دیں اور اسے میرے ہاتھ سے نکال لیں اور ہر اس شخص کے ہاتھ سے جس کا میری وجہ سے اس میں کوئی دخل تھا۔ فلاں اور فلاں نے یہ طے کیا، اور عہد نامہ کی دو کاپیاں لکھی گئیں۔

تخریج الحدیث: «t»

وضاحت:
بیج اور دیگر سارے اخراجات زمین کے مالک کی طرف سے اٹھانے کی صورت میں پیداوار کا تین حصہ مالک کا ہو گا اور ایک حصہ کاشت کار کا، اور اگر بیج اور دیگر سارے اخراجات کاشتکار برداشت کرے تو مالک کو پیداوار کا آدھا ملے گا، جیسا کہ خیبر کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم نے کیا تھا (دیکھئے حدیث نمبر ۳۹۶۱۱) ایسا بالکل نہیں ہے کہ بہر حال بیج و اخراجات صرف مالک پر ہوں تب ہی بٹائی کا معاملہ جائز ہے۔ جیسا کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے۔ مذکورہ حدیث سے ان کے قول کی تردید ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي:


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.