الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
30. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} :
30. باب: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ ”مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ“۔
(30) Chapter. The Statement of Allah: “... And take you (people) the Maqam (place) of Ibrahim (Abraham) (or the stone on which Abrahim stood while he was building the Kabah) as a place of prayer (for some of your Salat e.g., two Raka after the Tawaf of Kabah)...”
حدیث نمبر: 398
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، قال: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، عن عطاء، قال: سمعت ابن عباس، قال:" لما دخل النبي صلى الله عليه وسلم البيت دعا في نواحيه كلها، ولم يصل حتى خرج منه، فلما خرج ركع ركعتين في قبل الكعبة، وقال: هذه القبلة".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا، وَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى خَرَجَ مِنْهُ، فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قُبُلِ الْكَعْبَةِ، وَقَالَ: هَذِهِ الْقِبْلَةُ".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر پہنچائی عطاء ابن ابی رباح سے، انہوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: When the Prophet entered the Ka`ba, he invoked Allah in each and every side of it and did not pray till he came out of it, and offered a two-rak`at prayer facing the Ka`ba and said, "This is the Qibla."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 391


   صحيح البخاري398عبد الله بن عباسهذه القبلة
   صحيح مسلم3238عبد الله بن عباسدخل الكعبة وفيها ست سوار فقام عند سارية فدعا ولم يصل
   سنن النسائى الصغرى2916عبد الله بن عباسلم يصل النبي في الكعبة ولكنه كبر في نواحيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:398  
398. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، جب نبی ﷺ کعبے میں داخل ہوئے تو آپ نے اس کے سب گوشوں میں دعا فرمائی، باہر نکلنے تک بیت اللہ کے اندر کوئی نماز نہیں پڑھی۔ جب آپ بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو اس کے سامنے دو رکعت ادا کیں اور فرمایا: یہی قبلہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:398]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت مرسل ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ کے انر جانا ثابت نہیں، پھر وہ کعبے کے اندر کے حالات کیونکر بیان کرسکتے ہیں؟ لیکن امام مسلم ؒ نے ابن جریج کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ روایت حضر ت اسامہ ؓ بن زید سے سنی ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3237 (1330)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر صرف دعا کی ہے جبکہ حضرت بلال ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے دورکعت نماز بھی پڑھی تھی۔
اس موقع پر سیدنا بلال ؓ کی بات کااعتبار کیا یا ہے اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کی بات کو لاعلمی پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ کےاندر موجود تھے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تو آپ نے دعا شر وع کی، حضرت اسامہ بھی د عا میں مشغول ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ نے دعا سے فراغت کے بعد دورکعت ادا فرمالیں، لیکن حضرت اسامہ اپنی دعا ہی میں منہمک ہے۔
چونکہ حضرت بلال ؓ نے آپ کی نماز کامشاہدہ کیا، اس لیے اس مشاہدے کی وجہ سے، اسے ترجیح حاصل ہے۔
واللہ أعلم۔

قبلے کے متعلق تو معلوم ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی قبلہ ہے کے الفاظ کیوں ارشادفرمائے؟اس کے متعلق علماء کی کئی ایک توجہیات حسب ذیل ہیں:
۔
بیت المقدس سے تحویل قبلہ کاحکم ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اب قبلے کا حکم بیت اللہ پر ثابت ہوچکا ہے۔
اس میں اب نسخ نہیں ہوگا۔
۔
اس وضاحت میں ان لوگوں کا حکم بتایا جو بیت اللہ کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ ان کے لیے بعینہ بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔
اس کے برعکس جو بیت اللہ سے غائب ہیں وہ اپنے اجہتاد سے بھی کام لے سکتے ہیں۔
۔
امام کے لیے کھڑے ہونے کی تلقین فرمائی کہ مواجہ بیت اللہ میں کھڑا ہو۔
باقی جوانب میں بھی امام کاکھڑا ہوناجائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ بیت اللہ کے سامنے کھڑا ہو۔
۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوران نماز میں مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیاہے۔
(البقرة: 149/2)
رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ سے وضاحت فرمائی کہ قبلہ صرف بیت اللہ ہے، اس کے اردگرد جو مسجد حرام ہے یا مکہ مکرمہ یا حرم کی حدود میں یہ قبلہ نہیں ہیں۔
نماز کے لیے صرف بیت اللہ کی طرف منہ کیا جائے نہ کہ مسجد حرام کی طرف جو بیت اللہ کے ارد گرد کا علاقہ ہے۔
(فتح الباری: 650/1)

امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مقصود ہے کہ مقام ابراہیم کی طرف منہ کرناضروری نہیں، اصل قبلہ تو بیت اللہ ہے، لیکن ان الفاظ سے حضرت ابن عباس ؓ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھنی چاہیے، کیونکہ اس طرح پورے بیت اللہ کا استقبال نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ حصے کی طرف پیشت ہوجاتی ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہے۔
(فتح الباری: 649/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 398   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.