الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
185. باب مَا جَاءَ فِي نَسْخِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
185. باب: نماز میں بات چیت کے منسوخ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 405
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا إسماعيل بن ابي خالد، عن الحارث بن شبيل، عن ابي عمرو الشيباني، عن زيد بن ارقم، قال: " كنا نتكلم خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة، يكلم الرجل منا صاحبه إلى جنبه حتى نزلتوقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238 فامرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود , ومعاوية بن الحكم، قال ابو عيسى: حديث زيد بن ارقم حديث حسن صحيح والعمل عليه عند اكثر اهل العلم، قالوا: إذا تكلم الرجل عامدا في الصلاة او ناسيا اعاد الصلاة، وهو قول: سفيان الثوري , وابن المبارك واهل الكوفة، وقال بعضهم: إذا تكلم عامدا في الصلاة اعاد الصلاة وإن كان ناسيا او جاهلا اجزاه، وبه يقول: الشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: " كُنَّا نَتَكَلَّمُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، يُكَلِّمُ الرَّجُلُ مِنَّا صَاحِبَهُ إِلَى جَنْبِهِ حَتَّى نَزَلَتْوَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَمُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا تَكَلَّمَ الرَّجُلُ عَامِدًا فِي الصَّلَاةِ أَوْ نَاسِيًا أَعَادَ الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري , وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا تَكَلَّمَ عَامِدًا فِي الصَّلَاةِ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَجْزَأَهُ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «‏وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں قصداً یا بھول کر گفتگو کر لے تو نماز دہرائے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ جب نماز میں قصداً گفتگو کرے تو نماز دہرائے اور اگر بھول سے یا لاعلمی میں گفتگو ہو جائے تو نماز کافی ہو گی،
۴- شافعی اسی کے قائل ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمل فی الصلاة 2 (1200)، وتفسیر البقرة 42 (4534)، صحیح مسلم/المساجد 7 (539)، سنن ابی داود/ الصلاة 178 (949)، سنن النسائی/السہو20 (1220)، (تحفة الأشراف: 3661)، مسند احمد (4/368)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة برقم: 2986) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے، بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ بشرطیکہ تھوڑی ہو ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (875)، الإرواء (393)

   سنن النسائى الصغرى1220زيد بن أرقمالرجل يكلم صاحبه في الصلاة بالحاجة على عهد رسول الله حتى نزلت هذه الآية حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين فأمرنا بالسكوت
   صحيح البخاري1200زيد بن أرقمكنا لنتكلم في الصلاة على عهد النبي يكلم أحدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت حافظوا على الصلوات فأمرنا بالسكوت
   صحيح مسلم1203زيد بن أرقمكنا نتكلم في الصلاة يكلم الرجل صاحبه وهو إلى جنبه في الصلاة حتى نزلت وقوموا لله قانتين فأمرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام
   جامع الترمذي405زيد بن أرقمحتى نزلت وقوموا لله قانتين
   جامع الترمذي2986زيد بن أرقمكنا نتكلم على عهد رسول الله في الصلاة فنزلت وقوموا لله قانتين
   سنن أبي داود949زيد بن أرقمأمرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام
   بلوغ المرام173زيد بن أرقميكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 173  
´نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے`
«. . . وعن زيد بن ارقم انه قال: إن كنا لنتكلم في الصلاة على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت (حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين) فامرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام . . .»
. . . سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دوران نماز ہم ایک دوسرے سے بات چیت کر لیا کرتے اور اپنی ضرورت و حاجت ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے تاآنکہ «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» آیت نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور نماز میں گفتگو اور کلام کرنے سے منع کر دیا گیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 173]

لغوی تشریح:
«إِنْ كُنَّا» یہ «إِنْ» مخففہ من المثقلہ ہے، یعنی «إِنَّ» سے «إِنْ» بنایا گیا ہے۔ اور اس کا اسم محذوف ہے، یعنی «إِنَّا» یا «إِنَّهُ» ۔ اور «كُنَّا» اس کی خبر ہے۔
«وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰي» واؤ اس جگہ تخصیص کے لیے ہے، یعنی خاص طور پر صلاۃ وسطی کی حفاظت کرو۔ اور صحیح ترین قول کے مطابق اس سے نماز عصر مراد ہے۔
«قَانِتِينَ» ڈرتے، سہمے اور خاموش رہتے ہویے۔ قنوت کے متعدد معانی ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے سکوت کے معنی لیے ہیں۔ انہوں نے یہ معنی قراین کی بنا پر اخذ کیے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کی روشنی میں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے۔
➋ آغاز اسلام میں کلام کی اجازت تھی جسے بعد میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔

راویٔ حدیث:
(زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) انصار کے قبیلۂ خزرج میں سے ہیں، اس لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوعمرو ہے۔ پہلی مرتبہ غزوہ خندق میں شامل ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سترہ غزوات میں شریک ہوئے۔ معرکہ صفین کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے بلکہ ان کے مخصوص اصحاب میں شامل تھے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور 66 ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 173   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 949  
´نماز میں بات چیت منع ہے۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو چاہتا نماز میں اپنے بغل والے سے باتیں کرتا تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے چپ چاپ کھڑے رہو (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 949]
949۔ اردو حاشیہ:
نماز میں گفتگو حرام ہے۔ الا یہ کہ خطا اور نسیان سے کوئی لفظ زبان سے نکل جائے تو معاف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 949   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 405  
´نماز میں بات چیت کے منسوخ ہونے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «‏وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 405]
اردو حاشہ:
1؎:
رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے،
بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ بشرطیکہ تھوڑی ہو ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 405   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.